ہائی بلڈ پریشر کیا ہے کیوں ہوتا ہے علاج کیا ہے

خون کی گردش کو برقرار رکھنے کے لیے نظام دوران خون میں دباؤ کا ہونا ضروری ہے، یہی دباؤ بلڈپریشر کہلاتا ہے۔

خون کی گردش کو برقرار رکھنے کے لیے نظام دوران خون میں دباؤ کا ہونا ضروری ہے، یہی دباؤ بلڈپریشر کہلاتا ہے۔ فوٹو : فائل

بلند فشار خون جسے انگریزی میں ہائی بلڈ پریشر کہا جاتا ہے، دل کے دورے اور اسٹروک کا ایک بڑا سبب ہے، مگر بہت سے لوگ اس کے بارے میں کئی حقائق سے واقف نہیں۔

1۔ بلڈپریشر زندہ رکھتا ہے
ہمارا دل ایک چھوٹا مگر طاقت وَر پمپ ہے جو باقاعدگی سے دھڑکتا ہے اور ہر ایک منٹ میں جسم میں پھیلی ہوئی ان گنت رگوں میں پانچ لیٹر خون پمپ کرتا ہے۔ اس عمل یعنی خون کی گردش کو برقرار رکھنے کے لیے نظام دوران خون میں دباؤ کا ہونا ضروری ہے۔ یہی دباؤ بلڈپریشر کہلاتا ہے۔ بلڈپریشر دو قسم کے ہوتے ہیں: انقباضی اور انبساطی۔ جب ہمارا دل سکڑتا ہے تو اس وقت بلڈ پریشر انقباضی فشار خون یا سسٹولک پریشر کہلاتا ہے۔ اور جب دل نارمل حالت میں آتا ہے تو اسے انبساطی یا ڈائسٹولک پریشر کہتے ہیں۔ اگر بلڈ پریشر کی ریڈنگ 140 / 80 ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ سسٹولک پریشر 140 اور ڈائسٹولک پریشر 80 ہے۔

2۔ دن بھر بلڈپریشر بدلتا رہتا ہے
دن بھر کے دوران بلڈپریشر کی سطح میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ جب آپ ورزش کررہے ہوں یا دباؤ میں ہوں تو بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے۔ جسم جب آرام دہ حالت میں ہو یا آپ سورہے ہوں تو پھر اس کی سطح گرجاتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر یا نرس سے چیک کرواتے ہوئے بلڈپریشر خود بہ خود بڑھ جاتا ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے ' وائٹ کوٹ بلڈ پریشر' کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر آپ گھر پر بلڈ پریشر مانیٹر رکھیں اور ریڈنگز لیتے رہیں تو بلڈ پریشر کی بالکل درست صورت حال آپ کے سامنے آجائے گی۔

روزانہ یا ہر ہفتے بلڈپریشر چیک کرنے کی ضرورت نہیں؛ اگر آپ ہائی بلڈ پریشر کی دوا لے رہے ہیں اور یہ کنٹرول میں ہے تو پھر ہر چند ماہ کے بعد چیک کروالینا کافی ہے، بہ صورت دیگر ہر چند ہفتے بعد چیک کروالینا چاہیے۔ اگر بلڈپریشر نارمل ہے تو پھر سال میں دو سے زیادہ بار چیک کروانے کی ضرورت نہیں۔ بیشتر ڈاکٹر یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ 130/80 بلڈ پریشر یا اس سے کم قابل قبول ہے۔ اگر آپ ذیابیطس کے مریض ہیں یا دل کے عارضے میں مبتلا ہیں تو پھر ریڈنگ اس سے کم ہونا زیادہ بہتر ہے۔

3۔ ہائی بلڈ پریشر۔۔۔۔۔ بس ہوجاتا ہے !
ہائی بلڈ پریشر یعنی بلند فشار خون جسے ہائپرٹینشن بھی کہا جاتا ہے، بہت سے لوگ اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی شکایت عام ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمر میں اضافے کے ساتھ جسم کے مختلف حصوں میں خون پہنچانے والی رگوں کی لچک کم ہوجاتی ہے، بہ الفاظ دیگر یہ قدرے سخت ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہائی بلڈ پریشر لاحق ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی، بس یہ ہوجاتا ہے۔ اسے بنیادی یا ابتدائی ہائپرٹیشن کہتے ہیں۔ 10 فی صد معاملات میں ہائپرٹینشن کا کوئی نہ کوئی طبی سبب ضرور ہوتا ہے۔ اسے ثانوی ہائپرٹینشن کہا جاتا ہے۔ ہائپرٹینشن لاحق ہونے کی طبی وجوہات میں گردے کے امراض، گردوں کو خون کی رسد میں رکاوٹ، حد سے زیادہ شراب نوشی، اور کچھ ہارمون کے مسائل ہوتے ہیں جو گردوں کو متأثر کرتے ہیں۔ یعنی ہائپرٹینشن کا بلاواسطہ بالواسطہ طور پر گردوں سے اہم تعلق ہوتا ہے۔

