سیاست کے مدوجذر
ہماری سیاسی جماعتوں میں سیاسی عزم و بصیرت کا فقدان ہے۔
پاکستان میں ادارہ جاتی تصادم اور بڑھتے ہوئے سیاسی بحران پرگفتگو اور اس کا جائزہ لینے سے قبل امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ سے منسوب ایک واقعہ ۔ ان کے ایک مشیر نے نکارا گوا کے فوجی آمرکے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ'' وہ کتیاکا پلا ہے'' جواباً امریکی صدر نے کہا کہ ''بے شک وہ کتیا کا پلا ہے، مگر ہماری کتیا کا '' اس جملے سے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے لیے جو روش اور طرز عمل اختیار کیا وہ واضح ہوجاتا ہے۔
امریکا جس کے آئین کے ابتدائیہ میں واضح طورپردرج ہے کہ ''خدا نے تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔ انھیں زندگی، آزادی اور خوشیوں کے حصول کا مساوی حق حاصل ہے'' مگر امریکا نے نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے والی ریاستوںکو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے عوامی قبولیت سے قائم حکومتوں کا تختہ الٹے والی فوجی آمریتوں کی سرپرستی کرکے اپنے ہی آئین کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ جس کے باعث وہ ممالک اپنے لیے کوئی واضح اور مضبوط سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینے میں ناکام رہے۔
پاکستان بھی ایک ایسا ہی ملک ہے، جہاں ایک طرف امریکا نے سرد جنگ کے پورے عرصے کے دوران جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا ۔دوسری طرف فوجی آمریتوںاور فیوڈل سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ نے Adhocism کا آسان راستہ اختیار کیا ۔ جس کے نتیجے میںیہاں قائم ہونے والی سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں نے جمہوری اداروں کے استحکام پر توجہ نہیں دی ۔ جس کا خمیازہ ملک کے عوام ستر برس سے تسلسل کے ساتھ بھگت رہے ہیں۔
اس حقیقت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد یہاں انتظامی طاقت کا مرکز و منبع گورنر جنرل ہاؤس اورسیکریٹری جنرل کا سیکریٹریٹ بن جانے سے وزیر اعظم ہاؤس محض نمائشی ہوکر رہ گیا ۔ اقتدارواختیارکا یہ کلچر ملک غلام محمد سے اسکندر مرزا کے ذریعے ایوب خان تک پہنچا ۔ جہاں سے پرویز مشرف تک ملک کی سیاسی اور انتظامی سرگرمیوں کا محور گورنر جنرل ہاؤس کے بعد ایوان صدر بن گیا ۔ ریاستی منصوبہ سازی پارلیمان کے بجائے کہیں اور ہونے لگی ۔ یوں آئین کے پارلیمانی جمہوری ہونے کے باوجود ملک عملاً صدارتی نظام کے زیر اثر ہی رہا۔ اس دوران صرف بھٹو مرحوم کا ساڑھے چار برس کا عرصہ ایسا ہے، جس میں وزیراعظم ہاؤس بظاہر ہر قسم کی فیصلہ سازی کا مرکز نظر آتا ہے اور اہم فیصلے پارلیمان کے ذریعے ہوئے۔
جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور کے بعد بی بی مرحومہ یا میاں نواز شریف نے جب بھی فیصلہ سازی کے حوالے سےAssertکرنے کی کوشش کی، ان کی حکومتوں کو قبل از وقت فارغ کردیا گیا۔ لیکن یہ دونوں بھی عوامی مفاد میں اسٹبلشمنٹ سے الجھنے کے بجائے ذاتی معاملات پر ٹکرائے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی سیاسی بحران پیدا ہوا، انھیں بھرپور عوامی حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔ وقت اور حالات یہ بھی بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ دونوں وہی غلطیاں تسلسل کے ساتھ دہرا رہے ہیں، جو ان کے اقتدار کے خاتمہ کا باعث بنتی رہی ہیں۔
مثال کے طور پر ستمبر2012 میں جب اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی عدلیہ کے زیر عتاب آئے اور پانچ برس کے لیے نااہل قرار پائے تو میاں نواز شریف نے ان پر عہدہ چھوڑنے اور عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے ہر طور دباؤ ڈالا۔5برس بعد وہی عدالت عظمیٰ جب انھیں نااہل قرار دیتی ہے، تو واویلا کس لیے؟
