انسان کے اندر چھپے دیو
یاد رہے انسانوں کی بھوک ایک حد پر جا کر ختم ہوجاتی ہے لیکن دیوؤں کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی
انسان اپنے فائد ے کے لیے گرگٹ سے زیادہ تیزر فتاری سے رنگ بدلتا ہے، ایسی تیز رفتاری سے کے جسے دیکھ کر گرگٹ تک حیران و پریشان ہوجاتا ہے۔اس بات کی تصدیق کے لیے آپ اورکچھ نہ کریں صرف ملک کے اہم کرداروں کے 2008ء سے لے 2013ء تک اور 2013ء سے لے کر آج تک کے بیانات ،خیالات اور نظریات پڑھ لیں اور سن لیں تو آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے ۔
ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے کنگ جان میں فلپ یہ رائے دیتا ہے کہ دنیا کے بارے میں ہماری عمومی قدر پیمائی ہماری اپنی خصوصی دلچسپیوں سے متاثر ہوتی ہے '' ہاں جب تک میں بھکاری ہوں تو میں شکایت کروں گا اور کہوں گا کہ امیر ہونے کے علاوہ کوئی گناہ نہیں ہے اور امیر ہونے کے بعد میری خوبی یہ ہوگی کہ میں کہوں گا کہ بھکاری پن کے علاوہ کوئی برائی نہیں۔'' ڈبلیو بی ایٹس نے نطشے کے The Geneology of Morals کے اپنے نسخے کے حاشیے پر لکھا '' لیکن نطشے یہ کیوں سو چتا ہے کہ رات کے پاس کوئی ستارے نہیں ہیں سوائے چمگادڑوں، الوؤں اور پاگل چاند کے اور کچھ نہیں ہے۔'' نطشے کی انسانیت کے بارے میں تشکیک اور مستقبل کے بارے میں اس کا سرد کردینے والا ادراک بیسوی صدی کے آغاز سے عین پہلے پیش کیا گیا۔
اس کی وفات 1900ء میں ہوئی بعد میں آنے والی صدی کے واقعات بشمول عالمی جنگوں ، قتل عام ، نسل کشیوں، لوٹ مار و کرپشن، ناانصافیوں اور دوسرے ظلموں کے خاصا پریشان کرنے اور سو چنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا بنی نوع انسان کے بارے میں نطشے کی تشکیک بالکل ٹھیک نہ تھی بلاشبہ بیسوی صدی کے اختتام پر نطشے کی فکر مندی کی تحقیقات کرتے ہوئے جو ناتھن گلوور یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ہمیں ''اپنے اندر چھپے ہوئے کچھ دیوؤں کو سختی اور واضح طریقے سے دیکھنے اور انھیں پنجرے میں بند کرنے اور پالتو بنانے کے طریقوں اور ذرایع پر غور کرنے کی ضرورت ہے ''ْ اگر ہم جو ناتھن گلوور کے نتیجے پر غوروفکر کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یا تو انسان اپنے اندر چھپے ہوئے کچھ دیوؤں کو پنجرے میں بند کر لیتا ہے اور انھیں پالتو بنا لیتا ہے۔
اس صورت میں وہ مہذب ، باکردار، بااخلاق اور قانون کی پاسداری کرنے والا انسان نظر آنے لگتا ہے ، دوسری صورت میں اس کے اندر چھپے دیو اس انسان کو پنجرے میں قید کرلیتے ہیں اور اسے اپنا پالتو بنا لیتے ہیں ، تو پھر اس میں انسانوں والی کوئی خوبی باقی نہیں رہتی کیونکہ وہ پھر ایک ایسا حیوان بن جاتا ہے جسے صرف اپنے فائد ے اور اپنے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ ہی سجھائی دیتا ہے۔ مشکل ترین بات یہ ہے کہ ایسے انسان کو بروقت پہنچانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے فائد ے کے لیے تیزی کے ساتھ رنگ و روپ بدلنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اس کی پہچان آسان ہونا شروع ہوجاتی ہے بدقسمتی سے ہمیں ایسے انسانوں کی اکثریت سے پالا پڑگیا ہے جن کو ان کے اندر چھپے دیوؤں نے اپنی قید میں لے لیا ہے اور سب سے وحشت ناک بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت اہم عہدوں اور منصبوں پر جا بیٹھی ہے۔
