بیک ڈور ڈپلومیسی متحرک ہوگئی
پاکستان کو بڑی تبدیلیوں کے لیے تین ماہ کا وقت مل گیا ہے تاکہ وہ واچ لسٹ سے بچ سکے
پاک امریکا تعلقات میں تناؤ اور سرد مہری کے خاتمے کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی غالباً متحرک ہوگئی ہے جس کا اندازہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خصوصی معاون اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کی سینئر ڈائریکٹر برائے جنوبی و وسطی ایشیا لیزا کرٹس کی سربراہی میں کونسل وفد کے پاکستان کا ہنگامی دورہ کرنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ امریکی وفد نے پیر کو وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔لیزا کرٹس کا شمار پاکستان مخالف لابی میں کیا جاتا ہے ، وہ اس سے قبل 12 اکتوبر2017 ء کو بھی اسلام آباد کا دورہ کرچکی ہیں، ان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیکیورٹی امور اور دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاک امریکا تعلقات تلخی اور سرد مہری کی ایک غیر معمولی سطح پر ہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے دہری ڈپلومیسی کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ایک طرف ٹرمپ کی روایتی امریکی ''چھڑی'' stick استعمال ہورہی ہے ، دوسری طرف ترک تعلق سے گریزپائی ، سینٹرل کمانڈ کے جنرلوں کی یقین دہانیوں اور پاکستان کو اہم ملک اور اتحادی کے طور پر ساتھ لے کر چلنے کی کرم نوازیوں کا سلسلہ جاری ہے، اس غیر یقینی صورتحال میں پاکستان کے لیے صرف ایک آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی استحکام، دہشتگردی کی باقیات کے خاتمے اور انتہاپسندوں کے حوالے سے مالی معاونت اور حمایت کے الزامات سے بری الذمہ ہونے کے لیے کھل کر میدان میں آئے۔
دنیا کو باور کرانے کی ضرورت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک افغانستان اپنی غلطیوں، الزام تراشیوں اور پاکستان مخالف ہشتگردی کے طالبانی اڈوں کو ملیا میٹ کرکے پاکستان کی طرف دوستی اور مفاہمت و اشتراک کا ہاتھ نہیں بڑھاتا، پیرس اجلاس کے بعد اب سیاسی مبصرین اور ہمارے خیر خواہ بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چین ، سعودی عرب اور ترکی کی خیر سگالی کی بھی کوئی حد ہوگی لہذا ہمیں خود اپنے خلاف پھیلائے گئے جال کو نوچ کر پھینکنا اور ہر قسم کی بیساکھیوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی تاکہ الزامات کی بارش سنگ رکے تو سہی۔ بلاشبہ پاکستان کے خلاف عالمی قوتوں کے ارادوں سے محاصرے کے ایک گریٹر گیمزکا عندیہ ملتا ہے، ایک طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئے سال کے موقعے پر کیے گئے پاکستان مخالف ٹویٹ سے صورتحال کشیدہ ہوئی ۔
دوسری جانب پیرس میں ختم ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی امریکی تحریک کے سنگین مضمرات اجاگر ہوئے ہیں ، اس تحریک کی حمایت برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے کی ، تاہم چین ، سعودی عرب اور ترکی کے مثبت کردار اور تحریک کی مخالفت کے باعث امریکی عزائم کی تکمیل میں رخنہ پڑگیا ، پاکستان کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ امریکا ہمیں پریشان کررہا ہے ۔
واضح رہے پاکستان کے سیاسی حلقے لیزا کرٹس کے ہنگامی دورہ کوپاک امریکا تعلقات میں تلخی کے فوری ازالہ کی سفارتی کوشش قراردے رہے ہیں ۔ وزیرداخلہ احسن اقبال نے امریکی وفد پر زور دیا کہ پاک امریکا تعلقات کی بنیاد سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ترقی میں شراکت داری کی بنیاد پر بھی ہونے چاہئیں۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ امریکا اور پاکستان میں اہم آہنگی دہشتگردی کو شکست دینے کے لیے نہایت اہم ہے ، پاکستان، افغانستان میں دیرپا امن کا خواہاں ہے جب کہ پاکستان میں دہشتگردی کی کمر توڑی جا چکی ہے۔ وزیر داخلہ نے امریکی وفد کو پاکستانی عوام کے نکتہ نظر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ عزت و آبرو پر مبنی تعلقات سے پاکستان اور امریکا خطے میں امن کے لیے ملکر کام کرسکتے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق لیزا کرٹس نے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے پاک امریکا تعلقات اور دوطرفہ تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا ، ایک خبر کے مطابق پاکستان نے چین اور سعودی عرب کے ساتھ چھوڑنے کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی واچ لسٹ سے بچنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
وزیر مملکت خزانہ رانا محمد افضل نے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معاملے پر یکم مارچ کے بعد اجلاس شروع کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا حکمت عملی مرتب کی جانی چاہیے ۔ ایک سفارتی ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ پیرس میں گزشتہ ہفتے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں تنظیم کے ارکان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے ناکافی اقدامات کرنے پر پاکستان کا نام جون میں گرے لسٹ میں شامل کرنے کی حمایت کی ہے جس سے پاکستان کو بڑی تبدیلیوں کے لیے تین ماہ کا وقت مل گیا ہے تاکہ وہ واچ لسٹ سے بچ سکے ۔
