شہباز شریف اور مسلم لیگ کی صدارت
بیوروکرٹیس کو خوش رکھنا سیاستدانوں کی مجبوری ہے۔ الا ما شا اللہ دونوں مل کر کھاتے ہیں
آخر کار پاکستان کی تاریخ میں وہ موڑ بھی آگیا جب مسلم لیگ ن کی مجلس عاملہ نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی شہباز شریف کو قائم مقام صدر بنانے کی منظوری دیدی۔ اب برائے نام پارٹی الیکشن ہوں گے جس میں دوبارہ خادم اعلیٰ کو مستقل پارٹی صدر منتخب کیا جائے گا۔شہباز شریف 1985 میں لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر اور لاہور میٹرو پولیٹن مسلم لیگ کے صدر رہے۔1988 ،1990 ،1993 1997 ،2008 اور2013 میں رکنِ پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔
جب کہ 1997،2008، اور 2013 میں وزیر اعلیٰ پنجاب بنے۔ لیکن اس دوران وہ مضبوط منسٹریٹر تو ثابت ہوئے مگر کمزور ترین سیاست دان اور وزیر بھی ثابت ہوئے جنہوں نے تمام اداروں کو ''ون مین شو'' بنا ڈالا۔ ہر وزارت انھوں نے اپنے پاس رکھی، صحت، تعلیم ، قانون و غیرہ جیسی وزارتیں دوسروں کو ملیں وہ بھی برائے نام ہی تھیں۔ اس لیے میں اکثر یہی کہتا رہا کہ اگر ہر کام وزیراعلیٰ کو کرنا ہے تو اداروں کا کیا کردار ہے؟احد چیمہ جیسے چہیتوںکے نام منظر عام پر آرہے ہیں تو اداروں میں میرٹ کہاں ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف سے اداروں کی کوتاہی، غیر ذمے داری اور کرپشن ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف دل برداشتہ دکھائی دیتے ہیں۔ کرپٹ افراد کو طوق پہنانے کو دل کرتا ہے ان کا بلکہ چوک میں الٹا لٹکانے کو بھی جی کرتا ہو گا مگر دھمکانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ اداروں میں بھرتیاں حکومت کرتی ہے اور ناکامی کی ذمے دار بھی حکومت ہے۔ اس ملک کا کرپٹ ترین شعبہ بیوروکریسی ہے۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن بیوروکریسی المعروف ''پبلک سرونٹ'' ہر حکومت کو استعمال کرتی ہے۔ بیوروکریسی کسی حکومت کی سگی نہیں، فقط مفادات کی سگی ہے۔
بیوروکرٹیس کو خوش رکھنا سیاستدانوں کی مجبوری ہے۔ الا ما شا اللہ دونوں مل کر کھاتے ہیں۔ ملی بھگت سے وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ تک حقائق پہنچنے نہیں دیتے۔ حکومت جانتے بوجھتے غیر متعلقہ افراد کو اہم شعبوں کے حساس عہدے سونپ دیتی ہے۔ سیاست دو چیزوں کی محتاج ہے۔ ووٹ اور نوٹ ! ایک شریف آدمی نہ ووٹ لا سکتا ہے نہ نوٹ۔ ووٹ اور نوٹ کے لیے شرافت سے زیادہ بدمعاشی کی ضرورت ہے۔ بدمعاشی سے ووٹ اور نوٹ تو مل جاتے ہیں لیکن نظام اور عوام کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ویسے تو پاکستان کے تمام اداروں کی صورتحال شرمناک ہے لیکن شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ بجٹ میں صوبوں کے لیے اربوں روپیہ مختص کیا جاتا ہے لیکن پورے ملک میں غریب کا بچہ صاف پانی پینے کے لیے تڑپ رہا ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اگر مسٹر خادم اعلیٰ کو ہی پارٹی صدر بنانا تھا تو چھ ماہ پہلے صدر بنانے میں کیا مضائقہ تھا؟ ایک فرد واحد کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کی گئی، پارلیمنٹ کو ذات کے لیے استعمال کرکے اسے گالیاں دلوائی گئیں۔ ہمیں یہ علم ہی نہیں ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ لاہور کی چند سڑکوں کو بہتر بنا کر ایک جھوٹا ماڈل پیش کیا جا رہا ہو ۔آپ لاہور سے باہر قدم رکھ لیں، آپ کو ترقی کے دعوئوں کا بخوبی علم ہو جائے گا۔ ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ''تھنک ٹینک'' کوئی نہیں جو ہماری ترجیحات کے بارے میں فیصلہ کرے، کیا میٹرو پر اتنے پیسے خرچنے ضروری تھے؟ کیا اورنج ٹرین پر اس قدر پیسا بہانا ٹھیک ہے؟کیا تعلیم اور صحت ترجیحات نہیں ہونی چاہیے تھیں؟کیا صاف پینے کا پانی ترجیح نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اگر یہ حکومتی ترجیحات نہیں ہیں تو آخر ترجیحات ہیں کیا؟ یہاں تو ہر چیز میں کرپشن نظر آرہی ہے۔
