اگر ضمیر کا سودا نہ کیا جائے
خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے بھی حلف کے خلاف ضمیر کا سودا نہ کیا جائے تو حالات درست ہوسکتے ہیں۔
انتخابات 2018 جوں جوں قریب آتے جا رہے ہیں ملکی سیاسی صورتحال موجودہ اسمبلی کی تشکیل کے وقت سے سال گزشتہ کے آخر تک کے حالات سے یکسر مختلف ہوتی جا رہی ہے، توقعات اور اندازے کافی حد تک تبدیل ہوچکے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کی اسمبلی کے حالات ہوں یا کراچی کی تبدیل شدہ سیاسی فضا اور (ن) لیگ کا سینیٹ انتخابات سے باہر ہونا یہ سب نئی صورتحال پیدا کر رہے ہیں بلکہ کرچکے ہیں ۔ لگتا ہے کہ باری باری کا نظام برقرار رکھنے کی مکمل تیاریاں ہوچکی ہیں۔
بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں یہ کھیل ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ معاشرے کی بہتری اور عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنا اور ان کے مسائل کا حل بھی عدلیہ کی ذمے داری قرار پاچکی ہے۔ حالانکہ یہ حکومت کی اولین ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اب جب کہ عدلیہ نہ صرف سیاسی، معاشرتی بلکہ عوامی مسائل مثلاً صاف پانی کی فراہمی، غذا بطور خاص دودھ میں ملاوٹ، اسپتالوں کی ابترصورتحال اور سب سے زیادہ کرپشن کے خلاف متحرک اور سینہ سپر ہو رہی ہے تو ایک حلقے کی جانب سے اداروں کی حدود اور دائرہ کارکے تذکرے بھی ہو رہے ہیں۔
یہ بات صد فی صد درست ہے کہ ملک کے تمام اہم اداروں کا اپنا اپنا مقام، دائرہ کار اور حدود ہوتی ہیں۔ بلاشبہ قانون بنانا اس میں ترمیم و اضافہ پارلیمنٹ کے فرائض میں شامل ہے پھر ان قوانین پر عمل کرنا حکومت وقت کا کام ہے، جب کہ عدلیہ کا فرض معاشرے کو ناانصافی سے بچانا اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا، یعنی عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے لیے حکومت وقت کو آمادہ کرنا بلکہ بہ زور (قانونی) کروانا ہے۔
اب جو موجودہ صورتحال ہے (کہ سب کچھ عدلیہ کو کرنا پڑ رہا ہے) اور پھر عوامی حلقوں کی جانب سے عدلیہ پر اعتراض کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کر رہی ہے۔ معمول کی صورتحال میں یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے کہ معاشرتی اصلاح اور عوام کو ضروریات زندگی فراہم کرنا عدلیہ کی نہیں حکمرانوں اور حکومت کی ذمے داری ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارلیمنٹ وہ کام کر رہی ہے جو اس کو کرنا چاہیے؟ اکثریت کی بنیاد پر اقلیتی جماعتوں کی معقول بات پر بھی کان نہ دھرے جائیں تو پھر جمہوریت کہاں رہ سکتی ہے؟ یہ تو یک جماعتی اسمبلی ہوگئی۔ یعنی قانون اکثریتی جماعت چاہے اس میں کتنے بھی سقم ہوں حزب مخالف اس کے خلاف کتنی بھی آواز اٹھائے مگر عددی برتری کے باعث وہ قانون منظور ہوجائے گا جس میں ملکی سے زیادہ حکومتی جماعت کا مفاد ہو۔
گزشتہ دنوں یہ آواز بلند کی گئی تھی کہ حکومت دیگر ممالک سے جو معاہدے کرتی ہے ان سے عوام تو عوام ارکان پارلیمنٹ کو بھی بے خبر رکھا جاتا ہے کسی کو یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کن بنیادوں پر امداد لی گئی کن شرائط پر قرض حاصل کیا گیا۔ یہ سب ابھی نہیں ہو رہا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، اگر حکمران جماعت واقعی جمہوریت پسند ہو اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتی ہو تو پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے نمایندوں کو برابری کی سطح پر پارلیمنٹ کا ممبر سمجھے۔ حزب اختلاف محض حکومت سے اختلاف نہ کرے بلکہ ان نکات پر جو ملکی مفاد میں ہوں اور حکمران جماعت ملکی مفاد میں واقعی سنجیدہ ہو تو حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔
(صرف اس لیے جائزکام کی بھی مخالفت نہ کرکے کہ کام موجودہ حکمران پارٹی کے بجائے ہمارے دور میں ہو اور اس کا سہرا ہمارے سر بندھے)۔ ہاں اگر اکثریت کی بنیاد پر حکمران ایسے اقدامات کرنے جا رہے ہوں جو ملک و قوم کی بجائے ان کے جماعتی مفاد میں ہوں تو تمام مخالف جماعتیں بیک زبان اور عمل اس کے خلاف ڈٹ جائیں حکمران نہ مانیں تو ان کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں۔ماضی میں اگرچہ ایسا ہوا نہیں مگر مستقبل میں اگر ایسا ہوجائے تو نہ صرف ملک بیرونی دباؤ سے نکل کر سرخرو ہوسکتا ہے بلکہ حقیقی جمہوریت اور ملکی ترقی کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے۔
