ماں کا بیٹی کی حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے طوبیٰ انصاری

نابینا افراد کے لیے اپنی نوعیت کا منفرد اسپورٹس سینٹر ڈیزائن کرنے والی خاتون کی گفت گو۔


Rizwan Tahir Mubeen April 02, 2013
نابینا افراد کے لیے اپنی نوعیت کا منفرد اسپورٹس سینٹر ڈیزائن کرنے والی خاتون کی گفت گو۔ فوٹو: فائل

زندگی کی بعض مشکلات قدرت کی طرف سے براہ راست راہ نمائی کی حیثیت رکھتی ہیں، کیوں کہ مشکلات کے ذریعے ہی ہمیں کسی بھی مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے اور پھر ہم اس مسئلے سے دوچار لوگوں کے مصائب کم کرنے کی طرف اپنی توانائیاں لگا دیتے ہیں۔

گویا قدرت کی طرف سے ہمیں بالواسطہ یہ ذمہ داری دی گئی ہوتی ہے کہ ہم معاشرے کے ایسے لوگوں کے لیے یہ کام کر گزریں۔ ایسا ہی کچھ طوبیٰ انصاری کے ساتھ ہوا۔ ان کی نگاہ بچپن سے ہی کم زور تھی۔ تیسری کلاس میں ہی انہیں نظر کا چشمہ لگ گیا اور پھر اس کے نمبر میں اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ پھر چشمے کے بغیر ان کا گزارا مشکل ہو گیا۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جس نے انہیں نابینا لوگوں کی مشکلات کا احساس دلا دیا اور انہوں نے بصارت سے محروم افراد کی مشکلات کم کرنے کے لیے کمر کس لی جس کا نتیجہ نابینا افراد کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ اسپورٹس سینٹر کی صورت میں سامنے آیا۔

اپنی نوعیت کے اس منفرد منصوبے میں نابینا افراد کسی دوسرے کے سہارے کے بغیر بہ آسانی گھوم پھر سکتے ہیں۔ اس کی خاص بات یہ کہ اس میں نابینا افراد کی سننے، سونگھنے اور محسوس کرنے کی حس کے ذریعے خصوصی راہ نمائی موجود ہے۔ یہ منصوبہ جامعہ کراچی کے شعبہ بصری علوم کے گریجویشن پروگرام کے دوران تیار کیا گیا۔

اس منصوبے کے مراحل کے حوالے سے طوبیٰ انصاری نے بتایا کہ ''پہلے ہمیں موضوع کا تعین اور پھر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے تحقیق کرنی ہوتی ہے تاکہ اس موضوع پرکیے گئے کام اور تشنہ پہلوئوں سے آگاہی ہو سکے۔ میں نے نابینا لوگوں کے مسائل کو ذہن میں رکھا، پھر کراچی میں موجود نابینائوں کے تعلیمی اداروں کی ایک فہرست تیار کی اور ان کا دورہ کیا۔ کراچی میں نابینا افراد کا سب سے بڑا اسکول IDA RIEU (نزد نمائش چورنگی) پر واقع ہے جہاں نرسری سے گریجویشن تک تعلیم دی جاتی ہے، میں نے محسوس کیا کہ وہاں نابینا طلبا کی آسانی کے لیے کچھ زیادہ چیزیں نہیں۔

ہمیں چوں کہ اپنے منصوبے کے لیے محض مفروضے پر کام نہیں چلانا ہوتا بلکہ کوئی حقیقی جگہ بھی تجویز کرنی ہوتی ہے، لٰہذا میںنے اس ہی اسکول کا ایک توسیعی منصوبہ ڈیزائن کیا، جو کہ اس کے ساتھ موجود خالی میدان کے محل وقوع کے لحاظ سے تیار کیا گیا ایک اسپورٹس سینٹر تھا، جہاں پر اس اسکول کے طلبا آکر کھیل سکیں، کیوں کہ میرے مطالعے میں یہ بات تھی کہ نابینا لوگوں کے لیے خصوصی طور پر کوئی تفریح گاہ موجود نہیں، پھر انہیں اکثر جگہوں پر دوسروں کے سہارے کی ضرورت رہتی ہے، میں نے اس کمی کو دورکرنے کی کوشش کی۔''

