رسول اکرم ﷺ بہ حیثیت دوست

آپؐ تمام معاملات میں اپنے رفقاء کے ساتھ شریک رہتے تھے، آپؐ کا اپنے صحابہؓ سے بے حد قریبی تعلق تھا۔


آپ ؐ کی زندگی خود قناعت کے ساتھ گزرتی اور کئی کئی وقت فاقے کی نوبت آجاتی۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: انسان عام طور پر اپنے بزرگوں سے جھک کر ملتا اور تواضع اختیار کرتا ہے، اس میں مذہب، زبان اور علاقے کا فرق بھی رکاوٹ نہیں بنتا۔ اسی طرح انسان چھوٹوں اور بچوں کے ساتھ شفقت اور پیار سے پیش آتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے۔ جیسے پُھول کو دیکھ کر اسے سونگھنے کی رغبت ہوتی ہے، اسی طرح بچوں کو دیکھ کر دل میں شفقت کا جذبہ ابھرتا ہے اور اس سے پیار کرنے کو دل چاہتا ہے۔ مگر انسان کے برتاؤ اور مزاج کا امتحان اس وقت ہوتا ہے، جب وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ ہو، بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ اللہ نے اس کو اپنے ہم عمر اور ہم عصروں کے مقابلے میں بلند مقام و مرتبے سے نواز دیا ہو۔ جو لوگ کم ظرف ہوتے ہیں، وہ ایسے مواقع کو اپنی بڑائی کے اظہار اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رسول اللہ ؐ کی حیاتِ طیبہ جہاں زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں بہترین اسوہ ہے، اسی طرح آپ ؐ کے یہاں دوستوں کے ساتھ سلوک و برتاؤ میں بھی بہترین راہ نمائی موجود ہے۔ آپ ؐ اپنے ساتھیوں سے محبت کا اظہار اور ان کی خوبیوں کا اعتراف فرماتے، ان کے خصوصی وصف اور امتیازی مقام کو سرعام بیان کرتے۔ جیسے آپ ؐ نے حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے بارے میں فرمایا کہ یہ اہل زمین میں میرے وزیر ہیں۔

حضرت عثمان غنیؓ کے بارے میں فرمایا کہ وہ سب سے زیادہ حیا کرنے والے ہیں۔ حضرت علیؓ کے بارے میں ارشاد ہوا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ حضرت زبیر بن عوامؓ کو اپنا حواری قرار دیا۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کو اپنا محرم راز بنایا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کو امینِ امت کہا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کے بارے میں فرمایا کہ جو بات ان کو پسند ہے میں نے بھی اس کو اپنی امت کے لیے پسند کیا۔

اس طرح کے توقیر و احترام کے بہت سے جملے ہیں، جو آپ ؐ نے اپنے مختلف رفقاء کے لیے ارشاد فرمائے ہیں۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ ایک مسلمان کے اندر اپنے ہم عصروں کی خوبیوں، صلاحیتوں اور کارناموں کے اعتراف کا جذبہ ہونا چاہیے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس میں مبالغہ نہ ہو، رسول اللہ ؐ اشرف الانبیاء ہیں، اس کے باوجود آپؐ نے خود اپنے بارے میں مبالغہ کرنے سے منع فرمایا۔

آپؐ اپنے رفقاء سے گہرا رابطہ رکھتے تھے، ایسا تعلق جیسے گھر کے افراد کا ایک دوسرے سے ہوتا ہے اور آپ ؐ کا برتاؤ ایسا دل موہ لینے والا ہوتا تھا کہ ہر ساتھی کو گمان ہوتا تھا کہ آپؐ کو سب سے زیادہ محبت مجھ ہی سے ہے۔ اسی دوستانہ رفاقت کا اثر تھا کہ آپؐ اپنے رفقاء کے ساتھ کھانے پینے میں شریک رہتے۔

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا، رسول اللہ ؐ کا میرے پاس سے گزر ہوا، آپ ؐ نے مجھے اشارہ کیا، میں آپ ؐ کے پاس آگیا، آپ ؐ نے میرا ہاتھ تھام لیا، ہم دونوں چلے، یہاں تک کہ بعض ازواج مطہراتؓ کے حجروں کے پاس تشریف لائے، آپ ؐ اندر چلے گئے، پردہ گرادیا، پھر مجھے حاضری کی اجازت دی، میں بھی اندر داخل ہوا، آپ ؐ نے دریافت فرمایا کھانے کی کوئی چیز ہے؟

عرض کیا گیا: ہاں، اور روٹی کے تین ٹکڑے لائے گئے، ایک ٹکڑا آپ ؐ نے اپنے سامنے رکھا، ایک میرے سامنے، تیسرے کے دو حصے کردیے، آدھا خود رکھا، آدھا مجھے عنایت فرمایا، پھر دریافت کیا: کوئی سالن بھی ہے؟ جواب ملا: نہیں، صرف سرکہ ہے، آپ ؐ نے فرمایا: لاؤ تو سہی، یہ تو بہت اچھا سالن ہے۔

