بات چل نکلی ہے
عدلیہ کا کام مظلوموں کو انصاف فراہم کرنا ہے لیکن مظلوموں سے مراد فرد یا افراد ہی لی جاتی ہے۔
KARACHI:
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے معاشرے سے نا انصافی کے خاتمے کا آغاز کرنے کے لیے بنیاد رکھ دی ہے، تاہم یہ اب دوستوں پر منحصر ہے کہ اب اس پر کس طرح کی عمارت تعمیر کرتے ہیں۔ ملک میں بے لاگ اور سستا انصاف فراہم کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے تقریب کے دوران ایک پیغام پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ ''مجھے پینے کا صاف پانی، ہوا، خالص دودھ، صاف ماحول چاہیے۔ مجھے مردہ جانوروں کا گوشت نہیں کھانا ہے، مجھے کینسر اورہیپا ٹائٹس سے تحفظ چاہیے، مجھے میری فصلوں کی جائز قیمت چاہیے، مجھے اسپتالوں میں مفت علاج، سستا اور معیاری انصاف چاہیے'' پیغام پڑھنے کے بعد چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تمام چیزیں فراہم کرنا ہی ہماری جدوجہد کا مقصد ہے۔ میں چاہتاہوں ان معاشرتی عوامل کو حل کرنے کے لیے آپ میری فوج بنیں، چیف جسٹس نے ایک غیر معمولی اہم اور حقیقت پسندانہ بات یہ کی کہ ''ایک قاضی (منصف)کے لیے ڈر، مصلحت اور مفاد زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔''
بادی النظر میں یہ جنگ چند افراد اور چند خاندانوں کے خلاف لڑی جاتی دکھائی دے رہی ہے لیکن چیف جسٹس کو یقینا اس حقیقت کا علم ہوگا کہ یہ جنگ ایک مضبوط با اختیار اور وسائل و اختیارات سے آراستہ ایسے طبقے سے لڑی جارہی ہے بلکہ ایک ایسے کرپٹ نظام کے خلاف لڑی جارہی ہے جو نہ صرف بے پناہ وسائل سے مالا مال ہے بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
یہ ایک دو یا چند افراد یا خاندان کے خلاف جنگ نہیں ہے بلکہ ایک پورے ظالمانہ، جابرانہ، استحصالی نظام کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہے اور وہ تمام فریق ملکی اور غیرملکی اس جنگ میں شامل ہوسکتے ہیں جو اس نظام سے منسلک ہیں۔ میڈیا میں اس قسم کی خبریں آرہی ہیں کہ پاکستان کی ''ایلیٹ دوسرے ملکوں کے تاجداروں سے مدد کی درخواست کررہی ہے اور دوسرے ملکوں کے حلیف دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ''مظلوم ایلیٹ کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے'' اندرونی طور پر اس احتسابی سلسلے کو روکنے کے لیے ''خصوصی عوام'' کی بھاری تعداد سے مدد لی جارہی ہے تاکہ عوامی دباؤ ڈال کر احتساب کے اس سلسلے کو کسی طرح روکا جائے۔
عدالتوں اور ججوں کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جارہی ہے جس کا جمہوری ملکوں میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہوسکتا ہے بلکہ ایسا ہو رہا ہے کہ اس لڑائی کو چند افراد یا ایک خاندان کے خلاف لڑائی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی بھول یا غلط فہمی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جنگ لڑنے والے بھی یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ چند مگرمچھوں کے خلاف لڑائی ہے۔ ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ لڑائی ایک مضبوط طبقے، ایک مستحکم نظام کے خلاف لڑائی ہے اور اس نظام کے اندرونی اور بیرونی رکھوالے اس جنگ کے خلاف پوری قوت، پورے وسائل کے ساتھ لڑنے کی کوشش کریں گے۔