طوبیٰ انصاری اس نظریے پر اعتراض کرتی ہیں کہ نابینا افراد کو عام لوگوں کے ساتھ رکھنا چاہیے ورنہ نا انصافی ہو گی، ان کا کہنا ہے کہ ان کی ضروریات ایک بینا فرد سے بہت مختلف ہیں۔ ان کی بصارت جیسی اہم حس موجود نہیںاور وہ باقی کی چار حسوں سے چیزوں کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اسی بات کو میں نے اپنے ڈیزائن کی بنیاد بنایا۔
اسپورٹس سینٹر میں استعمال ہونے والے تعمیراتی مواد کے حوالے سے طوبیٰ انصاری نے بتایا کہ ''اس میں عام تعمیراتی مواد استعمال ہواہے، فقط اس کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ بصارت سے محروم فرد اس سے بہ آسانی راہ نمائی حاصل کر سکیں۔

چوں کہ نابینا افراد راستے کی دھوپ چھائوں اور نشیب وفراز کو ایک عام فرد سے زیادہ محسوس کرتے ہیں، اس لیے ان کے لیے گھنے درختوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی فرش کی ساخت بھی ایسی رکھی گئی ہے کہ جن پر قدم رکھتے ہی وہ ان کی پہچان کر لیں کہ کون سا راستہ اسپورٹس سینٹر کے کس کمرے کی طرف جا رہا ہے، بالکل اس ہی طرح جیسے بعض جگہوں پر ان کے لیے چھو کر پڑھنے والا نقشہ کنندہ ہوتا ہے، جس سے انہیں راستوں کا اندازہ رہتا ہے۔ اس ہی طرح انہیں فرش کی مدد سے پتا چلتا رہتا ہے کہ فٹبال ہال کہاں ہے یا جوڈو کوٹ کس سمت میںہے وغیرہ۔ اس ضمن میں فرش کی مختلف ساخت اور دیواروں کے ابھار سے بھی مدد دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ان کی ضرورت کے مطابق پتلی راہ داری کے کناروں پر موجود ریلینگ بھی انہیں راہ نمائی دے گی۔''

اس منصوبے میں صرف چھو کر محسوس کرنے کی حس کے علاوہ آواز اور خوش بو کی مدد سے بھی راہ نمائی دی گئی ہے۔ جیسے ایک مصنوعی آبشار ہے، نابینا افراد کے لیے اس کا تجربہ کچھ ایسا ہے کہ انہیں ہوا کی وجہ سے ہلکا ہلکا پانی اپنے چہرے پر پڑتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، ساتھ ہی پانی اور مٹی کی ایک دھیمی خوش بو اور پانی کے بہاؤ کی آواز ہے،جس سے یہ یاد رکھ سکتے ہیں کہ جب میں آبشار کے قریب تھا تو ساتھ میں ایک کینٹین تھی جہاں سے کافی بننے کی خوش بو آرہی تھی یا یہاں بچوں کے کھیلنے کی آواز بھی آرہی تھی۔ یہ چیزیں اسے جگہ شناخت کرنے میں خاصی مدد دیتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ کوشش کی گئی ہے کہ زیادہ بھول بھلیاں نہ ہوں، جہاں وہ قدم رکھیں وہاں کی زمین کی ساخت میں ان کے لیے معلومات ہوں گی۔ ہر جگہ کی زمین انہیں الگ الگ تجربہ پہنچائے گی، جس سے ایک نابینا فرد آسانی سے یاد رکھ سکتا ہے کہ اس جگہ جاکر مجھے ایسا محسوس ہوا تو وہ جگہ یہ ہے۔

طوبیٰ انصاری نے نابینائوں کی مدد کے لیے مختلف درختوں سے بھی مدد لی، اس حوالے سے انہوں نے بتایا ''ہم نے درختوں کی خصوصیات کا مطالعہ بھی کیا کہ کون سا درخت زیادہ ٹھنڈی چھائوں دیتا ہے اور کس قسم کے درختوں پر پرندے زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ نابینا لوگوں کے لیے یہ چھائوں اور پرندوں کی موجودگی بھی راستہ پہچاننے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور انہیں راستوں کی شناخت میں آسانی ہوتی ہے۔''

