جمہوریتآمریت اور اشتمالیت

عدالتی فیصلے کو ماننا چاہیے توکیا وہ بھٹوکی پھانسی کی عدالتی فیصلے کو مانتے ہیں؟

zb0322-2284142@gmail.com

سرمایہ داری بنیادی طور پہ طبقاتی نظام ہے جہاں سرمایہ دارمحنت کش عوام کا استحصال کرتا ہے۔ اس کا بنیادی ڈھانچہ ریاست کی شکل میں آیا۔ ریاست کو وجود میں آئے ہوئے تین ہزار سال کے لگ بھگ ہوئے ہیں، جب کہ بے قاعدہ وجود میں آئے ہوئے چھ ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ نہ ہوگا۔ یعنی غیرطبقاتی نظام یا قدیم کمیونسٹ نظام اس سے قبل کم ازکم پچاس ہزار سال پر محیط رہا۔ سرمایہ داری میں ریاست اپنی تمام تر جبر واستبداد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

چونکہ ریاست صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے اس لیے وہ ہمیشہ انھیں طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ جو نوے فیصد مزدورکسان اور نچلا متوسط طبقات کی کسی بھی صورت میں تحفظ نہیں کرتی ہے۔ ان ہی کا خون چوس کر سرمایہ دارکروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بن جاتے ہیں۔ اسی لیے آج دنیا کے آٹھ امیرترین افراد دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں جب کہ اسی دنیا میں روزانہ پچھتر ہزار انسان صرف بھوک سے مررہے ہیں ۔

ہم اکثر یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ جمہوریت کو بچانا ہے۔ جمہوریت درحقیقت کوئی نظام نہیں ہے۔ جمہوریت اکثریتی فیصلے اور آزادی اظہارکا نام ہے ۔ نظام نہیں ہے ، نظام درحقیقت امداد باہمی کا آزاد معاشرہ یا قدیم غلامانہ نظام ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اور پھرکمیونسٹ نظام ہے۔ جمہوریت تو غلامانہ نظام میں بھی تھی مگر صرف آقاؤں کے مابین، جاگیردارانہ نظام میں صرف جاگیرداروں کے مابین، سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ داروں تک جب کہ امداد باہمی کے سماج میں سب کے لیے جمہوریت ہوتی ہے ۔ غلامانہ نظام سے سرمایہ داری تک طبقاتی نظام ہوتا ہے جب کہ کمیونزم میں طبقات نہیں ہوتے اور جب طبقات نہیں ہوتے تو استحصال بھی نہیں ہوتا، پھر سب ملکر پیداوارکرتے ہیں اور ملکر بانٹ لیتے ہیں ۔

یعنی سرمایہ داری ناپید ہوجاتی ہے ۔ دورجدید میں کہیں سول حکومت ہے توکہیں فوجی آمریت ہے توکہیں بادشاہت، مگر ہے یہ سرمایہ دارا نہ نظام کے ماتحت ۔درحقیقت جب کوئی یہ کہتا ہے کہ نظام کو بچانا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سرمایہ داری کو بچانا چاہتا ہے ، ہاں مگر یہ جھگڑا ضرور بر قرار رہتا ہے کہ اس سرمایہ داری کو بچانے کے لیے فوجی آمریت کو استعمال کیا جائے ، جمہوری انتخابات کوکام میں لیا جائے یا مذہبی ملائیت کو برو ئے کر لایا جا ئے یا بادشاہت کو ۔ سرمایہ داری کو بچانے کے لیے ان چارطریقوں میں سے انتخابات کے ذریعے سول حکومت قائم کرنے سے اظہارخیال کی مقابلتا آ زادی ملتی ہے ۔جس طرح مطلق سوشلزم کے مقابلے میں آزاد سوشلزم میں یہ موقع بہتر طور پر حاصل ہوسکتا ہے کہ کمیونزم کی جانب تیز تر پیش قدمی کی جائے ۔ سرمایہ دارانہ نظام بلا الٹ پھیر یا اٹھا پٹخ کے چل نہیں سکتا۔