4۔ کئی عوامل ہائی بلڈ پریشر کی وجہ بن سکتے ہیں، ان میں سے اہم مندرجہ ذیل ہیں:
٭ یہ موروثی بھی ہوتا ہے

٭ مُٹاپا

٭سگریٹ نوشی

٭ خوراک میں نمک کی زائد مقدار

٭ ورزش کی کمی


٭ ذیابیطس

٭ گردوں کے امراض

5۔ ہائی بلڈ پریشر سے بے خبری
بیشتر لوگوں میں ہائپرٹینشن کی کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں، لہٰذا وہ اس مرض سے بے خبر رہ کر زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ بہ ظاہر ہر لحاظ سے صحت مند اور فٹ دکھائی دینے والے افراد بھی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوسکتے ہیں، مگر وہ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں۔ بہرحال شدید صورت میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ان علامات میں ناک سے خون آنا، سردرد، بے خوابی، ذہنی پریشانی اور الجھن، اور سانس کے مسائل شامل ہیں۔

اگر ہائپرٹینشن کا علاج نہ کیا جائے تو دل کے دورے اور اسٹروک کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ہائپرٹینشن کا علاج کرواکر کئی بڑے امراض سے بچا جاسکتا ہے۔ علاج نہ کروانے کی صورت میں دل کے دورے اور اسٹروک کے علاوہ دل کا فیل ہوجانا یعنی خون پمپ کرنے کی صلاحیت کا بہ تدریج کمزور پڑجانا، گردوں کا فیل ہوجانا، ضعف بصارت اور آنکھوں کے امراض سے سابقہ پڑسکتا ہے۔ ہائپرٹینشن کا علاج نہ کروانے کی وجہ سے پیٹ اور سینے سے گزرنے والی مرکزی شریان پھیل کر پھٹ سکتی ہے اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

6۔ ہائی بلڈ پریشر پر قابو پانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
اگر ڈاکٹر نے آپ کو ہائپرٹینشن تشخیص کی ہے تو گھبرائیے نہیں، اچھی بات یہ ہے کہ آپ ادویہ کے بغیر، بہ ذات خود بھی اس کا علاج کرسکتے ہیں۔ ہائپرٹینشن کا شکار ایک چوتھائی افراد محض اپنے طرز زندگی میں بدلاؤ لاکر بلڈ پریشر کو نارمل سطح پر لے آتے ہیں۔ ذیل میں ان تبدیلیوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو ہائی بلڈ پریشر پر قابو پانے میں معاون ہوسکتی ہیں۔

سگریٹ نوشی سے توبہ: سب سے پہلے تو آپ سگریٹ نوشی سے توبہ کرلیں۔ بلڈ پریشر کو کنٹرول میں لانے اور عمومی صحت بہتر بنانے کے لیے جو سب سے بڑا کام آپ کرسکتے ہیں وہ یہی ہے، یعنی سگریٹ نوشی سے پرہیز۔ سگریٹ نوشی کی وجہ سے دل کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ دگنا اور زندگی مختصر ہوجاتی ہے۔ سگریٹ نوشی کرنے والا انسان عام طور پر ریٹائرمنٹ کی عمر کو نہیں پہنچ پاتا اور دل کی بیماریوں سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہوکر زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے۔ اگر سگریٹ سے ناتا توڑنا دشوار محسوس ہورہا ہو تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

وزن میں کمی: وزن میں ہر ایک کلوگرام کی کمی ہائی بلڈپریشر کی سطح نیچے لانے میں معاون ہوگی۔ وزن کم کرنے کے لیے روغنی غذاؤں سے پرہیز کریں۔ مرغ اور مچھلی کا گوشت، تازہ پھل، سبزیاں اور ریشے دار غذائیں استعمال کریں۔

شراب نوشی سے پرہیز: زیادہ شراب نوشی بلڈ پریشر میں اضافے کا سبب بنتی ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں۔

باقاعدگی سے ورزش: اس مقصد کے لیے آپ جم بھی جوائن کرسکتے ہیں، اگر وقت نہ ہو تو پھر ہفتے میں تین چار بار 20 سے 30 منٹ کی تیزقدمی یعنی واک وزن گھٹانے میں معاون ہوگی۔

نمک سے پرہیز: کھانوں اور مشروبات وغیرہ میں نمک نہ ڈالیں۔ فاسٹ فوڈز اور پروسیسڈ فوڈز سے گریز کریں کیوں کہ ان میں نمک بڑی مقدار میں ہوتا ہے۔

اگر درج بالا تمام اقدامات سے آپ کا ہائی بلڈپریشر مکمل طور پر کنٹرول میں نہ آئے تب بھی ان کی وجہ سے، جو دوائیں آپ استعمال کریں گے ان کی تعداد ضرور کم ہوجائے گی۔
Load Next Story