عوام کی سیاسی تقسیم کا نتیجہ
عوام کے اس سیاسی شعور کی وجہ سے سیاستدانوں کے لیے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کرنا آسان نہیں رہتا۔
FRANCE:
پاکستان کے عوام 70 سال سے بھوک افلاس غربت بے روزگاری تعلیم اور علاج سے محرومی جیسی بے شمار اذیتوں میں مبتلا ہیں ۔ عوام کی بھاری اکثریت ان عذابوں کو قسمت کا لکھا سمجھتی ہے جس کی وجہ سے عذاب دینے والی طاقتیں محفوظ رہتی ہیں اور یہ صورتحال علم اور شعورکی کمی کی وجہ سے پیش آتی ہے۔
پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں عوام کو جان بوجھ کر علم وآگہی سے دور رکھا جا رہا ہے کیونکہ جب عوام علم و آگہی کی دولت سے ہمکنار ہوں گے تو پھر سیاسی اشرافیہ کا جادو ان پر نہیں چل سکے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے اشرافیہ عوام کو علم وآگہی سے دور رکھتی ہے اور ان سادہ لوح انسانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ عوام کی طاقت کو توڑنے کے لیے انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے رکھا گیا ہے، ان تقسیموں میں سب سے زیادہ خطرناک عوام کی سیاسی تقسیم ہے۔20 کروڑ عوام مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہیں۔
ویسے تو یہ تقسیم ساری دنیا میں موجود ہے لیکن اس تقسیم میں شعور اور سیاسی بصیرت کا دخل ہوتا ہے۔ یہ تقسیم سیاسی جماعتوں کے منشور سیاستدانوں کے کیریکٹر سے نتھی ہوتی ہے خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے عوام سیاسی پارٹیوں کے منشور اور سیاستدانوں کی ذاتی زندگی کو دیکھ کر ہی کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے سیاستدان آسانی سے عوام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔
عوام کے اس سیاسی شعور کی وجہ سے سیاستدانوں کے لیے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کرنا آسان نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو اپنے منشورکے مطابق عوام کے مسائل حل کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل کو سامنے رکھ کر اپنے منشور ترتیب دیتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی رہنما ہمیشہ عوام میں رہتے ہیں اور عوام ان سے جواب طلب کرسکتے ہیں۔
اس کلچر کی وجہ سے ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کے مسائل حل ہوتے رہتے ہیں ان ملکوں میں کام کی تقسیم کے حوالے سے بلدیاتی ادارے موجود ہوتے ہیں جن کا کام عوام کی علاقائی مسائل حل کرنا ہوتا ہے چونکہ ان ملکوں میں سیاسی اخلاقیات کا ایک مضبوط نظام موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے لوٹ مار کی وہ صورتحال نہیں ہوتی جو پسماندہ ملکوں میں دیکھی جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں کے جمہوری نظام میں شخصیت پرستی کا تصور نہیں ہوتا، ان ملکوں کی دوسری خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اپنی ٹرم پوری کرنے کے بعد شرافت سے اقتدار سے دست بردار ہوجاتی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار سے الگ ہوکر ذاتی زندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں آئینی طور پر کسی منتخب وزیر اعظم کو دو بار سے زیادہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان رہنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے ان ملکوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا اور اپنے منشور کے مطابق عوام کی خدمت کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ شخصیت پرستی اور خاندانی حکمرانی کا تصور ان ملکوں میں اس لیے موجود نہیں کہ ان ملکوں نے صدیوں پہلے جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا تھا جو شخصیت پرستی اور خاندانی حکمرانیوں کی ترغیب فراہم کرتا ہے۔
یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود یہاں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جو لوگ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا فخر سے اعلان کر رہے ہیں سراسر جھوٹ بول رہے ہیں ۔کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر کے مختلف علاقوں میں مختلف دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔پانی زندگی کی اہم ضرورت ہے لیکن عالم یہ ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں انسانی فضلہ ملا پانی عوام کو سپلائی کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کو پانی کی گندگی کے حوالے سے ازخود نوٹس لینا پڑ رہا ہے۔
پانی بجلی صفائی جیسے مسائل کا حل بلدیاتی اداروں کی ذمے داری ہے لیکن ہماری جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو عضو معطل بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ ہر جمہوری ملک میں بلدیاتی ادارے مالی اور انتظامی طور پر بااختیار ہوتے ہیں لیکن ہماری ملکیت خداداد کا عالم یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شہر گندگی کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں بجلی پانی کی حالت شرمناک ہے۔
علاقائی مسائل حل طلب ہیں ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہماری نااہلی بددیانتی کارکردگی کے فقدان کی وجہ سے سماجی اور سیاسی معاملات میں اعلیٰ عدالتوں کو ازخود نوٹس لے کر حالات کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ عدالتوں کا اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں بلکہ حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ ہماری اشرافیہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے جس کا نتیجہ بدانتظامی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