اسی طرح آپ ؐ بے تکلف اپنے رفقاء کی دعوت قبول فرماتے تھے، اگر دوسرے رفقاء بھوکے ہوں، تو جو بھی میسر ہوتا، ان میں سب کو شامل فرماتے، غزوۂ خندق کے موقع سے بڑی تنگی تھی، صحابہ کرامؓ فاقے سے دوچار تھے، خود رسول اللہ ؐ کی کیفیت بھی یہی تھی، اس موقع پر حضرت جابرؓ نے تنگی کے باوجود آپؐ کے لیے تھوڑا سا کھانا بنایا، اور دعوت پیش کی، ان کا منشا تھا کہ صرف آپ ؐ تشریف لائیں، لیکن آپ ؐ نے تمام صحابہؓ کو دعوت دے دی، حضرت جابرؓ اس صورتِ حال سے پریشان ہوگئے، لیکن ان کی اہلیہ نے اطمینان دلایا کہ جب آپ ؐ نے صورتِ حال سے واقف ہونے کے باوجود سب کو دعوت دی ہے تو انشاء اللہ کمی نہیں ہوگی، چناں چہ یہی ہوا کہ آپؐ کی برکت سے تمام لوگوں نے سیر ہوکر کھایا۔

آپ ؐ تمام معاملات میں اپنے رفقاء کے ساتھ شریک رہتے تھے، تقریبات میں بھی، کھانے پینے میں بھی، خوشی اور غم میں بھی، اسی لیے آپؐ کا اپنے صحابہؓ سے بے حد قریبی تعلق تھا اور وہ آپؐ کو اس طرح ٹوٹ کر چاہتے تھے کہ گو یا ایک شمع کے گرد پروانے ہوں۔

آپ ؐ کی زندگی خود قناعت کے ساتھ گزرتی اور کئی کئی وقت فاقے کی نوبت آجاتی، لیکن اس کے باوجود آپؐ اپنے ساتھیوں کی مالی اعانت کا بھی خیال رکھتے، کوئی تحفہ آتا تو اسے لوگوں میں تقسیم کردیتے، یہاں تک کہ رمضان المبارک میں آپ کا جود و سخا تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتا۔ ایک موقع پر حضرت عمرؓ سے کچھ سامان خریدا، اور ان ہی کے صاحب زادے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کو ہدیہ کردیا۔ یہ عطا کرنے کے مختلف طریقے تھے۔ اس کا نتیجہ تھا کہ آپؐ کے پاس کثرت سے مالِ غنیمت آتا، مختلف علاقوں کے محصولات آتے، لیکن کوئی چیز آپؐ کے پاس باقی نہیں رہتی۔ ایک دن چند درہم بچ گئے، تو آپؐ بے چین تھے، حضرت عائشہؓ نے آپؐ کی بے چینی دیکھ کر خیال کیا کہ شاید کوئی تکلیف ہوگی، آپؐ نے فرمایا: نہیں، میں اس لیے بے قرار ہوں کہ کہیں اس حال میں میری موت نہ آجائے کہ یہ سکے میرے پاس موجود ہوں۔ خاص طور پر نومسلموں کا آپؐ اتنا گراں قدر تعاون فرماتے کہ خود انہیں بھی حیرت ہوتی۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے لیے آپ ؐ سے جو بھی مانگا جاتا، آپؐ عطا فرما دیتے، ایک ایسے ہی صاحب آئے تو آپ نے دو پہاڑوں کے درمیان موجود پوری بکریاں انہیں عطا فرما دیں، وہ جب اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے تو کہنے لگے: اے لوگو! اسلام قبول کرلو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطا فرماتے ہیں کہ اپنے فقر و فاقہ کا بھی کوئی خوف نہیں کرتے۔ دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک پہلو بے تکلفی ہے، اس بے تکلفی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ ؐ ساتھیوں سے مزاح بھی فرمایا کرتے تھے، اور آپؐ کی بے تکلفی کو دیکھتے ہوئے آپؐ کے رفقاء بھی آپؐ سے مزاح کرتے تھے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ زاہر نام کے ایک صاحب دیہات سے آتے تھے اور دیہات کی چیزوں کا تحفہ آپ کو پیش کرتے تھے، پھر جب واپس ہونے لگتے تو آپؐ ان کو سامان و اسباب دے کر رخصت فرماتے تھے، آپ ؐ نے ایک موقع پر فرمایا: زاہر ہمارے دیہاتی ساتھی ہیں اور ہم ان کے شہری ساتھی ہیں۔ رسول اللہ ؐ ان سے بڑی محبت فرماتے تھے، وہ خوش شکل آدمی نہیں تھے، ایک دن جب وہ اپنا سامان بیچ رہے تھے، آپ ؐ ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو پیچھے سے اس طرح اپنی گود میں لے لیا کہ وہ دیکھ نہ سکے، کہنے لگے: مجھے چھوڑ دو، یہ کون شخص ہے؟ پھر انہوں نے محسوس کرلیا کہ آپ ؐ ہیں، آپ ؐ فرمانے لگے: کون ہے جو اس غلام کو خرید لے؟ حضرت زاہر نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ تب تو آپ مجھے کھوٹا مال پائیں گے۔ ارشاد ہوا، لیکن تم اللہ کے پاس کھوٹے نہیں ہو، تم اللہ کے پاس بہت قیمتی ہو۔ (مسند احمد، عن انس)