یاد رہے انسانوں کی بھوک ایک حد پر جا کر ختم ہوجاتی ہے لیکن دیوؤں کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ان کے لالچ کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، ان کی چاہت، آرزؤں اور خواہشوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے۔ آپ کے خیال میں کیا غلام محمد، اسکندر مرزا اور دیگروں کو دیوؤں نے قید نہیں کرر کھا تھا ؟کیا ہمارے ملک کے بعض اہم کرداروں کودیوؤں نے قید نہیں کررکھا ہے ؟ کیا انسان ایسے ہوتے ہیں کیا کوئی انسان اپنے جیسے انسانوں کو اس طرح ذلیل وخوار کرسکتا ہے؟ کیا انھیں اس طرح پریشان مصیبت زدہ اور بدحال کرسکتا ہے کیا کوئی انسان اپنے فائد ے کے لیے اپنے جیسے انسانوں کو زہریلا پانی پینے پر مجبو رکرسکتا ہے کیاکوئی انسان اسپتالوں، اسکولوں ، محلوں ،گلیوں کا ایسا حال کرسکتا ہے کیاکوئی انسان دوائیوں ، دودھ ، آٹے ، چینی میں ملاوٹ کرکے اپنے ہی جیسے انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال سکتا ہے کیاکوئی انسان کاغذ کے نوٹوں کی خاطر اس طرح کرپشن اور لوٹ مارکر سکتا ہے؟
کیاکوئی انسان اس قدر بے حسی کا مظاہرہ کرسکتاہے جیسا کہ یہ کررہے ہیں۔ کیاکوئی انسان اس طرح ناانصافیوں اور ظلم کا بازارگرم کرسکتا ہے کیا کوئی انسان اس طرح اپنی ریاست کے قانون کی خلاف ورزی کرسکتا ہے؟ کیا کوئی انسان اس طرح اپنے ملک کے اداروں کو لڑوا سکتا ہے۔ نہیں بالکل نہیں اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ہمارے بعض اہم کرداروں کو دیوؤں نے اپنی قید میں لے رکھا ہے۔ایک بات ان دیوؤں کو ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ اگر دل میں ڈوبے ہوئے نشتر لوگوں کی زبان ہوگئے تو پھرکیا ہوگا، اگر مصیبت زدہ و بدحال لوگ ان پر حملہ آور ہوگئے تو پھر کیا ہوگا ۔ آپ نے حضرت داؤد اورگولا ئتھ کی لڑائی کاواقعہ تو سنا ہی ہوگا ۔
گولائتھ ایک دیو نما شخص تھا ہرکوئی اس سے خوف کھاتا تھا ایک دن پندرہ سالہ چراوہا بچہ اپنے بھائیوں سے ملنے آیا۔ اس بچے نے کہا تم اس دیو سے لڑنے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے ؟ بھائی گالائتھ سے خوف زدہ تھے انھوں نے کہا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ اسے مارا نہیں جاسکتا؟ حضرت داؤد نے کہا نہیں وہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اس کومارا نہ جاسکے۔ اس کے لحیم شحیم ہونے کا تو فائد ہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی نشانہ خالی نہیں جاسکتا۔ باقی قصہ تاریخ کا حصہ ہے اس دیوکو حضرت داؤد نے غلیل سے مار ڈالا تھا دیو ایک ہی تھا تناظر مختلف تھا۔ نامور مصنف نپولین ہل کا کہنا ہے کہ ''ہر مسئلہ برابرکا یابڑا موقع لے کر آتا ہے '' ذہن میں رہے برداشت کی ہمیشہ ایک حد ہوتی ہے اور جب آپ اس حد کے پار چلے جاتے ہیں تو پھر آپ کے لیے غلیل ہی کافی ہوتی ہے۔