فیصلے
ہرشخص اپنے اپنے طور پر اِس فیصلے کے اسرارورموزاور مضمرات پر خیال آرائی کررہا ہے
ہماری عدلیہ آج کل جس قسم کے فیصلے کر رہی ہے، اُن کے بارے میں خود اُس کا اپنا خیال ہے کہ تاریخ میں یہ فیصلے بیسیوں سال یاد رکھے جائیں گے اور اِن فیصلوں نے ہمارے معاشرے میں انصاف کی داغ بیل ڈال دی ہے، جب کہ عدلیہ ہی سے تعلق رکھنے والے دور اندیش افراد مختلف رائے رکھتے ہیں کہ اُن کے خیال میں اِن فیصلوں سے سارے ملک میں بے یقینی اور انارکی جنم لے رہی ہے۔
ایسی آئینی اورقانونی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں جن کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ فیصلے کرنے والے اپناوقت گزارکر چلے جائیں گے، تاریخ انھیں کس نام سے یاد کرے گی، لیکن اُن اِن فیصلوں کا خمیازہ اِس نادار اور غریب قوم کوکئی سالوں تک بھگتنا ہوگا۔ڈیڑھ دو سال سے ہم صاف وشفاف اور بے لاگ انصاف کا ایساسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جو صرف فرد واحد کے ارد گرد ہی گھوم رہا ہے۔ سارا میڈیا اور سارے ادارے صرف اِسی ایک کام میں جتے ہوئے ہیں۔
ہمیں میاں نواز شریف کے علاوہ کوئی اور دکھائی دیتا ہی نہیں ۔450 افراد جن کے نام پاناما لیکس میں آشکار ہوئے تھے اُن میں سے کسی ایک کو بھی ہاتھ نہیں لگایا گیا لیکن جس شخص کا نام اُن پیپرز میں تھا ہی نہیں اُسے ہم گزشتہ دو سال سے رگڑا دے رہے ہیں۔صرف اُسے تختہ مشق بنانے کے لیے ہم نے تمام دیگر مجرموں اور ملزموں پر کمزورکردی ہے۔ طاقتورکو احتساب کے شکنجے میں جکڑنے کے شوق میں ہم نے باقی تمام مشتبہ اور مشکوک ملزموں کو یا تو رہا کردیا ہے یا پھر اُن کے مقدمات کی رفتار سست اور ڈھیلی کردی ہے کہ وہ بڑے اطمینان اور سکون سے سینیٹ کے الیکشنوں میں اپنی ذہانت کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
ایک وزیراعظم کو منصب سے نااہل توکردیا لیکن فیصلہ کرتے وقت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا۔ اپنے ایک فیصلے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تو پھر دوسرے کیس میں اُسے پارٹی کی سربراہی سے بھی الگ کر دیا۔ہمارے اِس نئے فیصلے نے کچھ ایسی آئینی اور قانونی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں کہ الیکشن کمیشن بھی بوکھلا گیا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن کے لیے نئے شیڈول کا اعلان کرنے کی بجائے اُس نے ایک عجیب و غریب آڈر جاری کردیا جس کے تحت وہ سارے اُمیدوار جنھیں میاں نواز شریف نے بطور پارٹی صدرکے نامزد کیا تھا اب ایک آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہوگئے ہیں۔گویا ناک سیدھے نہ پکڑی ہاتھ گھما کر پکڑ لی۔
سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے والے تمام مسلم لیگی اُمیدوار اب بھی وہی ہونگے جنھیں میاں صاحب نے اپنی''نااہل'' حیثیت میں نامزد کیا تھا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اندر سے مسلم لیگی ہونگے لیکن لیبل آزاد اُمیدوار کا ہوگا۔ہماری معزز عدلیہ کے لیے یہ لمحہ یقینا سوچ وبچار کاہونا چاہیے کہ اُن کے اِس فیصلے سے اُمید واروں کی حیثیت اور قابلیت میں کیا فرق پڑا۔