شعبہ بصری علوم کے ذیلی شعبے ''تعمیرات'' (آرکیٹکچنگ) کا ذکر نکلا تو طوبیٰ انصاری نے بتایا کہ ''اس شعبے کے لیے طبعیات (فزکس) اور ریاضی کے پس منظر کے ساتھ اچھی ڈرائنگ کا آنا بھی ضروری ہے۔ ہمارا نصاب 5 سال پر محیط ہے۔ اس دوران ہمیں مختلف اسائمنٹس دیے جاتے ہیں، ہر اسائمنٹ کا دورانیہ چار سے چھ ہفتوں کے درمیان ہوتا ہے، اس کے لیے ایک کی بڑی ساری ڈرائنگ کی مدد سے پرزینٹیشن دی جاتی ہے اور اس کا تھری ڈی ماڈل بھی بنانا ہوتا ہے، جس میں منصوبے کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ظاہر کرنی ہوتی ہے، اتنی بڑی ڈرائنگ اور اتنی باریکی سے تفصیلات کے لیے سخت محنت اور طویل وقت درکار ہوتا ہے، اس میں ہم راتوں کو جاگ کر کام کرتے ہیں۔ کورس کے آخر میں ہم ایک حقیقی اور قابل عمل منصوبہ تجویز کرتے ہیں اور اسی پر ہمیں نمبر دیے جاتے ہیں۔ جہاں تک اس منصوبیکے عملی شکل میں آنے کی بات ہے تو اگر کوئی دل چسپی لے اور اسے تعمیر کرنے کی خواہش رکھے تو وہ بہ آسانی ہم سے رابطہ کر کے اسے عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔''

پڑھائی کے سخت معمولات کے باعث انہیں گھرداری کے لیے وقت ہی نہیں ملتا تھا اور بقول ان کے ''گھر کے کاموں میں زیادہ دل چسپی نہ تھی، بس ضرورت پڑنے پر تھوڑا بہت کھانا پکا لیتی تھی، اس لیے شادی سے پہلے امی کو میری فکر رہتی تھی، مگر اب شادی کے بعد سب خوش ہیں، کیوں کہ میں نے بیجنگ جا کر اپنے نئے گھر کو اچھی طرح سنبھال لیا ہے۔ ساتھ ہی شوہر بھی گھر کے کاموں میں بہت مدد کرتے ہیں۔ صبح شوہر کے ہم راہ دفتر چلی جاتی ہوں، شام واپسی پر گھر کی صفائی ستھرائی اور باورچی خانے کے امور نمٹاتی ہوں۔ کھانا پکانے کے دوران ضرورت پڑے تو امی جان یا ساس کو فون کر لیتی ہوں۔ ایک بیٹی کے لیے ماں کا حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے اور آج میں جو کچھ ہوں وہ اپنی امّی کے بغیر کبھی نہیں ہوسکتی تھی۔''

ذاتی زندگی

13 اکتوبر 1989ء کو آنکھ کھولنے والی طوبیٰ انصاری اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ بیکن ہاؤس اسکول سے کمپیوٹر سائنس میں میٹرک کے بعد انٹر (پری انجینئرنگ) ڈی ایچ اے کالج سے کیا، لوگوں سے شعبہ بصری علوم کی تعریف سنی تو اس کے بارے میں معلومات لیں، یوں اس شعبے کا انتخاب عمل میں آیا۔ 2012ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ بصری علوم سے گریجویشن کیا۔ ان کے ابو سکندر علی انصاری نے انڈیانا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکا سے الیکٹرانک میں بیچلر کی ڈگری لی۔ اس کے بعد اسٹیل ملز میںخدمات انجام دیں۔ والدہ نے پیپلز میڈیکل کالج جامشور سے ایم بی بی ایس کیا اور اب وہ انیس گریڈ میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہیں۔

طوبیٰ انصاری کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کا قصہ کچھ یوں رہا کہ ان کے شوہر دانش کی خالہ ان کی پرانی پڑوسن ہیں۔ انکا رشتہ بھی انہوں نے ہی طے کرایا، یہ اتفاق تھا کہ دانش بھی آرکیٹیکٹ نکلے، یوں ان کا نکاح دوران تعلیم 2011ء میں ہو گیا، گریجویشن کے بعد جنوری 2013ء میں رخصتی ہوگئی اور وہ فروری میں اپنے شوہر کے ہم راہ بیجنگ منتقل ہوگئیں۔ ان کے شوہر دانش نے لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی سے ڈگری لی اور وہاں کچھ عرصہ آرکیٹیکچر پریکٹس کی، پھر بیجنگ چلے گئے۔ شادی کے بعد طوبیٰ بھی ایک ڈیزائن کمپنی WTL میں بہ حیثیت جونیئر آرکیٹیکٹ کے وابستہ ہیں، جب کہ دانش بھی اسی کمپنی میں سینئر انٹیرئیر آرکیٹکٹ کے عہدے پر ہیں۔ شادی سے پہلے انٹرن شپ کیں، لیکن ملازمت کرنے کا سلسلہ شادی کے بعد رہا۔

''68 گھنٹے جاگ کر کام کیا''

''آرکیٹکچر اسٹڈی سخت محنت طلب شعبہ ہے اور اگر آپ کے اہل خانہ آپ کے ساتھ نہ ہوں تو یہ 5 سال کا کورس نا ممکن ہو سکتا ہے۔ اس میں آپ کو سائٹ وزٹ کے لیے جانا پڑتا ہے، جو زیادہ تر دن کے وقت میں کی جاتی ہیں۔ مجھے بچپن سے سورج سے الرجی ہے اور دھوپ میں نکل کر میرا برا حال ہوجاتا ہے۔ یہ میرے لیے ایک اور چیلنج تھا کہ میں خود کو دھوپ سے محفوظ رکھتے ہوئے باقاعدگی سے سائٹ وزٹ کروں۔ اس کے علاوہ پڑھائی میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ مسلسل اسائمنٹ کی وجہ سے آپ کی سماجی زندگی بالکل ختم ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے اور سونے تک کا کچھ ہوش نہیں رہتا۔ میرا ریکارڈ ہے کہ میں نے مسلسل68 گھنٹے جاگ کر کام کیا۔ اکثر لوگ یقین نہیں کرتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس وقت اسائنمنٹس کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ ''

آرکیٹکچنگ: خواتین کے لیے ایک مفید شعبہ!

میرے خیال میں آرکیٹکچنگ خواتین کے لیے ا س حوالے سے نہایت مفید ہے ، چوں کہ ان کی جمالیاتی حس مردوں سے زیادہ ہوتی ہے جو اس شعبے میں خاصی کام آتی ہے۔آرکیٹکچنگ میں صرف ایک گھر یا بلڈنگ کو ڈیزائن کرنا ہی نہیں بلکہ یہ سوچنا کہ اس میں مختلف چیزوں کو کس طرح آراستہ کیا جائے، مختلف چیزوں کی ہم آہنگی کیسے کی جائے، الماریاں کس لکڑی کی بنائی جائیں، ان کی گنجایش، ہینڈل، رنگ اور ڈیزائن کیسا ہوگا، پھر یہ الماری کمرے کی باقی چیزوں سے میل بھی کھائیں گی یا بری لگیں گی۔ اس کے ساتھ کمرے کی کھڑکیوں کی سمت اور ان سے دھوپ کے رخ کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے، پھر اس حساب سے درخت وغیرہ بھی لگائے جاتے ہیں، یہ سب چیزیں کسی مرد کے مقابلے میں خواتین بہت اچھی طرح سمجھ سکتی ہیں۔

''پاکستان میں اتنی قتل وغارت گری کیوں ہے؟''

چین آکر شروع میں بہت عجیب لگا مگر اب الحمداللہ اچھا لگ رہا ہے۔ یہاں زبان کا بڑا مسئلہ ہے۔ میں نے تھوڑی بہت چینی زبان سیکھ لی۔ اس لیے ٹوٹی پھوٹی چینی اور اشاروں کے ذریعے اپنی بات سمجھا دیتی ہوں۔ دفتر میں غیر ملکی ملازمین کے لیے باقاعدہ انگریزی ترجمان رکھے جاتے ہیں۔ چین اور پاکستان میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ ہمیں صبح دفتر کے لیے نکلنے سے پہلے ٹی وی پر شہر کے حالات نہیں دیکھنے پڑتے۔ یہاں ہر چیز وقت پر ہوتی ہے۔ چینی لوگ پاکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں اور بہت پسند بھی کرتے ہیں۔ میں نے بہت سے چینی دوست بھی بنالیے ہیں۔چینی زبان میں پاکستان کو ''باجی سی تان'' کہتے ہیں۔ میںاس وقت شدید مشکل میں پڑ جاتی ہوں، جب وہ یہ پوچھتے ہیں کہ ''پاکستان میں کس وجہ سے اتنی قتل وغارت گری کیوں ہے؟'' اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں اپنے ملک کے حق میں کیا کہوں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