انداز بیان
امریکا میں ایک اور مشاہدہ ہوا کہ دیسی ریسٹورنٹس میں ستر اور اسی کی دہائی کے گانے سنائی دیتے ہیں۔
'' استاد جی! اسپیلنگ چیک کرلو ورنہ اسٹوڈنٹس مذاق اڑائیں گے ۔''
یہ الفاظ اس وقت سننے کو ملے جب میں نے فیس بک پر ایک تصویر چڑھائی۔
میں نے اس تصویرکا کیپشن یعنی عنوان دوبارہ دیکھا تو صاحب کی بات درست تھی۔ اس پورے عنوان میں ایک جگہ انگریزی کے لفظ '' u'' کی جگہ '' a '' آنا چاہیے تھا، میں نے فوری طور پر تصحیح کی۔ عنوان تو درست ہو گیا پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ان صاحب کا مقصد میری اصلاح تھا یا اپنی علمیت کا اظہار ... جواب سامنے تھا کیونکہ اگر وہ میری اصلاح چاہتے تو ان باکس میں مجھے پیغام بھیجتے پر انھوں نے تو تصویرکے کمنٹ میں ہی لکھ دیا، میں مسکرایا کیونکہ شاید ان حضرت نے انگریزی میں لکھا گیا کیپشن تو پڑھا پر اس کا مطلب سمجھ نہ پائے۔
عنوان میں لکھے گئے لفظوں کا اردو ترجمہ یہ تھا کہ ''میری آنکھیں بیماری کے باعث خراب ہیں پر پھر بھی میں اپنے طالب علموں کے سالانہ امتحان کی خاطر زیبسٹ یونیورسٹی پہنچا ہوں، اللہ میرے طالبعلموں کو مستقبل میں کامیاب فرمائے'' میری مسکراہٹ مزید گہری ہوچکی تھی کیونکہ پروفائل دیکھنے کے بعد علم ہوا کہ بیرون ملک مقیم ہیں۔ ظاہر ہے بیرون ملک مقیم ہیں تو اپنی دانست میں نہایت عالم و فاضل بھی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ان صاحب کا ہی نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم اکثر پاکستانیوں کا ہے یعنی مسئلہ نفسیات کا ہے۔ جن کی سمجھ میں بات نہ آئی ان کے لیے سوال ہے کہ بیرون ملک مقیم تارکین وطن میں زیادہ تعداد کن کی ہے؟
جنھیں جواب نہیں مل رہا ان کے لیے عرض ہے کہ اکثریت ان کی ہے جو عملی زندگی میں یہاں ناکام ہوئے اور ترقی کی خواہش لیے دیگر ممالک کا رخ کیا۔ خواب اس وقت چکنا چور ہوئے جب پیسہ توکسی نہ کسی طرح کما ہی لیا پر فرسٹ ورلڈ میں تیسرے درجے کے شہری سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ جن غریبوں نے یہاں محنت کی آج وہ تھرڈ ورلڈ میں پہلے درجے کی زندگی جی رہے ہیں۔ یہ فرق ہے سوچ کی وسعت کا۔ اکثر تارکین وطن ذہنی طور پر پاکستان میں بسنے والوں سے بہت پیچھے زندگی گزار رہے ہیں۔اس کا ذاتی تجربہ دیار غیر میں اکثر اوقات ہوتا رہا ہے۔
دو سال پہلے کا واقعہ ہے میں واشنگٹن کے نزدیکی علاقے آرلنگٹن کی ایک فوڈ اسٹریٹ پر ایک صاحب کا مختصر انٹرویو (ساٹ) لے کر فارغ ہی ہوا تھا کہ پیچھے سے ایک آواز آئی ''ارے واہ گرفت والے امریکا بھی پہنچ گئے۔ ان صاحب سے مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا حضور بضد ہوئے کہ ایک کپ چائے تو ہو ہی جائے۔ وقت کی کمی کے باوجود ان کے خلوص سے متاثر ہو کر ہم نے عزیز احمد کو اشارہ کیا اور ان کے ساتھ ہولیے۔
ہمارا پڑاؤ واشنگٹن میں عزیز بھائی کے ہاں تھا اور پروگرام کی کیمرہ پروڈکشن کے فرائض عزیز بھائی ہی نبھا رہے تھے۔چائے کے آرڈرکے بعد ہمارے دادا حضورکی عمرکے ان صاحب نے بتانا شروع کیا کہ کس طرح وہ امریکا آئے اور آج بہترین زندگی گزار رہے ہیں ۔گفتگو کے دوران جلد ہی وہ اصل مدعے پر آگئے اور فرمایا کہ صدام صاحب جن حضرت کا آپ انٹرویو لے رہے تھے کیا آپ انھیں جانتے ہیں؟ ہم نے خشمگیں نگاہوں سے ان کی جانب دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔
ظاہر ہے جس مقصد سے میں ان کا انٹرویو لے رہا تھا اگر ان سے واقف نہ ہوتا تو انٹرویو کیوں کر ممکن؟ ان صاحب نے مزید کہا ارے بھائی یہ تو انتہائی کرپٹ انسان ہیں۔ اس کے بعد ان صاحب نے ان حضرت کی شان میں غیبت کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے قصیدہ گوئی کا جو آغاز کیا اس میں وقفہ برائے نمازکی بھی گنجائش نہیں رہی۔ ہم عزیز بھائی کو اور وہ ہمیں آنکھوں ہی آنکھوں میں راہ فرار کے لیے اکسا رہے تھے پر تمام راہیں مسدود۔ اللہ اللہ کرکے موقع پاتے ہی ہم نے جان چھڑائی اور گاڑی کے پاس پہنچ کر دم لیا۔
عزیز بھائی نے گاڑی آگے بڑھائی تو ہم سوچنے لگے کہ امریکا میں لمبے عرصے سے مقیم ہونے کے باوجود کئی پاکستانیوں کا امریکا بھی کچھ نہیں بگاڑ پایا۔ دوسری جانب پاکستان میں بسنے والے ذہنی طور پر ایسے تارکین وطن سے بہت آگے ہیں۔ ایسا نہیں کہ اس قبیل کے لوگ یہاں نہیں بستے، بالکل بستے ہیں پر یہ وہی ہیں جو یہاں بھی ناکام ہیں اور اپنی ناکامیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ اس قبیل کے لوگ غیبت کی لذت میں کسی پر تہمت لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
امریکا میں ایک اور مشاہدہ ہوا کہ دیسی ریسٹورنٹس میں ستر اور اسی کی دہائی کے گانے سنائی دیتے ہیں۔ اس دور میں آئے تارکین وطن کا فیشن بھی کچھ اسی دورکی یاد دلاتا ہے۔ جو لوگ جس دور میں وہاں جا بسے ان کی اکثریت اسی دور میں جیتی نظر آتی ہے۔ یہ لوگ پیسہ کمانے کی دوڑ میں تعلیم پر توجہ نہ دے پائے۔گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کے چکر کے دوران اور احساس کمتری کے باعث گوروں سے بھی علیحدہ رہے۔
معاشرے سے کٹ کر رہنے کے باعث ذہنی بالیدگی کی رفتار اس قدر سست رہی کہ نہ یہاں کے رہے اور نہ وہاں کے اور یہ حال اکثر تارکین وطن کا صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ فرسٹ ورلڈ میں شامل دیگر ممالک میں بسنے والوں کا حال بھی یکساں ہے۔ امریکی ریاست شکاگو ایلینوئے کے ٹاؤن بولنگ بروک کے کمشنر طلعت رشید جوکہ چالیس سال سے امریکا میں مقیم ہیں وہ بھی اس صورتحال سے خاصے نالاں ہیں۔
سن2016ء میں بھی ہالوین تہوار کے دوران ہم طلعت رشید کے ساتھ سیرسپاٹے میں مصروف تھے تو ایک رہائشی علاقے سے گزرتے ہوئے انھوں نے ایک بورڈ کی جانب اشارہ کیا جو ایک گھر کے باہر آویزاں تھا۔ اس بورڈ پر انگریزی میں لکھا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور ہالوین نہیں مناتا۔ طلعت رشید کی بات بالکل درست تھی کہ اگر ہالوین نہیں منانا تو ایسا بورڈ آویزاں کرکے اشتعال انگیزی کی کیا ضرورت ہے۔ مسیحی برادری کی اکثریت پر مشتمل ملک میں جا کے رہنا بھی ہے کمانا بھی ہے تمام آسائشیں بھی حاصل کرنی ہیں اور اس کے بعد ایسی اشتعال انگیزی کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھی ہوا دینی ہے۔