عدلیہ کے اِس فیصلے نے جہاں الیکشن کمیشن کے لیے مصائب اورمشکلات پیدا کردی ہیں وہاں اُن سارے حکومتی معاملات کے بارے میں بھی شکوک وشبہات پیدا کردیے ہیں جو وہ گزشتہ آٹھ ماہ سے کرتی آئی ہے۔کیا موجودہ وزیراعظم خاقان عباسی کی نامزدگی بھی میاں نواز شریف نے اپنی نااہل حیثیت میں نہیں کی تھی اور اگرو ہ نامزدگی بھی عدلیہ کے اِس فیصلے سے متاثر ہوتی ہے تو کیاگزشتہ آٹھ ماہ میں اُن کی سرپرستی میں کیے جانے والے تمام حکومتی فیصلے کالعدم نہیں ہوگئے۔اب یہ قانونی گتھی کون سلجھائے گا۔
ہماری معزز عدلیہ کو سوچنا چاہیے کہ اُس کے اِن فیصلوں سے اِس ملک میں قانونی اور آئینی بحران تو پیدا ہونے نہیں جارہا اور اگر ایسا ہے تو پھر اُسے کون سلجھائے گا۔ عدلیہ کو اب یہ بھی بتانا ہوگا کہ سابقہ آٹھ ماہ میں ہونے والے تین ضمنی الیکشنوں کے نتائج بھی اب کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ انھیں کالعدم قرار نہیں دے دینا چاہیے۔لگتا ہے فیصلہ کرتے وقت جلد بازی میں اِن پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیاگیا۔عدلیہ کے لیے بہتر یہی ہوتا کہ اِس فیصلے پرعملدرآمد کے لیے اُسی دن سے ہدایت دیتی جس دن یہ فیصلہ سنایا گیا۔ بیک ڈیٹ سے فیصلے پرعملداری کا حکم اِن سب قانونی پیچیدگیوں کا باعث بنا ہے جنھیں اب بدقسمتی سے ساری قوم کوبھگتنا پڑے گا۔
ہرشخص اپنے اپنے طور پر اِس فیصلے کے اسرارورموزاور مضمرات پر خیال آرائی کررہا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ صرف لودھراں کا الیکشن کالعدم ہوچکا ہے اور کوئی کہتا ہے لاہور حلقہ 120، چکوال اورلودھراں سمیت تینوں الیکشن غیر موثر ہوچکے ہیں۔ اور کوئی صاحب عقل و دانش وزیراعظم کے انتخاب پر بھی ایسی ہی قیاس آرائیاں کررہا ہے۔ دیکھا جائے تو سبھی لوگ درست ہیں۔ فیصلہ ہی کچھ ایسا ہے ۔جس کی زد میں گزشتہ آٹھ ماہ سے کیے جانے والے موجودہ حکومت کے تمام کام اورفیصلے مشکوک ہوچکے ہیں ۔اُن کے بارے میں عدلیہ کی وضاحت ضروری اور ناگزیر ہوچکی ہے، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عدلیہ اب خود تذبذب اور ہچکچاہٹ کاشکار ہے۔ وہ اِس بارے میں کوئی رائے دینے سے اجتناب کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
اِس قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ اُسے 70سال سے کبھی انصاف نہیں ملا۔ تحریک بحالی عدلیہ سے جوکچھ اُمید باندھی گئی تھی وہ ابھی تک پوری نہ ہوسکی۔ میاں نواز شریف نے زرداری دور میں لانگ مارچ کرکے اُسے بحال توکروا دیا لیکن آزاد اور بے خوف عدلیہ کے جن اعلیٰ وارفع مقاصد کے لیے یہ بے مثال تحریک شروع کی گئی تھی وہ اب تک حاصل نہیں کیے جاسکے۔ ہماری عدلیہ نہ پہلے آزاد تھی اور نہ اب آزاد ہے۔
سابق چیف جسٹس نے بھی اپنے طویل ترین دور میں ''جوڈیشل ایکٹیوزم '' کا بھر پور مظاہرہ کیا لیکن وہ بھی صاف وشفاف اور منصفانہ عدل کی کوئی بنیاد نہیں رکھ پائے۔ اُن کے بعد بھی آنے والے ججوں نے یہی کچھ کیا۔اب ہمیں ایک بار پھر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اِس ملک میںکسی طاقتورکو پہلی بارانصاف اور احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔کمزوروں کو اُن کے حقوق دلائے جارہے ہیں ۔مظلوموں کی داد رسی کی جارہی ہے لیکن کیا ہمارے عوام اِس تاثر کو صحیح اوردرست تسلیم کرتے ہوئے اِس پر یقین کرنے کو تیار ہیں۔
کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ احتساب کا یہ نیا گورکھ دھندہ بھی نا مطلوب چہروں کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے اور اپنے پسندیدہ چہروں کا نقشہ جمانے کی اِک کوشش ہے۔اعلیٰ عدلیہ کے 17 قابل اور معروف ججوں میں سے صرف پانچ یاسات ججوں کو میاں صاحب کے کیسوں کے لیے بار بار استعمال کیا جانا از خود عدلیہ کی شفافیت پر کڑا سوال نہیں ہے۔آج ہمیں ایک بار پھر جسٹس سجاد علی شاہ کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب اُس وقت کے وزیراعظم کے خلاف بھی ایسا ہی طرز عمل اپنایا جارہا تھا۔عدالت کے کئی قابل اور معتبر ججوں کو بلوچستان اور دیگر صوبوں میں بھیج کر صرف چند ہم خیال ساتھی ججوں کے ذریعے سارے مقدمات نمٹائے جارہے تھے اور ایک حاضر سروس وزیراعظم کو روزانہ عدالت کے روبرو بلا کر اُس کی عزت نفس مجروح کی جاتی تھی اور بالکل اِسی طرح آئین و دستور سے پارلیمنٹ کی منظور شدہ شقوں اور قوانین کو ہذف یا کالعدم کردیا جاتا تھا ۔
جس طرح آج کیاجا رہا ہے ، لیکن ہمیں غور کرنا ہوگا کہ عدلیہ کے اُن فیصلوں کو یہ قوم کس نگاہ سے دیکھتی رہی ہے۔ اُن فیصلوں کو تاریخ نے کیا مقام عطا کیا۔ سنہری حرفوں سے لکھے گئے اُن فیصلوں کی حیثیت و حرمت اب کتنی باقی ہے ۔ فیصلے سنہری ہوں یا روپہلی۔ رنگوں سے فیصلوں کی تعظیم و تکریم نہیں ہواکرتی ۔ وہ عدل و انصاف کے کن اعلیٰ معیارات پر مبنی ہیں، اس کاتعین ضروری ہے۔دنیا میں صرف اُنہی فیصلوں کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور صدیوں تک یاد رکھاگیا جن میں معاندانہ اور انتقامانہ رویوں کے بجائے عدل و انصاف کے زریں اُصولوں کی پاسداری کی گئی۔
ایسی آئینی اورقانونی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں جن کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ فیصلے کرنے والے اپناوقت گزارکر چلے جائیں گے، تاریخ انھیں کس نام سے یاد کرے گی، لیکن اُن اِن فیصلوں کا خمیازہ اِس نادار اور غریب قوم کوکئی سالوں تک بھگتنا ہوگا۔ڈیڑھ دو سال سے ہم صاف وشفاف اور بے لاگ انصاف کا ایساسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جو صرف فرد واحد کے ارد گرد ہی گھوم رہا ہے۔ سارا میڈیا اور سارے ادارے صرف اِسی ایک کام میں جتے ہوئے ہیں۔
ہمیں میاں نواز شریف کے علاوہ کوئی اور دکھائی دیتا ہی نہیں ۔450 افراد جن کے نام پاناما لیکس میں آشکار ہوئے تھے اُن میں سے کسی ایک کو بھی ہاتھ نہیں لگایا گیا لیکن جس شخص کا نام اُن پیپرز میں تھا ہی نہیں اُسے ہم گزشتہ دو سال سے رگڑا دے رہے ہیں۔صرف اُسے تختہ مشق بنانے کے لیے ہم نے تمام دیگر مجرموں اور ملزموں پر کمزورکردی ہے۔ طاقتورکو احتساب کے شکنجے میں جکڑنے کے شوق میں ہم نے باقی تمام مشتبہ اور مشکوک ملزموں کو یا تو رہا کردیا ہے یا پھر اُن کے مقدمات کی رفتار سست اور ڈھیلی کردی ہے کہ وہ بڑے اطمینان اور سکون سے سینیٹ کے الیکشنوں میں اپنی ذہانت کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