اسی طرح جب امریکا میں پاکستان کے سفیر کے خلاف میمو اسکینڈل سامنے آیا، تو اس انتظامی معاملہ کو پارلیمان میں زیر بحث لانے کے بجائے میاں صاحب براہ راست عدالت عظمیٰ پہنچ گئے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ حسین حقانی کو اس معاملہ میں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ موجودہ وزیر داخلہ بھی یوسف رضا گیلانی کے استعفیٰ کے مطالبہ کا بینر لے کر پارلیمان کے باہر کھڑے ہوگئے تھے۔ مگر اپنی جماعت کے سربراہ کو عدالتی فیصلے کا احترام کرنے کا مشورہ نہیں دے رہے ۔
ملک کے متوشش شہریوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ میاں صاحب باقی دو بڑی جماعتوں کے قائدین سے بدرجہا بہتر ہیں۔ لیکن میاں صاحب ہر بار اپنی ہی غلطیوں کے دام میں خود ہی پھنس جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا یہ دعویٰ درست کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نااہلی کا فیصلہ غلط ہے۔ 90فیصد لوگ ان کے دعوے کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ سیاسی معاملات جنھیں پارلیمان میں حل ہونا چاہیے تھا، انھیں عدالتوں میں کیوں لے جایا گیا؟کیا اس طرح سیاسی جماعتوں نے خود عدالتوں کو سیاسی معاملات میں الجھنے کا موقع فراہم نہیں کیا؟ اب جس طرح عدلیہ پر جلسوں میں تنقید کی جا رہی ہے، وہ ملک کو نئے بحران کی طرف لے جانے کا باعث بن رہا ہے۔ مگر انھیں اس کا احساس نہیں ہے۔
ہم دیکھتے ہیں پیپلز پارٹی 1977کے بعد سے اب تک اچھی حکمرانی کی مثال قائم نہیں کرسکی۔ لیکن اسے جب بھی اقتدار ملا، اس نے پارلیمان کے ذریعہ ایسی قانون سازیاں کرنے کی مقدور بھر کوشش کی، جن کے دور رس اثرات نظم حکمرانی پر مرتب ہوں۔ یعنی 18ویں آئین ترمیم، جنسی ہراسگی کے خلاف قانون سازی وغیرہ ۔جب کہ مسلم لیگ ن تین بار حکومت میں آنے کے باوجود کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں کرسکی ۔ بلکہ اس کے دامن پر بعض آمرانہ قوانین کو متعارف کرانے کا سہرا ضرور بندھتا ہے۔ جیسے ریمانڈ کی مدت میں غیر ضروری اضافہ، فوجی عدالتوں کی شکل میں متوازی عدالتی نظام کا قیام وغیرہ۔
المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں سیاسی عزم و بصیرت کا فقدان ہے۔ ان کا محور وسیع تر جمہوری اقدار کے استحکام کے بجائے ذاتی اقتدار کا استحکام ہوتا ہے جو ہر بار غلط حکمت عملیوں اور پارلیمان کو نظر انداز کرنے کے باعث تالاب میں پتے پر رکھا کنکر ثابت ہوتا ہے۔ میاں صاحب جو دومرتبہ اپنی مدت مکمل کیے بغیر بھیج دیے گئے ۔ اگرتیسری مرتبہ سیاسی سوجھ بوجھ اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ، تو پارلیمان کے ذریعہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن میں اصلاحات لانے کے ساتھ ان کی تنظیم نو کرنے پر توجہ دیتے، تو حالات مختلف ہونے کا قوی امکان تھا۔ مگر ان کے پیش نظر پاکستان کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں بہتری کے بجائے ذاتی اقتدار رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے انھیں ہر بار ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔
چیف جسٹس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آئین ملک کی سب سے اہم اور بالادست دستاویز ہے۔ جس کی بنیادی اور انسانی حقوق کی شقوں میں ترامیم کی پارلیمان بھی مجاز نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جب BJPکی اولین حکومت نے بھارتی آئین سے سیکیولرا زم کی شق کو خارج کرنے کا عندیہ دیا، تو سب سے پہلے صدر نے کہا کہ وہ ایسی کسی ترمیم پر دستخط نہیں کریں گے، جو آئین کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہو۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ وہ بحیثیت Apex Courtایسی تمام ترامیم کو کالعدم کرنے کا آئینی اختیار رکھتی ہے، جو آئین کی بنیاد سے متصادم ہوں۔
عرض ہے کہ ادارہ جاتی تصادم، اداروں اور سیاسی عمل کی بے توقیری پر منتج ہوتی ہے۔ یہ عمل پہلے سے زد پذیر (Fragile)پاکستان کو مزید Vulnerable بنانے کا باعث بن رہاہے۔دوسرے ایسے تصادم ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں حکومتوں اور مختلف اداروں کا ماورائے آئین جانا معمول کی بات بن گیا ہے، وہاں داد رسی کا واحد ذریعہ اعلیٰ عدلیہ ہی رہ گئی ہے۔ اگر یہ بھی متنازع اور بے توقیر ہوگئی ،تو عام شہری کے لیے عافیت کا کوئی در باقی نہیں رہ پائے گا۔ اس لیے گذارش ہے کہ اداروں کو جلسہ عام میں بے توقیر کرنے سے بہتر ہے کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اصلاحات لانے کی کوشش کی جائے۔ اسی میں اس ملک اور عوام کی بہتری مضمر ہے۔