یہ کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تمام نوآزاد ملکوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا جو ہزار برائیوں کی جڑ بنا ہوا تھا لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام نہ صرف موجود ہے بلکہ سیاست پر حاوی ہے۔ ہمارے سیاستدان کہتے ہیں کہ پاکستان سے جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا ہے لیکن اخباروں میں خود سیاستدان ان جاگیرداروں کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں جو آج بھی لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ جب تک جاگیردارانہ باقیات ملک میں موجود رہیں گی اس کے لوازمات بھی ہمارے ملک میں موجود رہیں گے۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز عوام کی سیاسی تقسیم کے نقصانات سے کیا تھا ۔ دنیا میں بھی عوام اپنی پسند کی جماعتوں میں شامل رہتے ہیں لیکن دنیا کے جمہوری ملکوں میں عوام کی سیاسی تقسیم عموماً سیاسی پارٹیوں کے منشور اور سیاسی رہنماؤں کے کردار کے حوالے سے ہوتی ہے ہمارے ملک کی بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کی سیاسی تقسیم نہ پارٹیوں کے منشور سے ہوتی ہے نہ سیاستدانوں کے کردار کے حوالوں سے ہوتی ہے۔
ہمارے عوام کی تقسیم صرف اور صرف لیڈران کرام کی شخصیات کے حوالے سے ہوتی ہے جمہوری ملکوں کے باشعور عوام پارٹیوں کے منشور کے حوالے سے پارٹیوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں صرف اور صرف لیڈران کی شخصیت لیڈران کی دولت مندی لیڈران کی خاندانی وجاہت کے حوالے حمایت کی جاتی ہے اور یہ کلچر جاگیردارانہ اخلاقیات کا مظہر ہوتا ہے۔ شخصیت پرستوں نے ہمارے ملک ہماری سیاست کا بیڑا غرق کردیا ہے۔
ہماری دوسری خوبی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے اس کے علاوہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی کئی درجن ہیں۔ اشرافیہ کے مقاصد تو ہمیشہ مشترک ہی ہوتے ہیں لیکن عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے علیحدہ علیحدہ ناموں سے جماعتیں بنائی جاتی ہیں اور عوام ان جماعتوں کے شاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں کو اپنی حمایت اور فرمانبرداری کا یقین دلاتے ہیں اور ان کے جلسوں جلوسوں کو کامیاب بناکر انھیں عوام میں مقبولیت کا سرٹیفکیٹ فراہم کرتے ہیں جب تک عوام اشرافیائی پارٹیوں میں تقسیم رہیں گے اور اپنی طبقاتی پارٹیاں بناکر اپنی بستیوں اپنے علاقوں سے اپنی قیادت آگے نہیں لائیں گے اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔
پاکستان کے عوام 70 سال سے بھوک افلاس غربت بے روزگاری تعلیم اور علاج سے محرومی جیسی بے شمار اذیتوں میں مبتلا ہیں ۔ عوام کی بھاری اکثریت ان عذابوں کو قسمت کا لکھا سمجھتی ہے جس کی وجہ سے عذاب دینے والی طاقتیں محفوظ رہتی ہیں اور یہ صورتحال علم اور شعورکی کمی کی وجہ سے پیش آتی ہے۔
پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں عوام کو جان بوجھ کر علم وآگہی سے دور رکھا جا رہا ہے کیونکہ جب عوام علم و آگہی کی دولت سے ہمکنار ہوں گے تو پھر سیاسی اشرافیہ کا جادو ان پر نہیں چل سکے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے اشرافیہ عوام کو علم وآگہی سے دور رکھتی ہے اور ان سادہ لوح انسانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ عوام کی طاقت کو توڑنے کے لیے انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے رکھا گیا ہے، ان تقسیموں میں سب سے زیادہ خطرناک عوام کی سیاسی تقسیم ہے۔20 کروڑ عوام مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہیں۔
ویسے تو یہ تقسیم ساری دنیا میں موجود ہے لیکن اس تقسیم میں شعور اور سیاسی بصیرت کا دخل ہوتا ہے۔ یہ تقسیم سیاسی جماعتوں کے منشور سیاستدانوں کے کیریکٹر سے نتھی ہوتی ہے خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے عوام سیاسی پارٹیوں کے منشور اور سیاستدانوں کی ذاتی زندگی کو دیکھ کر ہی کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے سیاستدان آسانی سے عوام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔
عوام کے اس سیاسی شعور کی وجہ سے سیاستدانوں کے لیے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کرنا آسان نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو اپنے منشورکے مطابق عوام کے مسائل حل کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل کو سامنے رکھ کر اپنے منشور ترتیب دیتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی رہنما ہمیشہ عوام میں رہتے ہیں اور عوام ان سے جواب طلب کرسکتے ہیں۔