ایک وزیراعظم کو منصب سے نااہل توکردیا لیکن فیصلہ کرتے وقت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا۔ اپنے ایک فیصلے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تو پھر دوسرے کیس میں اُسے پارٹی کی سربراہی سے بھی الگ کر دیا۔ہمارے اِس نئے فیصلے نے کچھ ایسی آئینی اور قانونی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں کہ الیکشن کمیشن بھی بوکھلا گیا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن کے لیے نئے شیڈول کا اعلان کرنے کی بجائے اُس نے ایک عجیب و غریب آڈر جاری کردیا جس کے تحت وہ سارے اُمیدوار جنھیں میاں نواز شریف نے بطور پارٹی صدرکے نامزد کیا تھا اب ایک آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہوگئے ہیں۔گویا ناک سیدھے نہ پکڑی ہاتھ گھما کر پکڑ لی۔
سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے والے تمام مسلم لیگی اُمیدوار اب بھی وہی ہونگے جنھیں میاں صاحب نے اپنی''نااہل'' حیثیت میں نامزد کیا تھا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اندر سے مسلم لیگی ہونگے لیکن لیبل آزاد اُمیدوار کا ہوگا۔ہماری معزز عدلیہ کے لیے یہ لمحہ یقینا سوچ وبچار کاہونا چاہیے کہ اُن کے اِس فیصلے سے اُمید واروں کی حیثیت اور قابلیت میں کیا فرق پڑا۔عدلیہ کے اِس فیصلے نے جہاں الیکشن کمیشن کے لیے مصائب اورمشکلات پیدا کردی ہیں وہاں اُن سارے حکومتی معاملات کے بارے میں بھی شکوک وشبہات پیدا کردیے ہیں جو وہ گزشتہ آٹھ ماہ سے کرتی آئی ہے۔کیا موجودہ وزیراعظم خاقان عباسی کی نامزدگی بھی میاں نواز شریف نے اپنی نااہل حیثیت میں نہیں کی تھی اور اگرو ہ نامزدگی بھی عدلیہ کے اِس فیصلے سے متاثر ہوتی ہے تو کیاگزشتہ آٹھ ماہ میں اُن کی سرپرستی میں کیے جانے والے تمام حکومتی فیصلے کالعدم نہیں ہوگئے۔اب یہ قانونی گتھی کون سلجھائے گا۔
ہماری معزز عدلیہ کو سوچنا چاہیے کہ اُس کے اِن فیصلوں سے اِس ملک میں قانونی اور آئینی بحران تو پیدا ہونے نہیں جارہا اور اگر ایسا ہے تو پھر اُسے کون سلجھائے گا۔ عدلیہ کو اب یہ بھی بتانا ہوگا کہ سابقہ آٹھ ماہ میں ہونے والے تین ضمنی الیکشنوں کے نتائج بھی اب کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ انھیں کالعدم قرار نہیں دے دینا چاہیے۔لگتا ہے فیصلہ کرتے وقت جلد بازی میں اِن پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیاگیا۔عدلیہ کے لیے بہتر یہی ہوتا کہ اِس فیصلے پرعملدرآمد کے لیے اُسی دن سے ہدایت دیتی جس دن یہ فیصلہ سنایا گیا۔ بیک ڈیٹ سے فیصلے پرعملداری کا حکم اِن سب قانونی پیچیدگیوں کا باعث بنا ہے جنھیں اب بدقسمتی سے ساری قوم کوبھگتنا پڑے گا۔
ہرشخص اپنے اپنے طور پر اِس فیصلے کے اسرارورموزاور مضمرات پر خیال آرائی کررہا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ صرف لودھراں کا الیکشن کالعدم ہوچکا ہے اور کوئی کہتا ہے لاہور حلقہ 120، چکوال اورلودھراں سمیت تینوں الیکشن غیر موثر ہوچکے ہیں۔ اور کوئی صاحب عقل و دانش وزیراعظم کے انتخاب پر بھی ایسی ہی قیاس آرائیاں کررہا ہے۔ دیکھا جائے تو سبھی لوگ درست ہیں۔ فیصلہ ہی کچھ ایسا ہے ۔جس کی زد میں گزشتہ آٹھ ماہ سے کیے جانے والے موجودہ حکومت کے تمام کام اورفیصلے مشکوک ہوچکے ہیں ۔اُن کے بارے میں عدلیہ کی وضاحت ضروری اور ناگزیر ہوچکی ہے، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عدلیہ اب خود تذبذب اور ہچکچاہٹ کاشکار ہے۔ وہ اِس بارے میں کوئی رائے دینے سے اجتناب کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