طلعت رشید نے اپنے ٹاؤن میں دو مسجدیں تعمیرکر وائی ہیں۔ ان مسجدوں کی تعمیر بولنگ بروک کے گورے میئر راجر سی کلار نے کروائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا میں مغرب کے بعد گرجا گھروں سمیت تمام مذہبی عبادت گاہیں بند ہو جانے کا قانون ہے جس پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔ بولنگ بروک میں طلعت رشید کی کاوشوں کے باعث ماہ رمضان میں مسجدوں میں نماز تراویح کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان مسجدوں کی حفاظت پر مامور زیادہ تر پولیس اہلکار بھی مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
طلعت رشید نے افسوس کے ساتھ ایسے ہی عاقبت نااندیش اور ذہنی پستی کے شکار ایک پاکستانی بزرگ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ میئر راجر سی کلار مسجد کی صفائی ستھرائی کا جائزہ لینے پہنچے تو مسجد کے فنڈ میں دینے کے لیے کچھ رقم بھی پیش کی تو وہ موصوف چلانے لگے کہ کیا اب اس کافرکی رقم مسجد کے چندے میں شامل ہوگی۔ میئر صاحب اردو سے تو ناواقف تھے پر اندازسے کچھ کچھ بھانپ گئے۔ بقول طلعت رشید کہ انھوں نہ یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کر وایا کہ جس کافر نے یہ مسجد تعمیر کروائی ہے اس کی ذاتی رقم بالکل مسجد کے لیے نہ استعمال کی جائے البتہ اس رقم کا استعمال مسجد کے بیت الخلا کے لیے تو ہو ہی سکتا ہے۔
یہ وہ عمومی رویہ ہے جس باعث غیر مسلم، مسلمانوں سے گھلنے ملنے کے بجائے دور رہنے میں عافیت جانتے ہیں۔ اس طرح کے کم عقل لوگ دین اسلام کی خوبصورت شکل کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس طرز عمل سے کتنا نقصان پہنچتا ہے۔
یہ الفاظ اس وقت سننے کو ملے جب میں نے فیس بک پر ایک تصویر چڑھائی۔
میں نے اس تصویرکا کیپشن یعنی عنوان دوبارہ دیکھا تو صاحب کی بات درست تھی۔ اس پورے عنوان میں ایک جگہ انگریزی کے لفظ '' u'' کی جگہ '' a '' آنا چاہیے تھا، میں نے فوری طور پر تصحیح کی۔ عنوان تو درست ہو گیا پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ان صاحب کا مقصد میری اصلاح تھا یا اپنی علمیت کا اظہار ... جواب سامنے تھا کیونکہ اگر وہ میری اصلاح چاہتے تو ان باکس میں مجھے پیغام بھیجتے پر انھوں نے تو تصویرکے کمنٹ میں ہی لکھ دیا، میں مسکرایا کیونکہ شاید ان حضرت نے انگریزی میں لکھا گیا کیپشن تو پڑھا پر اس کا مطلب سمجھ نہ پائے۔
عنوان میں لکھے گئے لفظوں کا اردو ترجمہ یہ تھا کہ ''میری آنکھیں بیماری کے باعث خراب ہیں پر پھر بھی میں اپنے طالب علموں کے سالانہ امتحان کی خاطر زیبسٹ یونیورسٹی پہنچا ہوں، اللہ میرے طالبعلموں کو مستقبل میں کامیاب فرمائے'' میری مسکراہٹ مزید گہری ہوچکی تھی کیونکہ پروفائل دیکھنے کے بعد علم ہوا کہ بیرون ملک مقیم ہیں۔ ظاہر ہے بیرون ملک مقیم ہیں تو اپنی دانست میں نہایت عالم و فاضل بھی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ان صاحب کا ہی نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم اکثر پاکستانیوں کا ہے یعنی مسئلہ نفسیات کا ہے۔ جن کی سمجھ میں بات نہ آئی ان کے لیے سوال ہے کہ بیرون ملک مقیم تارکین وطن میں زیادہ تعداد کن کی ہے؟
