مادری زبانوں کا ادبی میلہ
پاکستان کی ہر زبان کے اندر ادب کا وسیع خزانہ پوشیدہ ہے۔
پاکستان کی ادبی زبانوں کا میلہ سترہ و اٹھارہ فروری کو اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ یہ میلہ تیسری بار منعقد کیا گیا۔ لوک ورثہ اسلام آباد نے اس بار بھی میزبانی کا شرف حاصل کرکے معاونت کی۔ افتتاحی تقریب سے انڈس کلچرل فورم کے روح رواں نیاز ندیم نے خطاب کرتے ہوئے میلے کا تعارف اور پس منظر پر روشنی ڈالی۔
دیگر شرکائے گفتگو میں ڈاکٹر صبا گل خٹک، جیکولین ولک، نورالہدیٰ شاہ اور آئی اے رحمن نے خطاب کیا۔ اس موقعے پر عاصمہ جہانگیر کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ پہلی نشست میں معدومی کے خطرے سے دوچار زبانوں پر دستاویزی فلمیں پیش کی گئیں۔
ہر سال اقوام متحدہ کی جانب سے 21 فروری کو مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے۔ زبان نہ فقط ثقافت کی ترجمان ہے بلکہ یہ سماجی رابطوں و تہذیبی ورثے کی نمایندگی کرتی ہے۔ اس کا نفسیاتی و معاشی پس منظر بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کچھ ملکوں میں رابطے کی زبان مادری ہے۔ انھوں نے انگریزی کے اثر سے خود کو محفوظ رکھا ہے۔ حالانکہ انگریزی زبان کو کامرس و ٹریڈ کی زبان کہا جاتا ہے۔ جو اعلیٰ طبقات کی نمایندہ سمجھی جاتی ہے۔ انگریزی کے اثر سے محفوظ رکھنے والے ان ملکوں میں فرانس، جرمنی، چین، جاپان اور ایسٹرن یورپ کے مختلف ممالک شامل ہیں۔
تمام تر پروگرامز کے موضوعات بھی اسی مناسبت سے تھے۔ جیسے مردم شماری اور مادری زبانیں، مادری زبانوں کے ادب میں تحقیق و تنقید کے موضوع پر ڈاکٹر لیاقت سنی، ظفر وقار تاج، سعدیہ کمال، کیلاش اور احسان دانش نے بحث مباحثے میں حصہ لیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فوزیہ جنجوعہ نے سرانجام دیے۔
ایک نشست شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا نئے انداز میں ترجمے کے حوالے سے تھی۔ جس میں نورالہدیٰ شاہ، حمید شاہد اور ڈاکٹر فہمیدہ حسین شریک گفتگو تھے اور نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے فاطمہ حسن نے موضوع کی مناسبت سے اچھے سوالات کیے۔ دلچسپ گفتگوکے بعد نورالہدیٰ شاہ نے بھٹائی کی شاعری کا اردو ترجمہ سنا کر داد وصول کی۔
کہاوتیں اور لوک دانش ایک ایسا موضوع تھا، جس پر حاضرین کی توجہ مبذول رہی۔ کیلاشہ کے لیوک رحمت، اورمزی زبان کے روزی خان برکی، براہوی کے ڈاکٹر وحید رزاق اور سرائیکی کے شوکت مغل نے حاضرین سے دلچسپ کہاوتیں شیئر کرکے ان کی معلومات میں اضافہ کیا۔ یہ کہاوتیں اور لوک دانش آج بھی دیہی علاقہ جات میں مقبول ہیں۔ یہ ذہن کو مستعد اور حواس خمسہ کو متحرک رکھتی ہیں۔ مادری زبان کے نمایاں ہم عصر شعرا میں ایاز گل، احمد نوید اور رفعت عباس نے شرکت کی۔
تین مختلف پروگرام بیک وقت مختلف ہالز میں ترتیب دیے گئے تھے لہٰذا لوگ ہر پروگرام میں تھوڑی دیر کے لیے شرکت کرکے کوئی دوسرا پروگرام دیکھنے نکل جاتے۔
پاکستان کی مادری زبانوں میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا بیانیہ ایک ایسی نشست تھی جو موضوع کے اعتبار سے ہمہ گیر اور کثیر رخی تھی۔ جس میں فرنود عالم، جامی چانڈیو، ناصرہ زبیری اور ڈاکٹر صلاح الدین درویش نے بھرپور حصہ لیا۔ علاوہ ازیں مادری زبانوں سے منتخب تراجم بھی شامل تھے۔ تراجم مختلف خطوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لے کر آتے ہیں، مختلف ثقافتوں سے آشنائی ہوتی ہے۔
