ہم نے غلطی یقینا کی ہے مگر کہاں
ہندوؤں کے لیے سب سے تشویشناک بات دلتوں اور مسلمانوں کے اکٹھا ہو جانے کا خطرہ ہے۔
مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ہم سے غلطی کہاں پر ہوئی! آئین اختیار کرنے کے بعد جو کہ ہر لحاظ سے جمہوری اور سیکولر تھا جس پر عملددرآمد کے لیے راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی اور ہمیں اجتماعیت کے ثمرات سے مستفید ہونے والے معاشرے میں تبدیل ہونا تھا۔
بھارت کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے 1947ء میں 15/14 اگست کی رات کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا وہ تقریر دانش وروں میں ایک خصوصی درجہ حاصل کر چکی ہے جسے Tryst With Destiny یعنی ''اپنے سہانے مستقبل کے ساتھ وصال'' کا نام دیا جاتا ہے۔
اس عظیم ملک کے شہریوں کو اعلیٰ معیار کے مطابق زندگی بسر کرنا تھی، ہم تمام لوگوں کو خواہ ہمارا مذہب کوئی بھی ہو یا ہمارا تعلق کسی بھی علاقے سے ہو ہم سب کو مساوات و برابری کا خوبصورت نمونہ ہونا تھا۔ ہم سب بھارت ماتا کے بچے ہیں، جن کے حقوق برابر ہیں۔ ان کو سہولتیں اور ذمے داریاں بھی مساوی میسر ہیں۔
ہم فرقہ واریت اور تنگ نظری کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کے قائدین جو پنڈت نہرو کی تقریر کی وجہ اس قدر پرجوش ہوگئے تھے کہ انھوں نے ملازمتوں میں کوٹہ وصول کرنے اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کی پیش کش کو سرے سے ہی مسترد کر دیا۔
آئین ساز اسمبلی میں وزیر داخلہ سردار پٹیل کی طرف سے مسلمانوں کو مختلف مراعات کی پیش کش جاری تھی لیکن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں انھوں نے برملا اعلان کر دیا کہ وہ کسی خصوصی سلوک کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن بعد میں انھیں بڑا افسوس ہوا کہ انھوں نے ایک فراخدلانہ پیش کش کو کیوں مسترد کردیا تھا جب کہ معاشرے میں پھر عدم مساوات پیدا ہونے لگی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتوں اور مراعات کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن علیحدگی نہیں چاہتے تھے، مگر کسی نہ کسی مرحلے پر قیام پاکستان کا مطالبہ سامنے آ گیا جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے جب میں نے لندن میں بہت طویل انٹرویو کیا اس وقت کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ماؤنٹ بیٹن کو کہا کہ وہ دیکھیں کے دونوں ملکوں کے عوام کس طرح مل جل کر رہ سکتے ہیں۔
لیکن قائداعظم نے اس تجویز کو شرف قبولیت نہ بخشا بلکہ یکسر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیبنیٹ مشن پلان کے بعد ان کا ہندوؤں پر بھروسہ نہیں رہا کیونکہ کیبنیٹ مشن پلان کے تحت ایک کمزور مرکز بن سکتا تھا اور ہندو جتھہ سازی میں مصروف ہوگئے جس میں کہ آسام کے ہندو بھی ان کے ساتھ تھے۔ نتیجتاً ہندوؤں نے تو اس منصوبے کو منظور کر لیا لیکن قائداعظم کا بھروسہ ہندوؤں سے اٹھ گیا۔
میں بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھا جو پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں بیٹھا ہوا تھا اور پنڈت نہرو کی وہ تاریخی تقریر اپنے کانوں سے سن رہا تھا۔ یہ ٹھیک 70 سال پہلے کا واقعہ ہے۔ آج جب متعصب اور کٹر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جو ہندو ووٹوں کو اکٹھا کررہی ہے نہ صرف ریاستی انتخاب کے لیے بلکہ 2019ء کے عام انتخابات کے لیے بھی، تبھی میں سوچتا ہوں کہ آخر ہم سے کہاں پر غلطی ہوئی ہے۔
آر ایس ایس کا سربراہ موہن بھگوت پورے پندرہ دن بہار اور اتر پردیش کا دورہ کرتا رہا ہے جو کہ ملک کی سب سے زیادہ کثیر آبادی والی ریاستیں ہیں اور جہاں پر ذات پات کی نفرتوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ چنانچہ ان ریاستوں میں ہندو ووٹروں کو لبھانا بہت آسان ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہان نے ریاستوں میں بہت بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور ہندوؤں پر زور دیا کہ وہ ذات پات کے چکر سے باہر نکلیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ''ہندوؤں کو متحد ہوجانا چاہیے کیونکہ معاشرے میں تقسیم اور افتراق تشدد کا راستہ کھولتا ہے اور ہمارے ملک کی ترقی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بھی یہی ہے۔
ایسے لگتا ہے جیسے آر ایس ایس کے چیف کے دماغ میں غیر ہندو ووٹروں کا خیال تھا، شاید ہندو ووٹروں کو نئے سرے سے متحد کرنے کی کوشش کا تعلق کچھ سیاسی صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہو جیسے کہ جگنیش میوانی اور دلت فیملی پر حملے اور بھیم آرمی کا منظر عام پر آنا۔ یوپی میں دلتوں اور راجپوتوں کے مابین فسادات شروع ہوگئے ہیں۔
آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ گڑبڑ مچانے والے گروہوں کا تعلق انتہائی بائیں بازو کے عناصر سے ہے۔ موہن بھگوت نے اپنی تقریر میں حکومت کی اقتصادی سیاست کے حوالے سے اقدامات کا ذکر کیا اور بی جے پی کی قیادت میں تشکیل پانے والا سیاسی اتحاد این ڈی اے سیاست کو ایک نیا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہندوؤں کے لیے سب سے تشویشناک بات دلتوں اور مسلمانوں کے اکٹھا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اس بات کی بی جے پی کو اس وجہ سے کچھ زیادہ ہی تشویش ہے کیونکہ اس سے ان کا عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا مشکوک ہو سکتا ہے۔ آر ایس ایس کی ٹھوس بنیادوں پر کوشش ہے کہ جنتا دل (یونائیٹڈ) جس کے سربراہ شردیادیو ہیں وہ ہندوؤں کے حق میں انتخابات کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں نیز بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا کردار بی جے پی کے لیے قابل مذمت ہے۔ اس نے یہ امید وابستہ کی کہ شاید اس سے بی جے پی کی کامیابی کا راستہ کھلے گا لیکن یہ سب ایک تماشے کی طرح لگ رہا ہے۔
ایک شخص جو سیکولرازم پر پختہ یقین رکھتا ہو اس کے لیے بائیں بازو کے انتہا پسندوں کی مدد حاصل کرنا یقینا قابل مذمت ہے لیکن وہ اپنے اقتدار کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سیکولر عناصر ہندو توا کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوطی نہیں دکھا رہے اور نہ ہی کانگریس میں اتنا دم خم ہے کہ وہ بھارت کے سیکولر ازم کے عزم کو آگے بڑھا سکے اور ملک میں جمہوری سیکولر ازم قائم ہو سکے۔
وزیراعظم نریندر مودی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کو چیلنج کرنے والا کوئی میدان میں نہیں لہٰذا میں صرف امید ہی کرسکتا ہوں کہ ہمارا ملک ہمارے کے آدرشوں پر پورا اتر سکے اور ایک سیکولر معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہو سکے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)