ایسا ہونا تب ہی ممکن ہے جب سب سے پہلے جماعتی سطح پر (ہر سیاسی پارٹی میں) پرخلوص، محب وطن، ذاتی مفاد سے بالاتر شخصیات کو بلاقیمت ٹکٹ دیے جائیں یعنی ٹکٹوں کو کروڑوں میں باقاعدہ فروخت نہ کیا جائے (یہ کام عدلیہ کا ہے کہ وہ سب سے پہلے ٹکٹ قیمتاً دینے اور ہارس ٹریڈنگ کے خلاف قدم اٹھائے) ممبر پارلیمنٹ کے لیے دولت مند ہونے کی شرط کو یک جنبش قلم مسترد کیا جائے۔
پارلیمنٹ خود بھی اس صورتحال کے خلاف قانون سازی کرے۔ تب ہی مخلص، اہل اور باصلاحیت افراد اسمبلی کا حصہ بن سکتے ہیں ورنہ ملک کی تقدیرکبھی بھی بدل نہیں سکتی۔ ذاتی مفاد کا کاروبار بہت ہوچکا اب کوئی خدا کا بندہ کوئی محب وطن سیاسی جماعت ملک کے بارے میں بھی سوچے کتنی تباہ حال قومیں خود کو سنبھال چکی ہیں تو کیا ہم نہیں سنبھال سکتے؟ کیونکہ جو کام دولت کے بل بوتے پر ہوگا اس میں شفافیت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہی رہے گا۔
کیا غریب و متوسط طبقے میں باصلاحیت افراد نہیں ہوتے بلکہ یہ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو ملکی و عوامی خدمت کے ذریعے ہی خود کو منوا سکتے ہیں کیونکہ دولت تو ان کے پاس نہیں صرف صلاحیت اور جذبہ خدمت ہی ان کا اثاثہ ہے۔
اگر ہر پارٹی سے مخلص اور فرض شناس افراد پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے تو پھر ایسی اسمبلی سے ملکی مفاد کے خلاف کوئی بھی بل پاس نہ ہوسکے گا۔ ممبران پارلیمنٹ حلف بھی ملک و قوم کی خدمت کا اٹھاتے ہیں اپنی پارٹی کی خدمت کا نہیں۔ حلف اٹھا کر وہ پارٹیاں تبدیل کر بھی لیتے ہیں تو حلف تو ملکی مفاد کا برقرار رہتا ہے۔ اس کے باوجود ممبران اسمبلی کس بنا پر اپنی قیادت کے مفادات کا ملکی مفادات کے خلاف سودا کرلیتے ہیں۔
خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے بھی حلف کے خلاف ضمیر کا سودا نہ کیا جائے تو حالات درست ہوسکتے ہیں۔ غرض ارکان پارلیمنٹ چاہیں تو حالات درست ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ناممکن ہے پھر اداروں کو حدود سے تجاوز کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں یہ کھیل ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ معاشرے کی بہتری اور عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنا اور ان کے مسائل کا حل بھی عدلیہ کی ذمے داری قرار پاچکی ہے۔ حالانکہ یہ حکومت کی اولین ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اب جب کہ عدلیہ نہ صرف سیاسی، معاشرتی بلکہ عوامی مسائل مثلاً صاف پانی کی فراہمی، غذا بطور خاص دودھ میں ملاوٹ، اسپتالوں کی ابترصورتحال اور سب سے زیادہ کرپشن کے خلاف متحرک اور سینہ سپر ہو رہی ہے تو ایک حلقے کی جانب سے اداروں کی حدود اور دائرہ کارکے تذکرے بھی ہو رہے ہیں۔
یہ بات صد فی صد درست ہے کہ ملک کے تمام اہم اداروں کا اپنا اپنا مقام، دائرہ کار اور حدود ہوتی ہیں۔ بلاشبہ قانون بنانا اس میں ترمیم و اضافہ پارلیمنٹ کے فرائض میں شامل ہے پھر ان قوانین پر عمل کرنا حکومت وقت کا کام ہے، جب کہ عدلیہ کا فرض معاشرے کو ناانصافی سے بچانا اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا، یعنی عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے لیے حکومت وقت کو آمادہ کرنا بلکہ بہ زور (قانونی) کروانا ہے۔
اب جو موجودہ صورتحال ہے (کہ سب کچھ عدلیہ کو کرنا پڑ رہا ہے) اور پھر عوامی حلقوں کی جانب سے عدلیہ پر اعتراض کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کر رہی ہے۔ معمول کی صورتحال میں یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے کہ معاشرتی اصلاح اور عوام کو ضروریات زندگی فراہم کرنا عدلیہ کی نہیں حکمرانوں اور حکومت کی ذمے داری ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارلیمنٹ وہ کام کر رہی ہے جو اس کو کرنا چاہیے؟ اکثریت کی بنیاد پر اقلیتی جماعتوں کی معقول بات پر بھی کان نہ دھرے جائیں تو پھر جمہوریت کہاں رہ سکتی ہے؟ یہ تو یک جماعتی اسمبلی ہوگئی۔ یعنی قانون اکثریتی جماعت چاہے اس میں کتنے بھی سقم ہوں حزب مخالف اس کے خلاف کتنی بھی آواز اٹھائے مگر عددی برتری کے باعث وہ قانون منظور ہوجائے گا جس میں ملکی سے زیادہ حکومتی جماعت کا مفاد ہو۔