پاکستان کی ہر زبان کے اندر ادب کا وسیع خزانہ پوشیدہ ہے۔ جسے اردو یا انگریزی زبانوں میں منظر عام پر لانے کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ اس نشست میں ڈاکٹر حمید الفت ملغانی (سرائیکی) سعدیہ کمال (سرائیکی) ہارون سورانی (پشتو) اور قدیر انصاری (سندھی) نے شرکت کی۔ سندھی کے معروف کہانی نویس و ناول نگار رسول میمن کے ناول ''اسٹیل کے پانچ گلاس'' کے ایک باب کا ترجمہ قدیر انصاری نے اردو میں پیش کرکے بے ساختہ داد وصول کی۔
عہد حاضر کی نمایاں شخصیات میں نثار عزیز بٹ اور فہمیدہ ریاض پر عامر حسین، حمیدہ اشفاق اور فاطمہ حسن نے روشنی ڈالی۔ ایسے پروگرامز میں فقط ایک شخصیت ہونی چاہیے تاکہ ان کے فن و فکر پر جامع بات کی جاسکے۔
مادری زبانوں میں نئی طبع شدہ کتابوں کا اجرا بھی پروگرام کا حصہ تھا۔ جس میں راشد خٹک(پشتو)، خلیل کنبھار (سندھی)، مجید نائچ (سندھی)، سعید اختر سیال، ارشاد تونسوی، غلام فرید (سرائیکی)، علی ہمدم اور علی تورانی کا تعلق ہزارگی سے تھا جب کہ اعظم ملک کی پنجاب زبان میں لکھی ہوئی کتاب شامل تھی، نظامت فضا قریشی نے کی۔
مختلف زبانوں میں متنوع موضوعات پر لکھی گئی کتب کے بارے میں جان کر احساس ہوا کہ ہر زبان کس قدر خوبصورت خیالات سے مزین ہے۔ یہ احساسات سچے، کھرے اور زمین کی کشمکش میں لپٹے ہوئے تھے۔ جنھیں سن کر ذہن کو جلا ملتا اور احساس کی آبیاری سی ہوتی محسوس ہوتی۔ زبانیں مختلف تھیں مگر احساس و جذبہ ایک جیسا تھا دھرتی کی محبت سے سرشار۔
مادری زبانوں میں افسانوی ادب کی نئی طبع شدہ کتابوں کے اجرا کی نشست میں رسول میمن، عبدالرزاق آبابلی، پرویز شیخ، ڈاکٹر ہمدرد یوسفزئی، اعجاز علی، شبنم گل اور ارشد وحید کی کتابیں شامل تھیں۔ یہ کتابیں سندھی، براہوی، پشتو، پنجابی و اردو زبان میں تحریر کی گئی تھیں۔
اس ادبی میلے کی اہم بات بچوں کی سرگرمیاں و بھرپور شمولیت تھی۔ سائنسی تجربات کا ای سی او سائنس فاؤنڈیشن نے انعقاد کیا تھا۔ جس میں موبائل لائبریری، سائنس بس، پلانٹیریم (کہکشاں اور کائنات کے نظارے) موبائل سائنس لیب و دیگر دلچسپ پروگرام شامل تھے۔ بچوں کی خوشی قابل دید تھی۔ وہ بے حد فعال اور متجسس دکھائی دیے۔ ہم بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایسے مواقعے فراہم کرتے ہیں انھیں سوچ کی یکسانیت سے باہر نکال سکتے ہیں۔ یہ بچے اور نوجوان، حالات کے حبس میں ہمارے لیے ہوا کا خوشگوار جھونکا ہیں۔ پروگرام کی ترتیب اور نظم و ضبط میں نوجوان والنٹیئرز نے بھرپور حصہ لیا۔
معدومی کے خطرے سے دوچار زبانوں میں موسیقی کی شام، رنگ خوشبو اور زمین کی مٹی کی خوشبو سے مہک رہی تھی۔ بول سمجھ میں نہ آنے کے باوجود، روح کی گہرائی کو چھونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ موسیقی کے سروں نے بہتے جھرنوں، بلند و بالا پہاڑوں اور سرسبز وادیوں کے تصورات سے رابطہ بحال کردیا ہو جیسے۔
یہ سر ذہن کے جمود توڑ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ موسیقی کے سحر میں بتائے ہوئے چند گھنٹے سحرانگیز تھے۔
احمد سلیم، عامر حسین، ڈاکٹر فہمیدہ حسین، نورالہدیٰ شاہ، انیسہ میمن، ناصرہ زبیری، نصرت زہرہ، کلثوم زیب، ارشد وحید، ڈاکٹر ہمدرد یوسفزئی، پرویز شیخ، کیلاش، فاطمہ حسن، نصیر میمن، احمد نوید، رسول میمن سے مختلف مواقعے پر گفتگو معلوماتی رہی۔
یہ ادبی میلہ ادارہ استحکام شراکتی ترقی، انڈس کلچرل فورم، لوک ورثہ اور سندھ گورنمنٹ کے اشتراک سے سجایا گیا تھا۔