حقیقت میں حکمرانوں کی ترجیحات محض ''ڈیکوریشن'' ہے۔ اداروں میں جب دل چاہتا ہے من مرضی کے لوگوں کو اعلیٰ عہدوں سے نواز دیا جاتا ہے اور جب چاہتا ہے ایل ڈی اے کی حدود کو لاہور ڈویژن تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ ایل ڈی اے کے افسر سے اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں وہ خود بھی گرفت میں نہ آجائیں ، ان کا کہنا تھا کہ بے ایمانی کی بات نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی پراجیکٹ کے لیے ڈاکیومنٹیشن کا عمل ہی نہیں مکمل کیا گیا ۔ اور کیا ن لیگ کو پارٹی میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو خاندان کے باہر سے ہو اور اسے پارٹی صدر بنا دیا جاتا، جب شریف فیملی جدہ میں تھی، تو جاوید ہاشمی ن لیگ کے صدر رہے۔
اسی لیے تو میں اکثر کہتا ہوں کہ جب براوقت آتا ہے تو انھیں دوست احباب یاد آجاتے ہیں ورنہ انھیں تو اپنا آپ بھی یاد نہیں رہتا۔ چوہدری نثار بھی متنازعہ اسی لیے ہیںکہ ا نہوں نے خاندانی بادشاہت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ خیر اب جب کہ میاں شہباز شریف پارٹی صدر بھی بن گئے ہیں اور پورے ملک کے ایم این ایز ، سینیٹرز کی سلیکشن کی ذمے داری بھی انھی پر ہے تو یہ یقینا ان پر بڑی ذمے داری ہے کہ وہ کچھ نہ کریں، صرف اپنی پارٹی میں اور پنجاب میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر کر لیں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ترجیحات ٹھیک کر لیں، تعلیم پر فوکس کریں ، ڈیکوریشن کو اپنی زندگی سے نکال دیں تو ملک حقیقی معنوں میں ترقی کرے گا اور عوام بھی کہیں گے کہ انھیں خادم نہیں بلکہ مسیحا مل گیا ہے!
جب کہ 1997،2008، اور 2013 میں وزیر اعلیٰ پنجاب بنے۔ لیکن اس دوران وہ مضبوط منسٹریٹر تو ثابت ہوئے مگر کمزور ترین سیاست دان اور وزیر بھی ثابت ہوئے جنہوں نے تمام اداروں کو ''ون مین شو'' بنا ڈالا۔ ہر وزارت انھوں نے اپنے پاس رکھی، صحت، تعلیم ، قانون و غیرہ جیسی وزارتیں دوسروں کو ملیں وہ بھی برائے نام ہی تھیں۔ اس لیے میں اکثر یہی کہتا رہا کہ اگر ہر کام وزیراعلیٰ کو کرنا ہے تو اداروں کا کیا کردار ہے؟احد چیمہ جیسے چہیتوںکے نام منظر عام پر آرہے ہیں تو اداروں میں میرٹ کہاں ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف سے اداروں کی کوتاہی، غیر ذمے داری اور کرپشن ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف دل برداشتہ دکھائی دیتے ہیں۔ کرپٹ افراد کو طوق پہنانے کو دل کرتا ہے ان کا بلکہ چوک میں الٹا لٹکانے کو بھی جی کرتا ہو گا مگر دھمکانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ اداروں میں بھرتیاں حکومت کرتی ہے اور ناکامی کی ذمے دار بھی حکومت ہے۔ اس ملک کا کرپٹ ترین شعبہ بیوروکریسی ہے۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن بیوروکریسی المعروف ''پبلک سرونٹ'' ہر حکومت کو استعمال کرتی ہے۔ بیوروکریسی کسی حکومت کی سگی نہیں، فقط مفادات کی سگی ہے۔