اِس قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ اُسے 70سال سے کبھی انصاف نہیں ملا۔ تحریک بحالی عدلیہ سے جوکچھ اُمید باندھی گئی تھی وہ ابھی تک پوری نہ ہوسکی۔ میاں نواز شریف نے زرداری دور میں لانگ مارچ کرکے اُسے بحال توکروا دیا لیکن آزاد اور بے خوف عدلیہ کے جن اعلیٰ وارفع مقاصد کے لیے یہ بے مثال تحریک شروع کی گئی تھی وہ اب تک حاصل نہیں کیے جاسکے۔ ہماری عدلیہ نہ پہلے آزاد تھی اور نہ اب آزاد ہے۔
سابق چیف جسٹس نے بھی اپنے طویل ترین دور میں ''جوڈیشل ایکٹیوزم '' کا بھر پور مظاہرہ کیا لیکن وہ بھی صاف وشفاف اور منصفانہ عدل کی کوئی بنیاد نہیں رکھ پائے۔ اُن کے بعد بھی آنے والے ججوں نے یہی کچھ کیا۔اب ہمیں ایک بار پھر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اِس ملک میںکسی طاقتورکو پہلی بارانصاف اور احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔کمزوروں کو اُن کے حقوق دلائے جارہے ہیں ۔مظلوموں کی داد رسی کی جارہی ہے لیکن کیا ہمارے عوام اِس تاثر کو صحیح اوردرست تسلیم کرتے ہوئے اِس پر یقین کرنے کو تیار ہیں۔
کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ احتساب کا یہ نیا گورکھ دھندہ بھی نا مطلوب چہروں کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے اور اپنے پسندیدہ چہروں کا نقشہ جمانے کی اِک کوشش ہے۔اعلیٰ عدلیہ کے 17 قابل اور معروف ججوں میں سے صرف پانچ یاسات ججوں کو میاں صاحب کے کیسوں کے لیے بار بار استعمال کیا جانا از خود عدلیہ کی شفافیت پر کڑا سوال نہیں ہے۔آج ہمیں ایک بار پھر جسٹس سجاد علی شاہ کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب اُس وقت کے وزیراعظم کے خلاف بھی ایسا ہی طرز عمل اپنایا جارہا تھا۔عدالت کے کئی قابل اور معتبر ججوں کو بلوچستان اور دیگر صوبوں میں بھیج کر صرف چند ہم خیال ساتھی ججوں کے ذریعے سارے مقدمات نمٹائے جارہے تھے اور ایک حاضر سروس وزیراعظم کو روزانہ عدالت کے روبرو بلا کر اُس کی عزت نفس مجروح کی جاتی تھی اور بالکل اِسی طرح آئین و دستور سے پارلیمنٹ کی منظور شدہ شقوں اور قوانین کو ہذف یا کالعدم کردیا جاتا تھا ۔
جس طرح آج کیاجا رہا ہے ، لیکن ہمیں غور کرنا ہوگا کہ عدلیہ کے اُن فیصلوں کو یہ قوم کس نگاہ سے دیکھتی رہی ہے۔ اُن فیصلوں کو تاریخ نے کیا مقام عطا کیا۔ سنہری حرفوں سے لکھے گئے اُن فیصلوں کی حیثیت و حرمت اب کتنی باقی ہے ۔ فیصلے سنہری ہوں یا روپہلی۔ رنگوں سے فیصلوں کی تعظیم و تکریم نہیں ہواکرتی ۔ وہ عدل و انصاف کے کن اعلیٰ معیارات پر مبنی ہیں، اس کاتعین ضروری ہے۔دنیا میں صرف اُنہی فیصلوں کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور صدیوں تک یاد رکھاگیا جن میں معاندانہ اور انتقامانہ رویوں کے بجائے عدل و انصاف کے زریں اُصولوں کی پاسداری کی گئی۔