تیرا کراچی میرا کراچی

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ’’آپ کی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی ہے


آصف زیدی February 27, 2018

بڑوں سے سُنا اور سیکھا ہے کہ اگر اختلافات ہو بھی جائیں تو اس کا اثراُن کاموں یا منصوبوں پر نہیں پڑنا چاہیے جن سے عوام کا براہ راست تعلق ہو یا جن سے عوام مستفید ہو رہے ہوں یا ہونے والے ہوں۔ دنیا میں انھی ملکوں نے ترقی کی جو سیاسی ونظریاتی اختلافات کو قومی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔ جب بات عوام کے مفاد کی آتی ہے تو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھتے ہیں۔

یہی جذبہ اور لگن ہمیں اپنے ملک میں بھی درکار ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کے تاحال ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں رہنے کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہر دورکے حکمرانوں نے ہمیشہ اجتماعی مفادات کے بجائے انفرادی مقاصد کے حصول پر توجہ مرکوز رکھی۔ ہرکسی نے کوشش کی کہ صرف وہ مقبول ہو اور ہمیشہ دوسروں کی اچھی کاوشوں اور منصوبوں کو نظراندازکیا گیا یا غلط انداز سے پیش کیا گیا۔

ضروری نہیں سب کچھ ہی ہمارے ملک میں غلط ہورہا ہے لیکن جو اچھا ہو رہا ہے، عوام کے مفاد میں ہو رہا ہے اُس کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے، بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو کاغذات پر سیکڑوں ہزاروں منصوبے ہیں لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔

کراچی سے لے کر پشاور تک اگر سفرکیا جائے یا لوگوں سے معلومات لی جائیں تو پتہ چلے گا کہ ہر جگہ منصوبوں کا ڈھیر تو لگا ہُوا ہے لیکن کہیں تعمیراتی کام برسوں سے جاری ہے، کہیں بہت سے منصوبے تکمیل کے بعد بھی ''نامکمل'' ہیں اور کہیں ابتدائی کام کرنے کے بعد کام روک دیا گیا ہے ۔ اس ساری صورتحال کا خمیازہ صرف اور صرف عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

''عام آدمی'' حکمرانوں اور صاحبان اختیارکے دعوؤں، وعدوں، یقین دہانیوں اور اعداد وشمار کے پیچیدہ چکروں میں الجھا رہتا ہے اور اس آس و امید پر دوسروں کی باتوں پر یقین کر رہا ہوتا ہے کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔

کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے شہرکو ہی لے لیں، ''عروس البلاد '' کہلائے جانے والے شہرکو ملک بھر کے لیے مثال ہونا چاہیے لیکن یہاں کے شہری مسلسل مسائل کے انبار تلے زندگیاں گزار رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز، پولیس و رینجرز نے شہر میں امن وامان کی صورتحال کو کافی حد تک بہترکردیا ہے لیکن دیگر مسائل حل طلب ہیں۔

کچھ علاقوں کے رہائشی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں تو ایسے بھی علاقے موجود ہیں جہاں پانی نایاب ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی ابتر صورتحال تو سب کے سامنے ہی ہے ۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، بنیادی سہولتوں کی کمیابی، اسٹریٹ لائٹس کا نہ ہونا ، سیوریج کا تباہ نظام اور ایسے ہی بہت سے مسائل دہائیوں سے حل ہونے کے منتظر ہیں ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ شہرکراچی کی اس پریشان کُن، افسوسناک اور مدد کے لیے چیختی چلاتی صورتحال پر توجہ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔

بڑے بڑے منصوبوں کا آغاز اور اُن کے مکمل ہونے کے بعد مستقبل کے لیے خوشگوار تصورات یقینی طور پر دل کو لبھاتے ہیں اور ہر کسی کی دعا بھی یہی ہے کہ جو منصوبے شروع کیے گئے ہیں وہ بروقت مکمل ہوں ، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی والوں کے مسائل میں کمی کے لیے سب سے زیادہ توجہ بنیادی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر دینی چاہیے۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ''آپ کی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اسے انتہائی تیزی کے ساتھ اتنا چھا تعمیرکریں جتنا ممکن ہے۔''

کراچی کی بے ترتیب آبادی ہی بڑا مسئلہ تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات، عوامی نمایندوں اور حکمرانوں کی جانب سے شہرکو مسلسل نظر انداز کرنا، اپنی پسند کے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ رکھنا اور دیگر عوامل نے حالات کو بد سے بدتر کیا ہے۔

لوگوں کی طرح شہر بھی طبقات میں بٹا نظر آتا ہے ، کچھ علاقے تمام سہولتوں سے آراستہ ہیں،کچھ اُن سے کم سہولتوں سے مستفید ہورہے ہیں تو بعض علاقے شہرکا نہیں بلکہ کسی دیہات یا گاؤں کا حصہ نظر آتے ہیں۔

