ایس تھری منصوبے کے ایک ارب روپے سے دیگر ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں

منصوبے پرکیے گئے اخراجات اورتین سال میں ملنے والے فنڈزکی تفصیلات فراہم کی جائے،پروجیکٹ ڈائریکٹرکا اکاؤنٹس افسرکومراسلہ

منصوبے پرکیے گئے اخراجات اور تین سال میں ملنے والے فنڈز کی تفصیلات فراہم کی جائے، پروجیکٹ ڈائریکٹر کا اکاؤنٹس افسر کو مراسلہ۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو ایس تھری منصوبے کی مد میں ملنے والی تقریباً ایک ارب کی رقم سے ادارے کی انتظامیہ نے خلاف ضابطہ دیگر ٹھیکیداروں کو ادا کردی ہے جو کہ نہ صرف سنگین مالی بے ضابطگی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ ایس تھری منصوبے کے تعمیراتی کام کے آغاز اور تکمیل میں غیرمعمولی تاخیر کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔

واٹر بورڈ کی انتظامیہ اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے، باخبر ذرائع نے اس امر کا انکشاف کرتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ واٹربورڈ میں اپنی نوعیت کی اس سنگین مالیاتی بے ضابطگی کا انکشاف ادارے کے ایک افسر نے ہی کیا۔

ادارے میں ایس تھری پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ایوب شیخ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران نے بھاری نذرانوں کے عوض ٹھیکیداروں کو ایس تھری منصوبے کی مد میں آنے والے کم و بیش ایک ارب ادا کردیے ہیں جبکہ ایس تھری کی مد میں فی الحال نہ تو واٹربورڈ کے پاس کوئی فنڈ ہے اور نہ ہی واٹربورڈ کی مالیاتی حالت ایسی ہے کہ اس منصوبے کے لیے کسی اور مد سے اتنی بڑی رقم فراہم کی جاسکے جس پر پروجیکٹ ڈائریکٹر ایوب شیخ نے ادارے کے ڈائریکٹر اکاؤنٹس عمران زیدی سے تحریری جواب طلب کیا ہے۔

اس سلسلے میں لکھے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ایس تھری کی مد میں وفاقی وصوبائی حکومت کی طرف سے گزشتہ 3 سال میں جو فنڈز فراہم کیے گئے ہیں اوراس منصوبے پر جو اخراجات ہوچکے ہیں، ان کی فوری طور پر تفصیلات فراہم کی جائے، ذرائع نے بتایا کہ جب پروجیکٹ ڈائریکٹر نے یہ خط لکھا تو ڈائریکٹر اکاؤنٹس نے جواب دینے کے بجائے ادارے کے مینجنگ ڈائریکٹر کو آگاہ کیا کہ یہ ادائیگیاں میں نے آپ کی ہدایت پر کی ہیں تاہم اس کے باوجود پروجیکٹ ڈائریکٹر اس معاملے کو ایشو بنانا چارہا ہے۔




اگر اس معاملے کو یہاں پر نہیں روکا گیا تو معاملات تفتیشی اداروں تک جاسکتے ہیں جس سے ادارے کے لیے مختلف نوعیت کے مسائل پیدا ہوجا ئیں گے، ذرائع نے بتایا کہ اس پر ادارے کے ایم ڈی نے پروجیکٹ ڈائریکٹر سے سخت باز پرس کرتے ہوئے کہا کہ ان کو یہ بات تحریر میں نہیں لانی چاہیے تھی ایم ڈی نے پروجیکٹ ڈائریکٹر سے بھی کہا کہ وہ خط کو واپس لے لے تاہم پروجیکٹ ڈائریکٹر نے یہ خط واپس لینے سے واضح لفظوں میں نہ صرف انکار کردیا ہے بلکہ یہ واضح بھی کردیا ہے کہ اگر ان کو تفصیلات فراہم نہ کی گئیں تو یہ وہ یہ معاملہ اعلیٰ حکام تک لے جائیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پر ایم ڈی واٹربورڈ اور پروجیکٹ ڈائریکٹر میں سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تاہم پروجیکٹ ڈائریکٹر نے اپنا موقف نرم کرنے سے قطعی طور پر انکار کردیا اورایم ڈی سے کہا کہ وہ کراچی کے اتنے اہم منصوبے کو ناکام بنانے کی کسی سازش کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں، ذرائع نے بتایا کہ اس صورتحال سے واٹربورڈ کی انتظامیہ بہت پریشان ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ معاملے سے کس طرح نکلا جائے، واضح رہے کہ ایک منصوبے کی مد میں آنے والی رقم دیگر منصوبوں کے ٹھیکیداروں کو دینا واٹربورڈ میں ایک روایت بنتا جارہا ہے ۔

گزشتہ کچھ عرصہ قبل گورنر سندھ نے دھابیجی پر ایک نئے پمپنگ اسٹیشن کا افتتاح کیا تھا، اس مد میں سندھ حکومت نے واٹربورڈ کو 30کروڑ روپے فراہم کیے تھے جو کہ واٹربورڈ کی انتظامیہ نے دیگر ٹھیکیداروں کو فراہم کردیے اور منصوبے پر آج تک کام شروع نہیں ہوسکا۔
Load Next Story