گزشتہ دنوں یہ آواز بلند کی گئی تھی کہ حکومت دیگر ممالک سے جو معاہدے کرتی ہے ان سے عوام تو عوام ارکان پارلیمنٹ کو بھی بے خبر رکھا جاتا ہے کسی کو یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کن بنیادوں پر امداد لی گئی کن شرائط پر قرض حاصل کیا گیا۔ یہ سب ابھی نہیں ہو رہا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، اگر حکمران جماعت واقعی جمہوریت پسند ہو اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتی ہو تو پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے نمایندوں کو برابری کی سطح پر پارلیمنٹ کا ممبر سمجھے۔ حزب اختلاف محض حکومت سے اختلاف نہ کرے بلکہ ان نکات پر جو ملکی مفاد میں ہوں اور حکمران جماعت ملکی مفاد میں واقعی سنجیدہ ہو تو حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔
(صرف اس لیے جائزکام کی بھی مخالفت نہ کرکے کہ کام موجودہ حکمران پارٹی کے بجائے ہمارے دور میں ہو اور اس کا سہرا ہمارے سر بندھے)۔ ہاں اگر اکثریت کی بنیاد پر حکمران ایسے اقدامات کرنے جا رہے ہوں جو ملک و قوم کی بجائے ان کے جماعتی مفاد میں ہوں تو تمام مخالف جماعتیں بیک زبان اور عمل اس کے خلاف ڈٹ جائیں حکمران نہ مانیں تو ان کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں۔ماضی میں اگرچہ ایسا ہوا نہیں مگر مستقبل میں اگر ایسا ہوجائے تو نہ صرف ملک بیرونی دباؤ سے نکل کر سرخرو ہوسکتا ہے بلکہ حقیقی جمہوریت اور ملکی ترقی کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے۔
ایسا ہونا تب ہی ممکن ہے جب سب سے پہلے جماعتی سطح پر (ہر سیاسی پارٹی میں) پرخلوص، محب وطن، ذاتی مفاد سے بالاتر شخصیات کو بلاقیمت ٹکٹ دیے جائیں یعنی ٹکٹوں کو کروڑوں میں باقاعدہ فروخت نہ کیا جائے (یہ کام عدلیہ کا ہے کہ وہ سب سے پہلے ٹکٹ قیمتاً دینے اور ہارس ٹریڈنگ کے خلاف قدم اٹھائے) ممبر پارلیمنٹ کے لیے دولت مند ہونے کی شرط کو یک جنبش قلم مسترد کیا جائے۔
پارلیمنٹ خود بھی اس صورتحال کے خلاف قانون سازی کرے۔ تب ہی مخلص، اہل اور باصلاحیت افراد اسمبلی کا حصہ بن سکتے ہیں ورنہ ملک کی تقدیرکبھی بھی بدل نہیں سکتی۔ ذاتی مفاد کا کاروبار بہت ہوچکا اب کوئی خدا کا بندہ کوئی محب وطن سیاسی جماعت ملک کے بارے میں بھی سوچے کتنی تباہ حال قومیں خود کو سنبھال چکی ہیں تو کیا ہم نہیں سنبھال سکتے؟ کیونکہ جو کام دولت کے بل بوتے پر ہوگا اس میں شفافیت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہی رہے گا۔
کیا غریب و متوسط طبقے میں باصلاحیت افراد نہیں ہوتے بلکہ یہ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو ملکی و عوامی خدمت کے ذریعے ہی خود کو منوا سکتے ہیں کیونکہ دولت تو ان کے پاس نہیں صرف صلاحیت اور جذبہ خدمت ہی ان کا اثاثہ ہے۔
اگر ہر پارٹی سے مخلص اور فرض شناس افراد پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے تو پھر ایسی اسمبلی سے ملکی مفاد کے خلاف کوئی بھی بل پاس نہ ہوسکے گا۔ ممبران پارلیمنٹ حلف بھی ملک و قوم کی خدمت کا اٹھاتے ہیں اپنی پارٹی کی خدمت کا نہیں۔ حلف اٹھا کر وہ پارٹیاں تبدیل کر بھی لیتے ہیں تو حلف تو ملکی مفاد کا برقرار رہتا ہے۔ اس کے باوجود ممبران اسمبلی کس بنا پر اپنی قیادت کے مفادات کا ملکی مفادات کے خلاف سودا کرلیتے ہیں۔
خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے بھی حلف کے خلاف ضمیر کا سودا نہ کیا جائے تو حالات درست ہوسکتے ہیں۔ غرض ارکان پارلیمنٹ چاہیں تو حالات درست ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ناممکن ہے پھر اداروں کو حدود سے تجاوز کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