یہ تضادات آج پاکستان میں بڑی شدومد سے نظرآرہے ہیں۔ایک جانب توہین عدالت پرنہال ہاشمی کو سزا دی جا تی ہے جب کہ خادم حسین رضوی انتہا درجے کی توہین عدالت کرنے کے باوجود سزا تو درکنار ان کی تنظیم کے کارکنوں میں انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ایک جانب پرویز مشرف کو آئین توڑنے پر سزا دینے کے بجائے، انھیں پارٹی بنانے اور دنیا بھر میں گھومنے پھرنے کی آزادی ہے دوسری جانب منتخب وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قراردیا جاتا ہے ۔


ایک جانب تو مقبول ترین لیڈر اور منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکو پھانسی دی جا تی ہے جب کہ جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور پرویز مشرف پرکوئی مقدمہ چلایا گیا اورنہ کوئی سزا ہوئی۔ شیخ مجیب کے قاتلوں کا مقدمہ چلا اور سزا بھی دی گئی جب کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔ نواز شریف نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سرمایہ کو مرکوزکیا ہے تو آصف علی زرداری نے بھی سوئز بینک میں اربوں ڈا لر جمع کیے ہوئے ہیں، باہاما لیکس میں ایک آف شورکمپنی کے ڈائریکٹر پروفیسر غفور بھی ہیں، کامران کیانی دس ارب رو پے لے کر بھاگے ہوئے ہیں، ان کا بھی کچھ نہیں بگڑا۔ عدالتیں ہمیشہ مارشل لا ء کو جائز قرار دیتی آئی ہیں۔

کسی جج پر مقدمہ نہیں چلا۔ لودھراں کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست ہونے پر عمران خان نے کہا کہ ایک بچے نے اکانوے ہزار ووٹ لیے ہیں مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس بچے کے اکاؤنٹ میں صرف تین ارب پینسٹھ کروڑ بیلینس تھا۔کہا جاتا ہے کہ تمام اداروں کے سربراہان عوام کے خادم ہیں جب کہ یہ عملا مطلق حکمران ہیں۔ حزب اختلاف کے رہنما خورشید شاہ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کو ماننا چاہیے توکیا وہ بھٹوکی پھانسی کی عدالتی فیصلے کو مانتے ہیں؟

اب ذرا عالمی طور پر جمہوری اہداف کو دیکھتے ہیں ۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ایک نظر دیکھیں ۔اس نے ٹرمپ کی بیہودگی ، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اقدامات اور بیانات کو وینیزویلا کی حکو مت سے جوڑ دیا ہے ، جب کہ وینزویلا میں با قاعدہ پارلمینٹ اور صدارتی انتخابات ہورہے ہیں، ہاں اس نے آئی ایم ایف اور ورلڈ کے قرضے لینا بندکردیا ہے، وہاں کے صدرکا تعلق سوشلسٹ موومنٹ سے ہے ، اس لیے عالمی سامراج نے اس پر طرح طرح کی معاشی اور سیاسی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔

برطانیہ کے حزب اختلاف کے رہنما جیمری کوربون نے بیان دیا تھا کہ '' میں اگر وزیر اعظم بن گیا تو ایٹم بم مارنے کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لوں گا اور جنگ نہیں ہونے دوں گا جس پر برطانوی چیف آف آرمی اسٹاف نے جوابی بیان دیا تھا کہ ہم پھر بغاوت کردیں گے ، جب کہ ہر ملک کا فوجی سر براہ اور عدالت عظمیٰ کا سربراہ یہ حلف لیتا ہے کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لے گا۔ جب برطانیہ کی پارلیمنٹ کی اکثریت نے یہ فیصلہ کیا کے افغانستان پر حملہ نہ کیا جائے پھر بھی حملہ ہوا ۔ روم میں تیس لاکھ اور لندن میں بیس لاکھ کمیونسٹ پارٹیوں اور دیگر جنگ مخا لف جماعتوں نے عراق اور افغانستان پر سامراجی حملے کے خلاف جلوس نکالا پھر بھی حملہ ہوا ۔سوئیٹزر لینڈ میں 1973ء میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا ۔

فوجی سپاہیوں کو سیاست کرنے کا حق نہیں جب کہ جنرلوں نے یہ حق 36 سال بزور طاقت حاصل کیا۔ ان تمام مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقا تی سماج میں ہی ممکن ہے ۔
Load Next Story