اس کلچر کی وجہ سے ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کے مسائل حل ہوتے رہتے ہیں ان ملکوں میں کام کی تقسیم کے حوالے سے بلدیاتی ادارے موجود ہوتے ہیں جن کا کام عوام کی علاقائی مسائل حل کرنا ہوتا ہے چونکہ ان ملکوں میں سیاسی اخلاقیات کا ایک مضبوط نظام موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے لوٹ مار کی وہ صورتحال نہیں ہوتی جو پسماندہ ملکوں میں دیکھی جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں کے جمہوری نظام میں شخصیت پرستی کا تصور نہیں ہوتا، ان ملکوں کی دوسری خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اپنی ٹرم پوری کرنے کے بعد شرافت سے اقتدار سے دست بردار ہوجاتی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار سے الگ ہوکر ذاتی زندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں آئینی طور پر کسی منتخب وزیر اعظم کو دو بار سے زیادہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان رہنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے ان ملکوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا اور اپنے منشور کے مطابق عوام کی خدمت کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ شخصیت پرستی اور خاندانی حکمرانی کا تصور ان ملکوں میں اس لیے موجود نہیں کہ ان ملکوں نے صدیوں پہلے جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا تھا جو شخصیت پرستی اور خاندانی حکمرانیوں کی ترغیب فراہم کرتا ہے۔
یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود یہاں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جو لوگ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا فخر سے اعلان کر رہے ہیں سراسر جھوٹ بول رہے ہیں ۔کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر کے مختلف علاقوں میں مختلف دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔پانی زندگی کی اہم ضرورت ہے لیکن عالم یہ ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں انسانی فضلہ ملا پانی عوام کو سپلائی کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کو پانی کی گندگی کے حوالے سے ازخود نوٹس لینا پڑ رہا ہے۔
پانی بجلی صفائی جیسے مسائل کا حل بلدیاتی اداروں کی ذمے داری ہے لیکن ہماری جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو عضو معطل بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ ہر جمہوری ملک میں بلدیاتی ادارے مالی اور انتظامی طور پر بااختیار ہوتے ہیں لیکن ہماری ملکیت خداداد کا عالم یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شہر گندگی کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں بجلی پانی کی حالت شرمناک ہے۔
علاقائی مسائل حل طلب ہیں ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہماری نااہلی بددیانتی کارکردگی کے فقدان کی وجہ سے سماجی اور سیاسی معاملات میں اعلیٰ عدالتوں کو ازخود نوٹس لے کر حالات کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ عدالتوں کا اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں بلکہ حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ ہماری اشرافیہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے جس کا نتیجہ بدانتظامی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
یہ کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تمام نوآزاد ملکوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا جو ہزار برائیوں کی جڑ بنا ہوا تھا لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام نہ صرف موجود ہے بلکہ سیاست پر حاوی ہے۔ ہمارے سیاستدان کہتے ہیں کہ پاکستان سے جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا ہے لیکن اخباروں میں خود سیاستدان ان جاگیرداروں کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں جو آج بھی لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ جب تک جاگیردارانہ باقیات ملک میں موجود رہیں گی اس کے لوازمات بھی ہمارے ملک میں موجود رہیں گے۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز عوام کی سیاسی تقسیم کے نقصانات سے کیا تھا ۔ دنیا میں بھی عوام اپنی پسند کی جماعتوں میں شامل رہتے ہیں لیکن دنیا کے جمہوری ملکوں میں عوام کی سیاسی تقسیم عموماً سیاسی پارٹیوں کے منشور اور سیاسی رہنماؤں کے کردار کے حوالے سے ہوتی ہے ہمارے ملک کی بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کی سیاسی تقسیم نہ پارٹیوں کے منشور سے ہوتی ہے نہ سیاستدانوں کے کردار کے حوالوں سے ہوتی ہے۔
ہمارے عوام کی تقسیم صرف اور صرف لیڈران کرام کی شخصیات کے حوالے سے ہوتی ہے جمہوری ملکوں کے باشعور عوام پارٹیوں کے منشور کے حوالے سے پارٹیوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں صرف اور صرف لیڈران کی شخصیت لیڈران کی دولت مندی لیڈران کی خاندانی وجاہت کے حوالے حمایت کی جاتی ہے اور یہ کلچر جاگیردارانہ اخلاقیات کا مظہر ہوتا ہے۔ شخصیت پرستوں نے ہمارے ملک ہماری سیاست کا بیڑا غرق کردیا ہے۔
ہماری دوسری خوبی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے اس کے علاوہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی کئی درجن ہیں۔ اشرافیہ کے مقاصد تو ہمیشہ مشترک ہی ہوتے ہیں لیکن عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے علیحدہ علیحدہ ناموں سے جماعتیں بنائی جاتی ہیں اور عوام ان جماعتوں کے شاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں کو اپنی حمایت اور فرمانبرداری کا یقین دلاتے ہیں اور ان کے جلسوں جلوسوں کو کامیاب بناکر انھیں عوام میں مقبولیت کا سرٹیفکیٹ فراہم کرتے ہیں جب تک عوام اشرافیائی پارٹیوں میں تقسیم رہیں گے اور اپنی طبقاتی پارٹیاں بناکر اپنی بستیوں اپنے علاقوں سے اپنی قیادت آگے نہیں لائیں گے اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