بچوں پر تشدّد کی ممانعت
تشدد سے بچے جُھوٹ کی عادت سیکھتے ہیں۔ ان میں نفاق اور کسل مندی پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کی طبیعت بجھ جاتی ہے۔
بچے معصوم اور ناسمجھ ہوتے ہیں، جنہیں سنوارنا اور ان کی تربیت کرنا ان کے والدین اور اساتذہ کے ساتھ پورے معاشرے کی ذمے داری ہے۔
بچے کی مثال ایک خام ہیرے کی ہے، جسے چمکانے سے پہلے تراشنا بھی پڑتا ہے۔ اسے کندن بنانے کے لیے تجربات کی بھٹیوں سے گزارنا پڑتا ہے۔ بچے کو صراط مستقیم پر چلانے کے لیے جہاں راہ نمائی، حوصلہ افزائی، محبت اور انعام و ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں تادیب کے لیے سزا اور جرمانہ بھی ضروری ہے۔ لیکن دونوں پہلوؤں میں اعتدال بہت ضروری ہے۔ بے جا محبت اور ناروا سختی، بچوں کے مزاج کو بگاڑ دیتی ہے۔ سزا جب تشدد کا روپ دھار لیتی ہے تو بچے کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے۔
اسے گُھن لگ جاتا اور اس کی تعلیم سرگرمیاں شدید متاثر ہوتی ہیں۔ جس سے وہی ایک بچہ ہی نہیں پوری نسل شاہ راہِ ترقی سے ہٹ کر تنزلی کا شکار ہوجاتی ہے۔ بچپن میں تشدد کا سامنا کرنے والے بچوں کے جذبات شدید متاثر ہوتے ہیں۔ حتی کہ بالغ ہونے کے بعد ان کی ازدواجی زندگی پر بھی مہلک اثرات پڑتے ہیں۔ کیوں کہ ایسے بچے کسی پر بھروسا نہیں کرتے، جب کہ شادی کی کام یابی میں اعتماد اولین شرط ہے۔ اگر ایسے بچے جوان ہو کر اپنے خاردار ماضی سے پیچھا چھڑا لیں تب بھی تلخ اور منفی یادیں ان کی بقیہ حیات کو زہرآلود بناتی رہتی ہیں۔
مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون کے مطابق تشدد سے بچے جھوٹ کی عادت سیکھتے ہیں۔ ان میں نفاق اور کسل مندی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی طبیعت بجھ جاتی ہے۔ زندگی سے خوشی اور امنگ ختم ہوجاتی اور وہ احساس کم تری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچے کی ذہنی نشو و نما رک جاتی اور حصول علم کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے۔ ان میں سے غیرت، حمیت اور مدافعت کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں۔ علماء کے مطابق بچوں کو مارنا ایسا جرم ہے جس کی معافی بھی مشکل ہے۔
ایک عالم کے مطابق انہوں نے دیکھا کہ ایک معلم نے اپنے پاس بچوں کو مارنے کے لیے پائپ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا : یہ کس لیے ہے؟ معلم نے کہا : یہ بچوں کو ڈرانے کے لیے ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا: پھر تو پستول رکھ لیجیے، بچے زیادہ ڈریں گے۔
معلمین اکثر یہ گِلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بچوں کو سزا نہ دی جائے تو وہ پڑھائی میں عدم دل چسپی کے ساتھ بدتمیز بھی ہوجاتے ہیں۔ اسلام ہماری اس جانب بہترین راہ نمائی کرتا ہے۔ جو شخص چھٹتے ہی ڈنڈا اٹھا لے، سمجھ جانا چاہیے کہ وہ زبان سے سمجھانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ امام غزالیؒ کے مطابق حتی الامکان زبان سے سمجھایا جائے اور ذہنی و نفسیاتی طریقوں سے بچے کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔
امام احمدؒ نے ناسمجھ بچوں کو مارنے سے قطعی طور پر منع فرمایا ہے اور سمجھ دار بچوں کے بارے میں امام غزالی ؒ کا موقف ہے کہ اول تو ان کے جرم سے چشم پوشی اختیار کی جائے۔ اگر دوبارہ کریں تو انہیں اشارے، کنایے، بالواسطہ اور بلا واسطہ سمجھایا جائے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کے ساتھیوں کے سامنے تنبیہ کی جائے۔ اگر اس کے باوجود بھی اسی جرم کے مرتکب ہوں تو تین چھڑیوں کی سزا دی جائے۔ اگر پانی سر سے گزر جائے اور سزا دینا ناگزیر ہوجائے تو مار پیٹ سے ہٹ کر کوئی سزا دی جائے جیسے کچھ دیر کھڑا کرنا، تھوڑی دیر کے لیے ہاتھوں کو اوپر کروا دینا وغیرہ۔
اگر اس کے باوجود بچے نہ سمجھ رہے ہوں تو درج ذیل شرائط کے ساتھ مارنا جائز ہوجاتا ہے: والدین سے اجازت حاصل کی جائے۔ غلطی کی نوعیت کے مطابق سزا پہلے سے متعین ہو۔ سزا دینے کا مقصد تادیب و تعلیم ہو۔ ذاتی انتقام اور غصے کے جذبات کے تحت سزا، ظلم و تشدد شمار ہوگی اور قیامت کے دن اس کے بارے میں سوال ہوگا۔
بچے کے تحمل کے مطابق سزا دی جائے۔ جتنا جرم ہو، سزا اس سے زیادہ نہ ہو۔ چہرے اور سر پر مارنے سے حضور اکرمؐ نے منع فرمایا ہے۔ نابالغ کو لکڑی اور ڈنڈے کے ساتھ مارنا بھی منع ہے محض تھپڑ اور چپت سے کام چلایا جائے۔ تین سے زیادہ ضربات نہ ہوں۔ امام شامیؒ نے درمختار میں فتوی دیا ہے کہ اگر بچے کو تین ضربات سے زیادہ سزا دی گئی تو قیامت والے دن اس سے قصاص لیا جائے گا۔
مشہور مفکر قاضی ابن جماعہؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب '' تذکرۃ السامع والمتکلم فی آداب العالم والمتعلم'' میں لکھا ہے: ''طالب علم کے مصالح و منافع کو پیش نظر رکھے۔ ان کے ساتھ اپنی پیاری اولاد کی طرح سلوک کرے۔ یعنی ان کے ساتھ شفقت و رافت اور احسان والا معاملہ کرے۔ شدت اور سختی سے پیش نہ آئے۔ اس سے مقصد ان کی حسنِ تربیت، تحسین اخلاق اور اصلاحِ احوال ہو۔''
شاہ ابرارالحقؒ فرماتے ہیں: '' تعلیم میں نرمی کا پہلو اسّی فی صد اور سختی کا پہلو بیس فی صد ہو، تب بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہوسکتی ہے۔''
دنیا کے اکثر ممالک میں جسمانی سزا پر مکمل پابندی ہے اور وہ تشدد کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں تعلیمی اداروں میں پچاس فی صد سے زاید بچوں کو سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بچوں پر تشدد قابل سزا جرم ہے۔ ہمیں مستقبل کے معماروں کی پیار، محبت اور شفقت سے تربیت کرنا چاہیے اور مارپیٹ سے پرہیز کرنا چاہیے۔
بچے کی مثال ایک خام ہیرے کی ہے، جسے چمکانے سے پہلے تراشنا بھی پڑتا ہے۔ اسے کندن بنانے کے لیے تجربات کی بھٹیوں سے گزارنا پڑتا ہے۔ بچے کو صراط مستقیم پر چلانے کے لیے جہاں راہ نمائی، حوصلہ افزائی، محبت اور انعام و ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں تادیب کے لیے سزا اور جرمانہ بھی ضروری ہے۔ لیکن دونوں پہلوؤں میں اعتدال بہت ضروری ہے۔ بے جا محبت اور ناروا سختی، بچوں کے مزاج کو بگاڑ دیتی ہے۔ سزا جب تشدد کا روپ دھار لیتی ہے تو بچے کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے۔
اسے گُھن لگ جاتا اور اس کی تعلیم سرگرمیاں شدید متاثر ہوتی ہیں۔ جس سے وہی ایک بچہ ہی نہیں پوری نسل شاہ راہِ ترقی سے ہٹ کر تنزلی کا شکار ہوجاتی ہے۔ بچپن میں تشدد کا سامنا کرنے والے بچوں کے جذبات شدید متاثر ہوتے ہیں۔ حتی کہ بالغ ہونے کے بعد ان کی ازدواجی زندگی پر بھی مہلک اثرات پڑتے ہیں۔ کیوں کہ ایسے بچے کسی پر بھروسا نہیں کرتے، جب کہ شادی کی کام یابی میں اعتماد اولین شرط ہے۔ اگر ایسے بچے جوان ہو کر اپنے خاردار ماضی سے پیچھا چھڑا لیں تب بھی تلخ اور منفی یادیں ان کی بقیہ حیات کو زہرآلود بناتی رہتی ہیں۔
مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون کے مطابق تشدد سے بچے جھوٹ کی عادت سیکھتے ہیں۔ ان میں نفاق اور کسل مندی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی طبیعت بجھ جاتی ہے۔ زندگی سے خوشی اور امنگ ختم ہوجاتی اور وہ احساس کم تری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچے کی ذہنی نشو و نما رک جاتی اور حصول علم کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے۔ ان میں سے غیرت، حمیت اور مدافعت کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں۔ علماء کے مطابق بچوں کو مارنا ایسا جرم ہے جس کی معافی بھی مشکل ہے۔
ایک عالم کے مطابق انہوں نے دیکھا کہ ایک معلم نے اپنے پاس بچوں کو مارنے کے لیے پائپ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا : یہ کس لیے ہے؟ معلم نے کہا : یہ بچوں کو ڈرانے کے لیے ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا: پھر تو پستول رکھ لیجیے، بچے زیادہ ڈریں گے۔
معلمین اکثر یہ گِلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بچوں کو سزا نہ دی جائے تو وہ پڑھائی میں عدم دل چسپی کے ساتھ بدتمیز بھی ہوجاتے ہیں۔ اسلام ہماری اس جانب بہترین راہ نمائی کرتا ہے۔ جو شخص چھٹتے ہی ڈنڈا اٹھا لے، سمجھ جانا چاہیے کہ وہ زبان سے سمجھانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ امام غزالیؒ کے مطابق حتی الامکان زبان سے سمجھایا جائے اور ذہنی و نفسیاتی طریقوں سے بچے کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔
امام احمدؒ نے ناسمجھ بچوں کو مارنے سے قطعی طور پر منع فرمایا ہے اور سمجھ دار بچوں کے بارے میں امام غزالی ؒ کا موقف ہے کہ اول تو ان کے جرم سے چشم پوشی اختیار کی جائے۔ اگر دوبارہ کریں تو انہیں اشارے، کنایے، بالواسطہ اور بلا واسطہ سمجھایا جائے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کے ساتھیوں کے سامنے تنبیہ کی جائے۔ اگر اس کے باوجود بھی اسی جرم کے مرتکب ہوں تو تین چھڑیوں کی سزا دی جائے۔ اگر پانی سر سے گزر جائے اور سزا دینا ناگزیر ہوجائے تو مار پیٹ سے ہٹ کر کوئی سزا دی جائے جیسے کچھ دیر کھڑا کرنا، تھوڑی دیر کے لیے ہاتھوں کو اوپر کروا دینا وغیرہ۔
اگر اس کے باوجود بچے نہ سمجھ رہے ہوں تو درج ذیل شرائط کے ساتھ مارنا جائز ہوجاتا ہے: والدین سے اجازت حاصل کی جائے۔ غلطی کی نوعیت کے مطابق سزا پہلے سے متعین ہو۔ سزا دینے کا مقصد تادیب و تعلیم ہو۔ ذاتی انتقام اور غصے کے جذبات کے تحت سزا، ظلم و تشدد شمار ہوگی اور قیامت کے دن اس کے بارے میں سوال ہوگا۔
بچے کے تحمل کے مطابق سزا دی جائے۔ جتنا جرم ہو، سزا اس سے زیادہ نہ ہو۔ چہرے اور سر پر مارنے سے حضور اکرمؐ نے منع فرمایا ہے۔ نابالغ کو لکڑی اور ڈنڈے کے ساتھ مارنا بھی منع ہے محض تھپڑ اور چپت سے کام چلایا جائے۔ تین سے زیادہ ضربات نہ ہوں۔ امام شامیؒ نے درمختار میں فتوی دیا ہے کہ اگر بچے کو تین ضربات سے زیادہ سزا دی گئی تو قیامت والے دن اس سے قصاص لیا جائے گا۔
مشہور مفکر قاضی ابن جماعہؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب '' تذکرۃ السامع والمتکلم فی آداب العالم والمتعلم'' میں لکھا ہے: ''طالب علم کے مصالح و منافع کو پیش نظر رکھے۔ ان کے ساتھ اپنی پیاری اولاد کی طرح سلوک کرے۔ یعنی ان کے ساتھ شفقت و رافت اور احسان والا معاملہ کرے۔ شدت اور سختی سے پیش نہ آئے۔ اس سے مقصد ان کی حسنِ تربیت، تحسین اخلاق اور اصلاحِ احوال ہو۔''
شاہ ابرارالحقؒ فرماتے ہیں: '' تعلیم میں نرمی کا پہلو اسّی فی صد اور سختی کا پہلو بیس فی صد ہو، تب بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہوسکتی ہے۔''
دنیا کے اکثر ممالک میں جسمانی سزا پر مکمل پابندی ہے اور وہ تشدد کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں تعلیمی اداروں میں پچاس فی صد سے زاید بچوں کو سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بچوں پر تشدد قابل سزا جرم ہے۔ ہمیں مستقبل کے معماروں کی پیار، محبت اور شفقت سے تربیت کرنا چاہیے اور مارپیٹ سے پرہیز کرنا چاہیے۔