بیوروکرٹیس کو خوش رکھنا سیاستدانوں کی مجبوری ہے۔ الا ما شا اللہ دونوں مل کر کھاتے ہیں۔ ملی بھگت سے وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ تک حقائق پہنچنے نہیں دیتے۔ حکومت جانتے بوجھتے غیر متعلقہ افراد کو اہم شعبوں کے حساس عہدے سونپ دیتی ہے۔ سیاست دو چیزوں کی محتاج ہے۔ ووٹ اور نوٹ ! ایک شریف آدمی نہ ووٹ لا سکتا ہے نہ نوٹ۔ ووٹ اور نوٹ کے لیے شرافت سے زیادہ بدمعاشی کی ضرورت ہے۔ بدمعاشی سے ووٹ اور نوٹ تو مل جاتے ہیں لیکن نظام اور عوام کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ویسے تو پاکستان کے تمام اداروں کی صورتحال شرمناک ہے لیکن شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ بجٹ میں صوبوں کے لیے اربوں روپیہ مختص کیا جاتا ہے لیکن پورے ملک میں غریب کا بچہ صاف پانی پینے کے لیے تڑپ رہا ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اگر مسٹر خادم اعلیٰ کو ہی پارٹی صدر بنانا تھا تو چھ ماہ پہلے صدر بنانے میں کیا مضائقہ تھا؟ ایک فرد واحد کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کی گئی، پارلیمنٹ کو ذات کے لیے استعمال کرکے اسے گالیاں دلوائی گئیں۔ ہمیں یہ علم ہی نہیں ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ لاہور کی چند سڑکوں کو بہتر بنا کر ایک جھوٹا ماڈل پیش کیا جا رہا ہو ۔آپ لاہور سے باہر قدم رکھ لیں، آپ کو ترقی کے دعوئوں کا بخوبی علم ہو جائے گا۔ ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ''تھنک ٹینک'' کوئی نہیں جو ہماری ترجیحات کے بارے میں فیصلہ کرے، کیا میٹرو پر اتنے پیسے خرچنے ضروری تھے؟ کیا اورنج ٹرین پر اس قدر پیسا بہانا ٹھیک ہے؟کیا تعلیم اور صحت ترجیحات نہیں ہونی چاہیے تھیں؟کیا صاف پینے کا پانی ترجیح نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اگر یہ حکومتی ترجیحات نہیں ہیں تو آخر ترجیحات ہیں کیا؟ یہاں تو ہر چیز میں کرپشن نظر آرہی ہے۔
حقیقت میں حکمرانوں کی ترجیحات محض ''ڈیکوریشن'' ہے۔ اداروں میں جب دل چاہتا ہے من مرضی کے لوگوں کو اعلیٰ عہدوں سے نواز دیا جاتا ہے اور جب چاہتا ہے ایل ڈی اے کی حدود کو لاہور ڈویژن تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ ایل ڈی اے کے افسر سے اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں وہ خود بھی گرفت میں نہ آجائیں ، ان کا کہنا تھا کہ بے ایمانی کی بات نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی پراجیکٹ کے لیے ڈاکیومنٹیشن کا عمل ہی نہیں مکمل کیا گیا ۔ اور کیا ن لیگ کو پارٹی میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو خاندان کے باہر سے ہو اور اسے پارٹی صدر بنا دیا جاتا، جب شریف فیملی جدہ میں تھی، تو جاوید ہاشمی ن لیگ کے صدر رہے۔
اسی لیے تو میں اکثر کہتا ہوں کہ جب براوقت آتا ہے تو انھیں دوست احباب یاد آجاتے ہیں ورنہ انھیں تو اپنا آپ بھی یاد نہیں رہتا۔ چوہدری نثار بھی متنازعہ اسی لیے ہیںکہ ا نہوں نے خاندانی بادشاہت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ خیر اب جب کہ میاں شہباز شریف پارٹی صدر بھی بن گئے ہیں اور پورے ملک کے ایم این ایز ، سینیٹرز کی سلیکشن کی ذمے داری بھی انھی پر ہے تو یہ یقینا ان پر بڑی ذمے داری ہے کہ وہ کچھ نہ کریں، صرف اپنی پارٹی میں اور پنجاب میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر کر لیں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ترجیحات ٹھیک کر لیں، تعلیم پر فوکس کریں ، ڈیکوریشن کو اپنی زندگی سے نکال دیں تو ملک حقیقی معنوں میں ترقی کرے گا اور عوام بھی کہیں گے کہ انھیں خادم نہیں بلکہ مسیحا مل گیا ہے!