ایمنسٹی انٹرنیشنل تعریف سے تنقید تک

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ کسی حکومت سے کوئی فنڈ حاصل نہیں کرتی۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انداز سیاست پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے نفرتیں پھیلانے کا موجب قرار دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتخابی مہم کے دوران صدراتی عہدے کے لیے میدان میں اترنے والے پہلے امیدوار ہیں جو مختلف الزامات کی زد میں تھے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر ان کے معاشقوں کا وہ بازار گرم ہوا کہ صدر منتخب ہونے سے پہلے ہی وہ کسی صدر جتنی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی شہرت'بدنام اگر ہوں گے توکیا نام نہ ہو گا' والی شہرت ہی تھی۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے امریکا کے سابق صدورکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے نئی معاشی و صنعتی پالیسیوں کے ساتھ تارکین وطن کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا،اس نے امریکی عوام کے ساتھ دنیا بھرکو حیرت زدہ کر دیا۔دوسرے بیانات کے علاوہ ان کا نفرت سے بھرا وہ بیان تو سب کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا جس میں انھوں نے افریقی تارکین وطن کی تذلیل کی تھی۔ ایشیائی ممالک کے دورے کے بعد اسی بیان کی وجہ سے انھیں برطانیہ کا وہ دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا جس کے دوران انھیں نو تعمیر امریکی سفارت خانے کی عمارت کا افتتاح کرنا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کا بھی خطرہ تھا، لیبر پارٹی نے بھی ان کے دورے کی مخالفت کی تھی، لندن کے میئر بھی ان کے اس دورے کے خلاف تھے اور برطانیہ کے شہریوں نے بھی اس کی مخالفت میں آن لائن دستخطی مہم شروع کی تھی جس پر اٹھارہ لاکھ سے زائد شہریوں نے اپنے دستخط کیے تھے۔ صرف یہی نہیں برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیوٹر پر بھی تارکین وطن کے مسئلے پر گرما گرم سیاسی بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں جہاں شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلانے لگے وہاں افغانستان میں موجود امریکی فوج پر ہونے والے اربوں ڈالرکے دفاعی اخراجات بھی موضوع بحث رہے۔ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے امریکا کو اپنے کئی فوجیوں اور افغان عوام کی قربانی کے ساتھ سالانہ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے جو امریکی حکام اور عوام دونوں کے لیے ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہا ہے۔

ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ ہم ایک گھائی میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کے اعلان نے بھی اسلامی ممالک میں ان کی مخالفت کو مزید ہوا دی ۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں جہاں امریکی صدر کے انداز سیاست پر تنقید کی وہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا اور چھ مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکا میں داخلے پر پابندی کو بھی نفرت انگیز عمل قرار دیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے جنگی جرائم پر تنقید کے ساتھ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم پر بھی چپ نہیں سادھی ۔ پچھلے دنوں اپنے ایک بیان میں ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھارتی حکمرانوں سے کہا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پرحملوں اور بڑھتے ہوئے ا سلامو فوبیا کی مذمت کریں۔


سرینگر ٹو ڈے کے مطابق پچھلے سال ستمبر میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کے زیر اہتمام سری نگرکے ہوٹل میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں پلیٹ گن اور دیگر ہتھیاروں سے متاثر ہونے والے شہریوں اور حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کے عزیزوں اور رشتے داروں نے شرکت کی۔

اس پروگرام میں ایمنسٹی انٹر نیشنل بھارت کے ڈائریکٹر نے پیلٹ گن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پیلٹ گن کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار سال کے دوران اٹھاسی افراد اپنی آنکھوں اور بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کا قیام1961ء کو عمل میں آیا تھا ۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ کسی حکومت سے کوئی فنڈ حاصل نہیں کرتی بلکہ دنیا بھر میں موجود ممبران کی فیس سے ہی اپنے اخراجات پورے کرتی ہے ۔ ان ممبران میں بہت کم ایسے ہیں جنھیں تنخواہ پر ملازم رکھا گیا ہے ۔ اس کے باوجود یہ ادارہ برطانیہ کے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ، یورپین کمیشن اور امریکا کے'' اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ '' سے مالی امدد حاصل کرتا رہا ۔ امریکا میں قائم اس ادارے کو'' روک فلر فاؤنڈیشن'' کی مالی امداد بھی حاصل ہے ، مگر اس ادارے کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ یہ امداد صرف انسانی حقوق کی تعلیم کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔

تیسری دنیا کے کئی ممالک ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایسے فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں جو ان کے ثقافتی، مذہبی یا علاقائی قوانین سے ٹکراتے ہوں اور ایسے کاموں کی تعریف کرتے ہیں جو ان کے لیے مفید ہوں ، جن ممالک میں فوجی حکومتیں قائم تھیں وہ بھی اس تنظیم کی تنقید اورکام سے ہمیشہ نا خوش رہے۔

اسرائیل، بھارت، چین ، کانگو، برطانیہ، ویت نام اور امریکا کی حکومتوں کے بعض سیاسی فیصلوں پر تنقید کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو ان ممالک کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ سوڈان کے ایک اخبار نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی کی روح قرار دے دیا ہے۔

پاکستان میں نوے کی دہائی کے آخری برسوں تک ایمنسٹی انٹر نیشنل کے دفاتر موجود تھے ۔ اس تنظیم کے کتابچے اور پمفلٹ بھی نظر آجاتے تھے اور ملک کے د رجن بھر شہروں میں اس کے ممبران بھی موجود تھے ۔ نوے کی دہائی میں ادیب آفریدی کراچی میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کے سیکشن ڈائریکٹر اور سرگرم کارکن کے طور پر سامنے آئے جو صرف نام کے ادیب نہیں تھے بلکہ انھیں علم و ادب اور پاکستان کی ثقافت سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔

ہنس مکھ ادیب آفریدی کی وفات کے بعد سید شمس الدین ایمنسٹی انٹر نیشنل کے سیکشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ان کے بعد نفیس غوری نے یہ منصب سنبھالا مگر کچھ عرصے کے بعدوہ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے اور آج کل ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کوئی بھی پمفلٹ یا کتابچہ کہیں نظر نہیں آتا۔
Load Next Story