امریکا جس کے آئین کے ابتدائیہ میں واضح طورپردرج ہے کہ ''خدا نے تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔ انھیں زندگی، آزادی اور خوشیوں کے حصول کا مساوی حق حاصل ہے'' مگر امریکا نے نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے والی ریاستوںکو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے عوامی قبولیت سے قائم حکومتوں کا تختہ الٹے والی فوجی آمریتوں کی سرپرستی کرکے اپنے ہی آئین کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ جس کے باعث وہ ممالک اپنے لیے کوئی واضح اور مضبوط سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینے میں ناکام رہے۔
پاکستان بھی ایک ایسا ہی ملک ہے، جہاں ایک طرف امریکا نے سرد جنگ کے پورے عرصے کے دوران جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا ۔دوسری طرف فوجی آمریتوںاور فیوڈل سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ نے Adhocism کا آسان راستہ اختیار کیا ۔ جس کے نتیجے میںیہاں قائم ہونے والی سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں نے جمہوری اداروں کے استحکام پر توجہ نہیں دی ۔ جس کا خمیازہ ملک کے عوام ستر برس سے تسلسل کے ساتھ بھگت رہے ہیں۔
اس حقیقت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد یہاں انتظامی طاقت کا مرکز و منبع گورنر جنرل ہاؤس اورسیکریٹری جنرل کا سیکریٹریٹ بن جانے سے وزیر اعظم ہاؤس محض نمائشی ہوکر رہ گیا ۔ اقتدارواختیارکا یہ کلچر ملک غلام محمد سے اسکندر مرزا کے ذریعے ایوب خان تک پہنچا ۔ جہاں سے پرویز مشرف تک ملک کی سیاسی اور انتظامی سرگرمیوں کا محور گورنر جنرل ہاؤس کے بعد ایوان صدر بن گیا ۔ ریاستی منصوبہ سازی پارلیمان کے بجائے کہیں اور ہونے لگی ۔ یوں آئین کے پارلیمانی جمہوری ہونے کے باوجود ملک عملاً صدارتی نظام کے زیر اثر ہی رہا۔ اس دوران صرف بھٹو مرحوم کا ساڑھے چار برس کا عرصہ ایسا ہے، جس میں وزیراعظم ہاؤس بظاہر ہر قسم کی فیصلہ سازی کا مرکز نظر آتا ہے اور اہم فیصلے پارلیمان کے ذریعے ہوئے۔
جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور کے بعد بی بی مرحومہ یا میاں نواز شریف نے جب بھی فیصلہ سازی کے حوالے سےAssertکرنے کی کوشش کی، ان کی حکومتوں کو قبل از وقت فارغ کردیا گیا۔ لیکن یہ دونوں بھی عوامی مفاد میں اسٹبلشمنٹ سے الجھنے کے بجائے ذاتی معاملات پر ٹکرائے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی سیاسی بحران پیدا ہوا، انھیں بھرپور عوامی حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔ وقت اور حالات یہ بھی بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ دونوں وہی غلطیاں تسلسل کے ساتھ دہرا رہے ہیں، جو ان کے اقتدار کے خاتمہ کا باعث بنتی رہی ہیں۔
مثال کے طور پر ستمبر2012 میں جب اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی عدلیہ کے زیر عتاب آئے اور پانچ برس کے لیے نااہل قرار پائے تو میاں نواز شریف نے ان پر عہدہ چھوڑنے اور عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے ہر طور دباؤ ڈالا۔5برس بعد وہی عدالت عظمیٰ جب انھیں نااہل قرار دیتی ہے، تو واویلا کس لیے؟
اسی طرح جب امریکا میں پاکستان کے سفیر کے خلاف میمو اسکینڈل سامنے آیا، تو اس انتظامی معاملہ کو پارلیمان میں زیر بحث لانے کے بجائے میاں صاحب براہ راست عدالت عظمیٰ پہنچ گئے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ حسین حقانی کو اس معاملہ میں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ موجودہ وزیر داخلہ بھی یوسف رضا گیلانی کے استعفیٰ کے مطالبہ کا بینر لے کر پارلیمان کے باہر کھڑے ہوگئے تھے۔ مگر اپنی جماعت کے سربراہ کو عدالتی فیصلے کا احترام کرنے کا مشورہ نہیں دے رہے ۔