چیف جسٹس نے دوران خطاب جو نامعلوم شخص یا اشخاص کی طرف سے ایک پیغام پڑھ کر سنایا ہے اس میں جن انسانی ضرورتوں کا ذکرکیا گیا ہے وہ بلاشبہ انسان کی بنیادی ضرورتوں کا ایک حصہ ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام کو بدلا جائے جو انسانوں کو ان کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر رکھا ہے جن میں سے صرف چند کا اس پیغام میں ذکر کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے وکلا برادری کو اپنی فوج کہا ہے۔ بلاشبہ وکلا کسی بھی جمہوری ملک کے چیف جسٹس کی فوج ہوتے ہیں اور عدالتی لڑائی میں اپنے چیف کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہیں لیکن فریق مخالف کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ محض اپنی فوج سیاسی کارکنوں، وزرا اور بیوروکریسی کے ساتھ یہ جنگ نہیں جیت سکتے کیونکہ ظلم اور نا انصافیوں کاشکار عوام آخر کار ایلیٹ کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ اسی احساس کی وجہ سے اشرافیہ نے بڑی مہارت سے دو کام کیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے دوسرے شخصیت پرستی اور قوم پرستی کے شکار عوام کے ہجوم کو آگے لاکر یہ تصور دینے کی کوشش کررہی ہے کہ ''مظلومیت'' کی اس لڑائی میں عوام اس کے ساتھ ہیں اور اس کھیل میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہے۔ کیونکہ سادہ لوح عوام اس نا منصفانہ اور ظالمانہ کھیل میں ''مظلوم'' کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں۔
عدلیہ کا کام مظلوموں کو انصاف فراہم کرنا ہے لیکن مظلوموں سے مراد فرد یا افراد ہی لی جاتی ہے اور مظلومیت کے حوالے سے فرد یا افراد ہی کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ظالموں کی فہرست میں بھی فرد یا افراد ہی رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یہ نا انصافی اور انصاف ''مظلوم اور ظالم فرد یا افراد کے بجائے مظلوم عوام اور ظالمانہ نظام کا روپ دھار رہے ہیں اور یہ لڑائی مظلوم عوام اور ظالم خواص کی لڑائی بننے جارہی ہے۔ اس حوالے سے ابھی بہت کٹھن منزلوںکا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ہارتی ہوئی اشرافیہ اب بھی برسر اقتدار ہے اور پوری ریاستی مشینری پر اب بھی اس کی گرفت مضبوط ہے۔
اقتداری ایلیٹ کے مصاحبین جن کا گزارا الیٹ کے دسترخوان کے بچے کچھے جھوٹے پر ہوتا ہے براہ راست اور بالواسطہ حکمران ایلیٹ کی مختلف حوالوں سے حمایت اور مدد کررہی ہے۔ اس حوالے سے دو بہانوں کا سہارا لیا جارہاہے۔ ایک بہانہ ''پارلیمنٹ کی بالادستی'' ، ''دائرہ کار'' میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ پہلے بہانے کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ سیمنٹ بجری سے بنی ہوئی عمارت کا نام نہیں بلکہ پارلیمنٹ نام ہوتا ہے، عوام کے منتخب نمایندوں کا اور عوام اپنے نمایندے اس امید کے ساتھ منتخب کرتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں جاکر ان کے مسائل حل کریںگے۔ کیا یہ منتخب نمایندے پارلیمنٹ میں جاکر عوام کے مسائل حل کررہے ہیں؟ اس کا جواب ملک کے اکیس کروڑ عوام کی آنکھوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں انتخابات لڑنے پر جو سرمایہ کاری کی جاتی ہے منتخب نمایندے اس سرمایہ کاری کے منافع سمیت حصول ہی میں سارا وقت گزار دیتے ہیں، اگر یہ درست ہے تو ''پارلیمنٹ کی بالادستی'' چہ معنی دارد؟
دوسرا بہانہ اداروں کو ان کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ کیا منتخب نمایندوں کی اربوں روپوں کی لوٹ مار ان کے دائرۂ کار میں ہی آتی ہے؟ یہ بہانہ اس لیے تراشا جا رہا ہے کہ ہماری عدلیہ روایت سے ہٹ کر ان بڑے بڑے مگرمچھوں کے گلے میں رسی ڈال رہی ہے جن کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنا بھی بے ادبی کہلاتا تھا۔ بڑے بڑے ذمے دار ستارے اس حوالے سے عدلیہ کے پاؤں میں زنجیر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بات اس طرح چل نکلی ہے کہ دیکھیں کہاں تک پہنچے ہے۔