جنھیں جواب نہیں مل رہا ان کے لیے عرض ہے کہ اکثریت ان کی ہے جو عملی زندگی میں یہاں ناکام ہوئے اور ترقی کی خواہش لیے دیگر ممالک کا رخ کیا۔ خواب اس وقت چکنا چور ہوئے جب پیسہ توکسی نہ کسی طرح کما ہی لیا پر فرسٹ ورلڈ میں تیسرے درجے کے شہری سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ جن غریبوں نے یہاں محنت کی آج وہ تھرڈ ورلڈ میں پہلے درجے کی زندگی جی رہے ہیں۔ یہ فرق ہے سوچ کی وسعت کا۔ اکثر تارکین وطن ذہنی طور پر پاکستان میں بسنے والوں سے بہت پیچھے زندگی گزار رہے ہیں۔اس کا ذاتی تجربہ دیار غیر میں اکثر اوقات ہوتا رہا ہے۔
دو سال پہلے کا واقعہ ہے میں واشنگٹن کے نزدیکی علاقے آرلنگٹن کی ایک فوڈ اسٹریٹ پر ایک صاحب کا مختصر انٹرویو (ساٹ) لے کر فارغ ہی ہوا تھا کہ پیچھے سے ایک آواز آئی ''ارے واہ گرفت والے امریکا بھی پہنچ گئے۔ ان صاحب سے مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا حضور بضد ہوئے کہ ایک کپ چائے تو ہو ہی جائے۔ وقت کی کمی کے باوجود ان کے خلوص سے متاثر ہو کر ہم نے عزیز احمد کو اشارہ کیا اور ان کے ساتھ ہولیے۔
ہمارا پڑاؤ واشنگٹن میں عزیز بھائی کے ہاں تھا اور پروگرام کی کیمرہ پروڈکشن کے فرائض عزیز بھائی ہی نبھا رہے تھے۔چائے کے آرڈرکے بعد ہمارے دادا حضورکی عمرکے ان صاحب نے بتانا شروع کیا کہ کس طرح وہ امریکا آئے اور آج بہترین زندگی گزار رہے ہیں ۔گفتگو کے دوران جلد ہی وہ اصل مدعے پر آگئے اور فرمایا کہ صدام صاحب جن حضرت کا آپ انٹرویو لے رہے تھے کیا آپ انھیں جانتے ہیں؟ ہم نے خشمگیں نگاہوں سے ان کی جانب دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔
ظاہر ہے جس مقصد سے میں ان کا انٹرویو لے رہا تھا اگر ان سے واقف نہ ہوتا تو انٹرویو کیوں کر ممکن؟ ان صاحب نے مزید کہا ارے بھائی یہ تو انتہائی کرپٹ انسان ہیں۔ اس کے بعد ان صاحب نے ان حضرت کی شان میں غیبت کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے قصیدہ گوئی کا جو آغاز کیا اس میں وقفہ برائے نمازکی بھی گنجائش نہیں رہی۔ ہم عزیز بھائی کو اور وہ ہمیں آنکھوں ہی آنکھوں میں راہ فرار کے لیے اکسا رہے تھے پر تمام راہیں مسدود۔ اللہ اللہ کرکے موقع پاتے ہی ہم نے جان چھڑائی اور گاڑی کے پاس پہنچ کر دم لیا۔
عزیز بھائی نے گاڑی آگے بڑھائی تو ہم سوچنے لگے کہ امریکا میں لمبے عرصے سے مقیم ہونے کے باوجود کئی پاکستانیوں کا امریکا بھی کچھ نہیں بگاڑ پایا۔ دوسری جانب پاکستان میں بسنے والے ذہنی طور پر ایسے تارکین وطن سے بہت آگے ہیں۔ ایسا نہیں کہ اس قبیل کے لوگ یہاں نہیں بستے، بالکل بستے ہیں پر یہ وہی ہیں جو یہاں بھی ناکام ہیں اور اپنی ناکامیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ اس قبیل کے لوگ غیبت کی لذت میں کسی پر تہمت لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
امریکا میں ایک اور مشاہدہ ہوا کہ دیسی ریسٹورنٹس میں ستر اور اسی کی دہائی کے گانے سنائی دیتے ہیں۔ اس دور میں آئے تارکین وطن کا فیشن بھی کچھ اسی دورکی یاد دلاتا ہے۔ جو لوگ جس دور میں وہاں جا بسے ان کی اکثریت اسی دور میں جیتی نظر آتی ہے۔ یہ لوگ پیسہ کمانے کی دوڑ میں تعلیم پر توجہ نہ دے پائے۔گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کے چکر کے دوران اور احساس کمتری کے باعث گوروں سے بھی علیحدہ رہے۔