جیسا کہ عرض کیا گیا، آپؐ کی خوش اخلاقی اور بے تکلفی سے حوصلہ پاکر بعض دفعہ خود صحابہ بھی آپؐ سے مزاح کرلیتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقع سے حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، سلام کیا، آپ نے جواب دیا اور فرمایا: اندر آجاؤ، حضرت عوف ابن مالکؓ نے ازراہِ مزاح عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! کیا پورا کا پورا آجاؤں۔ آپ ؐ نے فرمایا: پورے پورے آجاؤ۔ چناں چہ عوف ابن مالک اندر تشریف لائے۔

ایک بار آپ ؐ نے حضرت صہیبؓ کو کھجور کھاتے ہوئے دیکھا، حالاں کہ ان کی آنکھ میں تکلیف تھی، آپؐ نے فرمایا: تمہاری آنکھ میں تکلیف ہے، پھر بھی کھجور کھاتے ہو؟ حضرت صہیبؓ نے عرض کیا: جس طرف تکلیف نہیں ہے، اس طرف سے کھاتا ہوں۔ آپؐ ان کے اس بے ساختہ جواب پر ہنس پڑے۔ لیکن مزاح میں بھی آپؐ کی زبان سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی تھی، جو حق اور سچائی کے خلاف ہو۔ آپؐ کے مزاح کرنے پر تعجب کرتے ہوئے بعض صحابہؓ نے دریافت کیا: کیا آپؐ بھی ایسا کرتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، لیکن میں کوئی ایسی بات نہیں کہتا، جو حق اور سچائی کے خلاف ہو۔''

البتہ آپؐ کو یہ بات گوارا نہیں تھا کہ ہنسی مذاق تکلیف دہ اور اہانت آمیز ہوجائے، یا کسی کو اس بہانے سے دل آزار بات کہی جائے، جب بھی آپؐ کے سامنے کوئی ایسی بات آتی، جس سے بے توقیری کا پہلو ظاہر ہوتا ہو تو آپؐ اس کی نفی فرماتے۔ ایک بار حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ مسواک توڑنے کے لیے ایک درخت پر چڑھے، ان کی پنڈلیاں بہت پتلی تھیں، ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے ہوا ان کو اڑا لے جائے گی، لوگ ہنسنے لگے، آپ ؐ نے دریافت فرمایا: کیوں ہنستے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ان کی پتلی پتلی پنڈلیوں کی وجہ سے۔ آپ ؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اللہ کی ترازو میں ان کا وزن احد پہاڑ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔

آپ ؐ ا پنے صحابہ کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھتے۔ ایک صاحب کی کھجوروں کی فصل خراب ہوگئی اور ان پر بہت سارا قرض ہوگیا، آپ ؐ نے اپنے رفقاء سے فرمایا، ان کی مدد کرو، لوگوں نے مدد کی، لیکن دَین ادا نہیں ہو پایا، آپ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا: جو موجود ہو، وہ لے لو، اور تم کو صرف اسی کا حق حاصل ہے۔

اگر آپؐ کے رفقاء میں سے کسی کو تکلیف پیش آئی تو ان کی تسلی اور دل داری کا پورا اہتمام فرماتے۔ ایک صاحب اپنے چھوٹے بچے کو لے کر خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے، بچہ آپؐ کی پشت مبارک کی طرف آجاتا تو آپ ؐ اسے سامنے بٹھالیا کرتے، بچے کا انتقال ہوگیا، اس صدمے سے ان کے والد حاضر نہ ہوسکے، آپ ؐ کو معلوم نہیں تھا، ان کے بارے میں دریافت کیا، بتایا گیا کہ ان کے صاحب زادہ کا انتقال ہوگیا ہے۔

