6263کی چھاننیاسلامی سوالاتامیدواروں کیلیے غیرمتوقع صورتحال

کئی کوچھٹی کاپروانہ مل سکتاہے،سوالات ماورائے آئین نہیں،مذہبی رہنمامطمئن

کئی کوچھٹی کاپروانہ مل سکتاہے،سوالات ماورائے آئین نہیں،مذہبی رہنمامطمئن. فوٹو فائل

گیارہ مئی کومنعقد ہونے والے عام انتخابات میںبھر پور حصہ لینے کے لیے ملک بھرمیں امیدوارریٹرننگ افسران کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔

امیدواروں کوکئی جگہوں پرپیچیدہ مسائل کاسامنا بھی کرنا پڑرہا ہے لیکن گزشتہ روزملک کے بعض حصوں میں انتخابی امیدواروں کوکاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے ہوئے ریٹرننگ افسران کی جانب سے اچانک بعض ایسے سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑاجوان کیلیے غیرمتوقع بھی تھے اور وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیاربھی نہیں تھے۔ مثال کے طورپرصوبہ سندھ میں ایک معروف شخصیت کے دوست اورعزیز سے ریٹرننگ افسر نے فجرکی نماز میں فرض رکعتوں اورسارے دن میں ادا کی جانے والی نمازوں کی کل تعدادکے بارے میں اچانک سوالات پوچھ ڈالے۔

یہ تو اس امیدوار کی خوش بختی تھی کہ اسے دونوں سوالات کے جوابات آتے تھے وگرنہ متعلقہ ریٹرننگ افسر کے دفتر ہی سے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے اسے چھُٹی کا پروانہ مل سکتا تھا۔ یہ دلچسپ خبریں بھی منظرعام پرآئی اورسنائی دی گئی ہیں کہ ملک کے بعض شہروں اور قصبوں میں ریٹرننگ افسران نے امیدواروں سے سورۂ یاسین مبارکہ اوردعائے قنوت سنانے کا بھی حکم دیا۔ بھلا سیاستدانوں اور آئندہ اسمبلیوں میں بیٹھنے کے خواب دیکھنے والوں میں سے کتنے ہوں گے جنھیں پوری سورۂ یاسین مبارکہ یاد ہو گی؟

ایسے میں مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار مزے میں دکھائی دے رہے ہیں اورمطمئن بھی کہ وہ دین سے متعلقہ جملہ سوالات کا بخوبی جواب بھی دے سکتے ہیں اور انہیں اِس بارے میں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس پیش منظرمیں کئی لوگوں کو جنرل ضیا الحق کے دور کی یاد آ کر رہ گئی ہے۔




جب سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے دورانِ انٹرویو امیدواروں سے خصوصی طور پر دعائے قنوت سنائے جانے کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ریٹرننگ افسران نے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے والوں سے سورۂ یاسین، دعائے قنوت اور نمازوں کی تعداد اور ہرنماز کی رکعتوں کے بارے میں سوالات کیے ہیں تو یہ امراخلاق سے باہرہے نہ قانون وآئین اور مذہب سے ماورا ہے۔ اگر امیدوار خود کو مسلمان ڈیکلئر کرتا ہے تو اسے ان باتوں سے باخبر بھی ہونا چاہیے اور دین کی مبادیات سے پوری آگاہی بھی رکھنی چاہیے۔

خصوصاً نماز کے بارے میں تو پوری معلومات حاصل کرنا ہرمسلمان پرفرض ہے کہ یہ نماز ہی ہے جو مسلمان اور غیرمسلم کے درمیان واضح طور پرفرق بیان کرتی ہے۔ جنرل پرویزمشرف کے فوجی دورِ حکومت میں تو ایک ایسے وزیر بھی تھے، جن کا تعلق فوج سے بھی رہا تھا، جنھیں قرآنِ مجید کے پاروں کی صحیح تعداد کا بھی علم نہیں تھا۔ کیا یہ افسوسناک واقعہ نہیں تھا؟ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ ریٹرننگ افسران نے امیدواروں سے 62/63 کے بارے میں بھی استفسارکیا۔

گویا کینیڈا سے آنے والے مولانا طاہر القادری کے کیے گئے مطالبات میں سے بعض مطالبوں کا جادوسرچڑھ کر بول رہا ہے۔ ایسا منظرابھر رہا ہے کہ آئندہ الیکشن سے قبل تمام سیاستدانوں اور امیدواروں کودین وآئین کے ریفریشرکورسز میں سے بھی گزرنا پڑے گا۔ تجزیہ نگاروں اور انتخابات کے مبصرین کا کہنا ہے کہ اِس بات کے امکانات بہرحال موجود ہیں کہ کئی امیدوار 62/63 کی بنیاد پرسرے سے انتخابات کے عمل ہی سے فارغ ہو جائیں گے۔ کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ''مردِ مومن، مردِ حق'' 25 سال قبل رخصت ہونے کے باوجود آج بھی لوگوں کو یاد آ رہا ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story