ملک کے متوشش شہریوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ میاں صاحب باقی دو بڑی جماعتوں کے قائدین سے بدرجہا بہتر ہیں۔ لیکن میاں صاحب ہر بار اپنی ہی غلطیوں کے دام میں خود ہی پھنس جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا یہ دعویٰ درست کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نااہلی کا فیصلہ غلط ہے۔ 90فیصد لوگ ان کے دعوے کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ سیاسی معاملات جنھیں پارلیمان میں حل ہونا چاہیے تھا، انھیں عدالتوں میں کیوں لے جایا گیا؟کیا اس طرح سیاسی جماعتوں نے خود عدالتوں کو سیاسی معاملات میں الجھنے کا موقع فراہم نہیں کیا؟ اب جس طرح عدلیہ پر جلسوں میں تنقید کی جا رہی ہے، وہ ملک کو نئے بحران کی طرف لے جانے کا باعث بن رہا ہے۔ مگر انھیں اس کا احساس نہیں ہے۔
ہم دیکھتے ہیں پیپلز پارٹی 1977کے بعد سے اب تک اچھی حکمرانی کی مثال قائم نہیں کرسکی۔ لیکن اسے جب بھی اقتدار ملا، اس نے پارلیمان کے ذریعہ ایسی قانون سازیاں کرنے کی مقدور بھر کوشش کی، جن کے دور رس اثرات نظم حکمرانی پر مرتب ہوں۔ یعنی 18ویں آئین ترمیم، جنسی ہراسگی کے خلاف قانون سازی وغیرہ ۔جب کہ مسلم لیگ ن تین بار حکومت میں آنے کے باوجود کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں کرسکی ۔ بلکہ اس کے دامن پر بعض آمرانہ قوانین کو متعارف کرانے کا سہرا ضرور بندھتا ہے۔ جیسے ریمانڈ کی مدت میں غیر ضروری اضافہ، فوجی عدالتوں کی شکل میں متوازی عدالتی نظام کا قیام وغیرہ۔
المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں سیاسی عزم و بصیرت کا فقدان ہے۔ ان کا محور وسیع تر جمہوری اقدار کے استحکام کے بجائے ذاتی اقتدار کا استحکام ہوتا ہے جو ہر بار غلط حکمت عملیوں اور پارلیمان کو نظر انداز کرنے کے باعث تالاب میں پتے پر رکھا کنکر ثابت ہوتا ہے۔ میاں صاحب جو دومرتبہ اپنی مدت مکمل کیے بغیر بھیج دیے گئے ۔ اگرتیسری مرتبہ سیاسی سوجھ بوجھ اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ، تو پارلیمان کے ذریعہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن میں اصلاحات لانے کے ساتھ ان کی تنظیم نو کرنے پر توجہ دیتے، تو حالات مختلف ہونے کا قوی امکان تھا۔ مگر ان کے پیش نظر پاکستان کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں بہتری کے بجائے ذاتی اقتدار رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے انھیں ہر بار ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔
چیف جسٹس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آئین ملک کی سب سے اہم اور بالادست دستاویز ہے۔ جس کی بنیادی اور انسانی حقوق کی شقوں میں ترامیم کی پارلیمان بھی مجاز نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جب BJPکی اولین حکومت نے بھارتی آئین سے سیکیولرا زم کی شق کو خارج کرنے کا عندیہ دیا، تو سب سے پہلے صدر نے کہا کہ وہ ایسی کسی ترمیم پر دستخط نہیں کریں گے، جو آئین کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہو۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ وہ بحیثیت Apex Courtایسی تمام ترامیم کو کالعدم کرنے کا آئینی اختیار رکھتی ہے، جو آئین کی بنیاد سے متصادم ہوں۔
عرض ہے کہ ادارہ جاتی تصادم، اداروں اور سیاسی عمل کی بے توقیری پر منتج ہوتی ہے۔ یہ عمل پہلے سے زد پذیر (Fragile)پاکستان کو مزید Vulnerable بنانے کا باعث بن رہاہے۔دوسرے ایسے تصادم ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں حکومتوں اور مختلف اداروں کا ماورائے آئین جانا معمول کی بات بن گیا ہے، وہاں داد رسی کا واحد ذریعہ اعلیٰ عدلیہ ہی رہ گئی ہے۔ اگر یہ بھی متنازع اور بے توقیر ہوگئی ،تو عام شہری کے لیے عافیت کا کوئی در باقی نہیں رہ پائے گا۔ اس لیے گذارش ہے کہ اداروں کو جلسہ عام میں بے توقیر کرنے سے بہتر ہے کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اصلاحات لانے کی کوشش کی جائے۔ اسی میں اس ملک اور عوام کی بہتری مضمر ہے۔