آپ ؐ نے ان سے ملاقات کی، ان کے بچے کے بارے میں دریافت فرمایا اور تعزیت کی، پھر آپؐ نے فرمایا: تمہیں یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ وہ تمہارے ساتھ زندگی گزارتا، یا یہ کہ تم جنت کے کسی دروازے پر آؤ، اور تم دیکھو کہ وہ تم سے پہلے پہنچ چکا ہے اور تمہارے لیے دروازہ کھول رہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ دوسری بات مجھے زیادہ محبوب ہے، آپ ؐ نے فرمایا: یہ چیز تم کو حاصل ہوگئی، صحابہؓ نے عرض کیا: یہ صرف ان کے لیے ہے یا سبھی کے لیے؟ آپ ؐ نے فرمایا: سبھی کے لیے۔

اسی طرح آپؐ مشکل کاموں میں بھی صحابہؓ کے ساتھ شریک رہتے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر سرد موسم تھا، صحابہؓ بھوکے پیاسے خندق کھودنے میں مشغول تھے اور تھک کر چُور ہوجاتے تھے، ایسے وقت آپ ؐ تشریف لاتے اور فرماتے: اے اللہ! عیش و آرام تو آخرت ہی کا عیش و آرام ہے، اس لیے انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دیجیے۔

ایک مرتبہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سفر پر تھے، چناں چہ ایک بکرے کو ذبح کرنے کی بات طے پائی، ایک صحابیؓ نے کہا: اس کو ذبح کرنا میرے ذمے ہے۔ دوسرے نے کہا: اس کی کھال نکالنے کا کام میں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں اسے پکاؤں گا۔ رسول اللہ ؐ نے کہا: میں ایندھن کی لکڑیاں جمع کروں گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: آپؐ کا کام ہم کردیں گے۔ ارشاد فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ میری طرف سے کفایت کردو گے، لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کے مقابلے میں امتیاز اور بڑائی اختیار کروں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے ہیں، جو اپنے ساتھیوں میں بڑے بنتے ہوں۔

آپؐ اپنے رفقاء کے ساتھ اس طرح رہتے تھے کہ گویا آپؐ ان ہی میں سے ایک ہیں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ انصار کے یہاں تشریف لے جاتے تھے، ان کے بچوں کو سلام کرتے تھے، بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور انھیں دعائیں دیتے تھے۔ حضرت سہل بن حنیفؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐمسلمانوں میں سے غریب لوگوں کے پاس تشریف لاتے تھے، ان سے ملاقات کرتے تھے، ان کے بیماروں کی عیادت فرماتے تھے اور ان کے جنازوں میں شریک ہوتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰؓ نقل کرتے ہیں کہ آپ ؐ کو بیواؤں اور مسکینوں کے لیے چلنے اور ان کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا تھا۔

بہت سے لوگ جو دیہاتوں کے رہنے والے تھے، عام طور پر تہذیب سے ناآشنا ہوتے تھے، لیکن آپ ؐ ان کی باتوں کو بھی خندہ پیشانی سے سہہ جاتے تھے، آپ ؐ اپنے رفقاء کے ساتھ نہ صرف مالی جہت سے حسن سلوک کرتے تھے، بل کہ ان کو مشورہ میں بھی شامل رکھتے تھے۔ حالاں کہ آپؐ کا ہر عمل وحی الٰہی پر مبنی ہوتا تھا، اس لیے آپؐ کو مشورہ کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اپنے ساتھیوں کی دل جوئی اور مشورے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے آپؐ مشورہ فرمایا کرتے تھے۔

جہاں آپ ؐ اپنے رفقاء کی مادی ضرورتوں کا اور دل داری و حسن سلوک کا لحاظ رکھتے تھے، وہیں ان کی دینی تربیت پر بھی متوجہ رہتے تھے، آپ ؐ نے ایک صاحب کو تیز تیز نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، پوری توجہ سے ان کی نماز کا جائزہ لیا اور پھر ان کو اعتدال و میانہ روی کے ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی۔ دینی تربیت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ؐ اپنی تمام تر نرمی، رحم دلی، تواضع اور خوش اخلاقی کے باوجود احکام شریعت کے معاملے میں سختی سے کام لیتے تھے۔ آپؐ اس بات کا بھی خیال رکھتے کہ اگر اپنے رفقاء کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہوجائے تو اسے دور فرما دیں، ایک بار تو ایسا ہوا کہ آپ قبیلہ بنو عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے اور اس کوشش میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ حضرت بلالؓ نے نماز کے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو آگے بڑھا دیا، آپ ؐ بعد میں آکر شریک ہوئے۔ (بخاری)

اپنے احباب کے ساتھ اس حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ہر صحابیؓ کا دل آپؐ کی محبت سے لبریز تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات والا صفات اپنے دوستوں، بے تکلف ساتھیوں، ہم عمروں اور رفقائے کار کے ساتھ خوش گوار برتاؤ کی ایک بہترین مثال ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں