کیا میڈیا جنسی زیادتی پر اکساتا ہے

میڈیا ایک دکان ہے جس پر رکھا ہوا سودا بیچنے کےلیے ہے اور یہ پرکھنا خریدار کا کام ہے کہ وہ سودا اچھا ہے یا بُرا ہے؟

میڈیا میں جو کچھ دکھایا جارہا ہے وہ ہماری نسلوں کو تباہ کرنے میں بڑی حد تک معاون ثابت ہوا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جی نہیں! میں اس بات سے سو فیصد اتفاق نہیں کرتا۔ اصل میں قصور ہمارا اپنا ہی ہے۔ اس لیے برائے مہربانی میڈیا پر الزامات دھرنا چھوڑیئے اور اپنے گریبان میں جھانکیے۔ میڈیا کا جو کام ہے اسے کرنے دیجیے اور آپ وہ کام کیجیے جو آپ کے کرنے کا ہے، کیونکہ میڈیا ایک دکان ہے اور دکان پر رکھا ہوا سودا بیچنے کےلیے ہوتا ہے۔ وہ سودا بڑھیا ہے یا گھٹیا، اچھا ہے یا بُرا، سود مند ہے یا نقصان دہ، یہ پرکھنا خریدار کا کام ہے۔

خریدار کو چاہیے کہ ہر شئے چھان پھٹک کر خریدے۔ کسی دکان پر رکھی زہر کی شیشی کوئی خرید لے اور اسے پی کر مرجائے تو اس کا ذمہ دار دکان دار نہیں بلکہ وہ خریدار ہے جس نے جانتے بوجھتے ہوئے بھی زہر پی لیا۔

ہمیں اپنی سوچ ہی نہیں اپنے رویّے بھی بدلنا ہوں گے۔ ہمیں اپنے معمولات پرغور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی عادات کا احاطہ کرنا ہوگا۔ کیا اچھا ہے اور کیا برا، ہمیں اس کی تمیز بھی کرنا ہوگی۔ ہماری وجہ سے دوسرے کو کیا تکلیف پہنچ رہی ہے، ہم اگر اس بات کا بھی خیال رکھ لیں تو سونے پہ سہاگہ ہوگا۔ جس طرح راہ چلتے ہوئے جوتوں اور کپڑوں کو دھول، مٹی اور کیچڑ سے بچایا جاتا ہے، اسی طرح زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے بھی بہت سارے معاملات کا خیال رکھا جاسکتا ہے۔ کوئی کسی کو زبردستی برے راستے پر نہیں چلاسکتا جب تک وہ خود نہ چاہے۔

ہمارا یہی شکوہ ہے ناں کہ میڈیا سب سے بڑی برائی کی جڑ ہے؟ اس میں کوئی شک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میڈیا میں جو کچھ دکھایا جارہا ہے وہ ہماری نسلوں کو تباہ کرنے میں بڑی حد تک معاون ثابت ہوا ہے۔ میڈیا مالکان پیسہ کمانے کے چکر میں اخلاقیات اور واہیات میں فرق بھول چکے ہیں۔ انہیں صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز ہے۔ شرم، حیا اور اخلاقیات، ریٹنگ کی دوڑ میں کچلے جاچکے ہیں۔


حکومت اور پیمرا، دونوں کی آنکھیں بند ہیں۔ ہمارے بچے اب وہ زبان بولتے ہیں جو بڑے سوچ کر بھی شرما جاتے ہیں۔ فیشن کے نام پر برہنگی اور کلچر کے نام پر بے حیائی بھی عروج پر ہے۔ پیار، محبت اور عشق معشوقی کے جراثیم بھی بہت طاقتور ہوچکے ہیں۔ لڑائی جھگڑے اور دنگے فساد کا سبق بھی پڑھایا جاتا ہے۔ بیٹے کا باپ سے الجھنا اور بیٹی کا اپنی پسند کی شادی کےلیے بغاوت کرنا ہمارے ڈراموں کا پسندیدہ موضوع ہے۔

طلاق کے بعد بھی شوہر کا اپنی سابقہ بیوی سے ملاقاتیں کرنا دیکھنے کو ملتا ہے۔ دیور کا بھابی پر لٹو ہوجانا اور سوتیلی ماں کا اپنے سوتیلے بیٹے پر ڈورے ڈالنا بھی ڈراموں میں دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ سوتیلا باپ اپنی کم عمر سوتیلی بیٹی کو بے آبرو کرتے ہوئے بھی دکھا دیا جاتا ہے۔

نئے شادی شدہ جوڑے اور نوجوان بچیوں کا ڈانس مارننگ شوز کو چار چاند لگادیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈراموں اور مارننگ شوز کی ایسی بے ہودہ کہانیاں اور اخلاقیات سے گرے ہوئے مناظر بھی میڈیا ہاؤسز کی مجبوری ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس دکھانے کےلیے اس کے علاوہ کچھ ہوتا ہی نہیں؛ اور اگر کچھ موجود ہے بھی تو وہ اس ڈر سے نہیں دکھانا چاہتے کہ کہیں ان کی ریٹنگ نہ گرجائے اور مطلوبہ اشتہارات سے محروم نہ رہ جائیں۔

یہ تو رہی میڈیا کی مجبوری۔ لیکن ہماری کیا مجبوری ہے؟ ہم اور ہمارے بچے یہ سب نہ دیکھیں تو ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story