لیاری، بلدیہ کالونی، سرجانی ٹاؤن کے مختلف سیکٹرز، شہرکے مضافاتی علاقے تو بنیادی سہولتوں سے محروم ہی ہیں لیکن اب تو اُن علاقوں کے باسی بھی سہولتوں کی کمیابی کا رونا رورہے ہیں جنھیں پسماندہ علاقے نہیں کہا جاسکتا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ شہرکے 6 اضلاع وسطی، جنوبی، غربی، شرقی، کورنگی، ملیرکی مجموعی طور پر 178 یونین کونسلوں میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جہاں تمام سہولتیں موجود ہوں، اگرکوئی ہے تو وہاں عوام نہیں خواص رہتے ہونگے۔

''ہمارے کراچی'' کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ شہر ''تیرا کراچی'' اور ''میرا کراچی'' کے نعروں میں بٹ کر رہ گیا ہے اور کسی کا نہیں رہا ۔ مختلف سیاسی جماعتیں جن میں ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی قابل ذکر ہیں، شہر پر حکمرانی کرتی رہی ہیں اور مختلف سطح پر کربھی رہی ہیں لیکن شہر کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔

سیاسی کشیدگی، ایک دوسرے پر حددرجے عدم اعتماد، وسائل کا حصول، مسائل کو نظر انداز کرنے کے تسلسل نے شہر کا چہرہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ اب تو حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اگرکسی جماعت کے عوامی نمایندے دوسری جماعت کے علاقے میں کسی مسئلے کے حل کے لیے کوشش کریں تو اُس کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ سیاسی رہنما اپنے اپنے علاقوں تک محدود رہتے ہیں جس کی وجہ سے کام ہو ہی نہیں پاتے اور نقصان عوام کو ہوتا ہے اور ہو رہا ہے۔

صبح سے لے کر رات گئے تک کراچی کے عام آدمی کے معمولات زندگی دیکھیں تو اُس میں صرف گھر سے روزگار اور روزگار سے گھر کا سفر نہیں ہے، اُسے صبح صبح پانی بھرنے کی مشقت بھی سہنی پڑتی ہے جس کے لیے گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونا معمول ہے ۔ پھر بہتی گٹرلائنوں، ٹوٹے پھوٹے راستوں پر بچتے بچاتے وہ اپنے کام انجام دیتا ہے تو کبھی اُسے گھنٹوں لوڈشیڈنگ کا عذاب سہنا پڑتا ہے تو کہیں اوور بلنگ اُس کی کمر توڑنے کے درپے ہوتی ہے ۔

پھر پبلک ٹرانسپورٹ کے عذاب بھی اسے سہنے ہوتے ہیں جب وہ ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں کے ڈھانچوں پر سوار ہوکر لمبے لمبے سفر کرتا ہے، دھکے کھاتا ہے اور خراب راستوں، ٹریفک جام کی وجہ سے ایک گھنٹے کا سفر ڈھائی تین گھنٹوں میں طے کرتا ہے۔ کبھی کراچی کا شہری سڑکوں پر وی آئی پی موومنٹ ختم ہونے کے انتظار میں سلگتا ہے تو کبھی کسی سیاسی پارٹی کے ''عوامی مفاد'' کے پروگرام کی وجہ سے راستے بدل بدل کر گھر پہنچنے کی کوشش میں اذیتیں برداشت کرتا ہے۔ اپنے بچوں کے لیے اتنی پریشانیاں برداشت کرنے والا پھر بھی سکون میں نہیں رہتا کیونکہ راہزن کسی نہ کسی روپ میں اُس کی جمع پونجی لوٹنے کے درپے رہتے ہیں۔

ان سب تکالیف اور مسائل کو بھی کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا جاتا لیکن ''کراچی والے'' کی ہمت اُس وقت ٹوٹتی ہے جب وہ اپنے کسی مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کا رخ کرتا ہے تو اُسے اس طرح دھتکارا جاتا ہے جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے۔ اُس کی بات اگر سن لی بھی جائے تو وہ بہت بڑا احسان سمجھی جاتی ہے۔ مسئلے کے حل کے لیے ایسے ایسے مشورے اور احکام دیے جاتے ہیں جو خود بڑا مسئلہ ہوتے ہیں۔

مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کو درپیش یہ مسائل مسائل نہیں بلکہ ''مظالم'' کے مترادف ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کا رونا روتی تو نظر آتی ہیں لیکن عملی طور پر جب مسائل کے حل کی بات آتی ہے توکوئی اختیارات نہ ہونے کا شکوہ کرکے جان بچانے لگتا ہے تو کوئی اختیارات دوسروں کو دینے کا دعویٰ کرکے فرائض سے بری الذمہ ہوجاتا ہے۔

اس صورتحال کے حوالے سے کسی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ''جو لوگ مسائل کے حل میں حصے دار نہیں ہوتے وہ یقینی طور پر مسائل پیدا کرنے والوں میں شامل ہوتے ہیں۔''

کراچی اور کراچی والے کچھ نہیں چاہتے صرف اپنا حق چاہتے ہیں۔ ''تیرا کراچی '' یا ''میرا کراچی'' کی بحث چھوڑکر ''ہماراکراچی '' کا نعرہ لگانا ضروری ہوگیا ہے جبھی کراچی کے عوام کو مسائل سے نجات ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