معاشرے سے کٹ کر رہنے کے باعث ذہنی بالیدگی کی رفتار اس قدر سست رہی کہ نہ یہاں کے رہے اور نہ وہاں کے اور یہ حال اکثر تارکین وطن کا صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ فرسٹ ورلڈ میں شامل دیگر ممالک میں بسنے والوں کا حال بھی یکساں ہے۔ امریکی ریاست شکاگو ایلینوئے کے ٹاؤن بولنگ بروک کے کمشنر طلعت رشید جوکہ چالیس سال سے امریکا میں مقیم ہیں وہ بھی اس صورتحال سے خاصے نالاں ہیں۔
سن2016ء میں بھی ہالوین تہوار کے دوران ہم طلعت رشید کے ساتھ سیرسپاٹے میں مصروف تھے تو ایک رہائشی علاقے سے گزرتے ہوئے انھوں نے ایک بورڈ کی جانب اشارہ کیا جو ایک گھر کے باہر آویزاں تھا۔ اس بورڈ پر انگریزی میں لکھا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور ہالوین نہیں مناتا۔ طلعت رشید کی بات بالکل درست تھی کہ اگر ہالوین نہیں منانا تو ایسا بورڈ آویزاں کرکے اشتعال انگیزی کی کیا ضرورت ہے۔ مسیحی برادری کی اکثریت پر مشتمل ملک میں جا کے رہنا بھی ہے کمانا بھی ہے تمام آسائشیں بھی حاصل کرنی ہیں اور اس کے بعد ایسی اشتعال انگیزی کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھی ہوا دینی ہے۔
طلعت رشید نے اپنے ٹاؤن میں دو مسجدیں تعمیرکر وائی ہیں۔ ان مسجدوں کی تعمیر بولنگ بروک کے گورے میئر راجر سی کلار نے کروائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا میں مغرب کے بعد گرجا گھروں سمیت تمام مذہبی عبادت گاہیں بند ہو جانے کا قانون ہے جس پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔ بولنگ بروک میں طلعت رشید کی کاوشوں کے باعث ماہ رمضان میں مسجدوں میں نماز تراویح کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان مسجدوں کی حفاظت پر مامور زیادہ تر پولیس اہلکار بھی مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
طلعت رشید نے افسوس کے ساتھ ایسے ہی عاقبت نااندیش اور ذہنی پستی کے شکار ایک پاکستانی بزرگ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ میئر راجر سی کلار مسجد کی صفائی ستھرائی کا جائزہ لینے پہنچے تو مسجد کے فنڈ میں دینے کے لیے کچھ رقم بھی پیش کی تو وہ موصوف چلانے لگے کہ کیا اب اس کافرکی رقم مسجد کے چندے میں شامل ہوگی۔ میئر صاحب اردو سے تو ناواقف تھے پر اندازسے کچھ کچھ بھانپ گئے۔ بقول طلعت رشید کہ انھوں نہ یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کر وایا کہ جس کافر نے یہ مسجد تعمیر کروائی ہے اس کی ذاتی رقم بالکل مسجد کے لیے نہ استعمال کی جائے البتہ اس رقم کا استعمال مسجد کے بیت الخلا کے لیے تو ہو ہی سکتا ہے۔
یہ وہ عمومی رویہ ہے جس باعث غیر مسلم، مسلمانوں سے گھلنے ملنے کے بجائے دور رہنے میں عافیت جانتے ہیں۔ اس طرح کے کم عقل لوگ دین اسلام کی خوبصورت شکل کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس طرز عمل سے کتنا نقصان پہنچتا ہے۔