خیال رہے لیزا کرٹس ایک ایسے مشکل وقت میں پاکستان کے دورہ پر آئی ہیں جب کہ ایف اے ٹی ایف اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کے گٹھ جوڑ میں ناکامی کے بعد اب مودی سرکار پاک بھارت مذاکرات کی دعوت دینے کے لیے پر تول رہی ہے، بہر حال ارباب اختیار کو عسکری، سیاسی اور سفارتی محاذ پر دانشمندی کے ساتھ ملکی مفاد کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاک امریکا تعلقات تلخی اور سرد مہری کی ایک غیر معمولی سطح پر ہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے دہری ڈپلومیسی کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ایک طرف ٹرمپ کی روایتی امریکی ''چھڑی'' stick استعمال ہورہی ہے ، دوسری طرف ترک تعلق سے گریزپائی ، سینٹرل کمانڈ کے جنرلوں کی یقین دہانیوں اور پاکستان کو اہم ملک اور اتحادی کے طور پر ساتھ لے کر چلنے کی کرم نوازیوں کا سلسلہ جاری ہے، اس غیر یقینی صورتحال میں پاکستان کے لیے صرف ایک آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی استحکام، دہشتگردی کی باقیات کے خاتمے اور انتہاپسندوں کے حوالے سے مالی معاونت اور حمایت کے الزامات سے بری الذمہ ہونے کے لیے کھل کر میدان میں آئے۔
دنیا کو باور کرانے کی ضرورت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک افغانستان اپنی غلطیوں، الزام تراشیوں اور پاکستان مخالف ہشتگردی کے طالبانی اڈوں کو ملیا میٹ کرکے پاکستان کی طرف دوستی اور مفاہمت و اشتراک کا ہاتھ نہیں بڑھاتا، پیرس اجلاس کے بعد اب سیاسی مبصرین اور ہمارے خیر خواہ بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چین ، سعودی عرب اور ترکی کی خیر سگالی کی بھی کوئی حد ہوگی لہذا ہمیں خود اپنے خلاف پھیلائے گئے جال کو نوچ کر پھینکنا اور ہر قسم کی بیساکھیوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی تاکہ الزامات کی بارش سنگ رکے تو سہی۔ بلاشبہ پاکستان کے خلاف عالمی قوتوں کے ارادوں سے محاصرے کے ایک گریٹر گیمزکا عندیہ ملتا ہے، ایک طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئے سال کے موقعے پر کیے گئے پاکستان مخالف ٹویٹ سے صورتحال کشیدہ ہوئی ۔
دوسری جانب پیرس میں ختم ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی امریکی تحریک کے سنگین مضمرات اجاگر ہوئے ہیں ، اس تحریک کی حمایت برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے کی ، تاہم چین ، سعودی عرب اور ترکی کے مثبت کردار اور تحریک کی مخالفت کے باعث امریکی عزائم کی تکمیل میں رخنہ پڑگیا ، پاکستان کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ امریکا ہمیں پریشان کررہا ہے ۔
واضح رہے پاکستان کے سیاسی حلقے لیزا کرٹس کے ہنگامی دورہ کوپاک امریکا تعلقات میں تلخی کے فوری ازالہ کی سفارتی کوشش قراردے رہے ہیں ۔ وزیرداخلہ احسن اقبال نے امریکی وفد پر زور دیا کہ پاک امریکا تعلقات کی بنیاد سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ترقی میں شراکت داری کی بنیاد پر بھی ہونے چاہئیں۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ امریکا اور پاکستان میں اہم آہنگی دہشتگردی کو شکست دینے کے لیے نہایت اہم ہے ، پاکستان، افغانستان میں دیرپا امن کا خواہاں ہے جب کہ پاکستان میں دہشتگردی کی کمر توڑی جا چکی ہے۔ وزیر داخلہ نے امریکی وفد کو پاکستانی عوام کے نکتہ نظر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ عزت و آبرو پر مبنی تعلقات سے پاکستان اور امریکا خطے میں امن کے لیے ملکر کام کرسکتے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق لیزا کرٹس نے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے پاک امریکا تعلقات اور دوطرفہ تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا ، ایک خبر کے مطابق پاکستان نے چین اور سعودی عرب کے ساتھ چھوڑنے کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی واچ لسٹ سے بچنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
وزیر مملکت خزانہ رانا محمد افضل نے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معاملے پر یکم مارچ کے بعد اجلاس شروع کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا حکمت عملی مرتب کی جانی چاہیے ۔ ایک سفارتی ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ پیرس میں گزشتہ ہفتے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں تنظیم کے ارکان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے ناکافی اقدامات کرنے پر پاکستان کا نام جون میں گرے لسٹ میں شامل کرنے کی حمایت کی ہے جس سے پاکستان کو بڑی تبدیلیوں کے لیے تین ماہ کا وقت مل گیا ہے تاکہ وہ واچ لسٹ سے بچ سکے ۔
خیال رہے لیزا کرٹس ایک ایسے مشکل وقت میں پاکستان کے دورہ پر آئی ہیں جب کہ ایف اے ٹی ایف اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کے گٹھ جوڑ میں ناکامی کے بعد اب مودی سرکار پاک بھارت مذاکرات کی دعوت دینے کے لیے پر تول رہی ہے، بہر حال ارباب اختیار کو عسکری، سیاسی اور سفارتی محاذ پر دانشمندی کے ساتھ ملکی مفاد کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