جمعیت علماء اسلام ف کی کامیاب ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘

جلسے میں سب سے زیادہ تعداد خیبر پختون خواہ سے آنے والے افراد کی تھی۔

جلسے میں سب سے زیادہ تعداد خیبر پختون خواہ سے آنے والے افراد کی تھی۔ فوٹو: فائل

مینار پاکستان کے زیر سایہ ہونے والی جمعیت علماء اسلام کی ''اسلام زندہ باد کانفرنس '' اس اعتبار سے بڑی کامیاب ثابت ہوئی کہ اس کے شرکاء کی تعداد کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت کے اجتماع سے کم نہیں تھی۔

کانفرنس کی میزبان جمعیت علماء اسلام کی صوبائی تنظیم تھی جس کے امیر مولانا رشید احمد لدھیانوی کی زیر قیادت ڈاکٹر عتیق الرحمان ، مولانا امجد خان اور پروفیسر ابوبکر چوہدری اور دیگر عہدیدار پنجاب کے کونے کونے میں جاکر کارکنوں تک جمعیت کا پیغام پہنچاتے رہے اور دینی مدارس کے اساتذہ اور جمعیت کے کارکنوں کو کانفرنس میں شرکت کے لیے تیار کرتے رہے ۔کانفرنس کے لیے مینار پاکستان کا انتخاب بذات خود ایک چیلنج تھا کیونکہ اس تاریخی مقام پر اب تک جس جماعت نے بھی جلسہ کیا تھا اس میں اس نے اپنے تمام وسائل اور افرادی قوت کا مظاہرہ کرکے اپنا آپ منوانے کی کوشش کی اور اسے ملکی سطح پر اس جماعت کی مقبولیت کا پیمانہ قراردیا۔

چنانچہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے عوامی اجتماعات ان جماعتوں کی قوت کا مظہر قراردیے گئے۔ چنانچہ ان دونوں بڑے اجتماعات کے بعد کسی تیسری جماعت میں یہ ہمت پیدا نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اس میدان میں جلسے کا انعقاد کرے ۔ جمعیت علما ء اسلام نے البتہ اس چیلنج کو از خود قبول کرتے ہوئے کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا اور پھر اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے دن رات ایک کردیا گیا ۔ 30 مارچ کو جلسہ سے ایک روز قبل ہی تنظیم انصار الاسلام کے رضا کاروں نے اجتماع گاہ کی انٹرنل سکیورٹی کا انتظام سنبھال لیا۔

اس مقصد کے لیے 5000 رضاکاروں یا گارڈز کی خدمات حاصل کی گئیں جن میں سے 3000 کو مختلف مقامات پر تعینات کردیا گیاجبکہ 2000 کو ریزرو کے طورپر محفوظ رکھا گیا۔ انھوں نے کسی مشکوک شخص کو جلسہ گاہ میں داخل نہیں ہونے دیا۔ کانفرنس میں شرکاء کی بڑی تعداد کی حاضری یقینی بنانے کے لیے لاہور سے باہر صوبے کے کم وبیش تمام اضلاع کے علاوہ دیگر صوبوں سے بھی کارکنوں کا یہاں لانے کا اہتمام کیا گیا۔ سب سے زیادہ تعداد خیبر پختون خواہ سے آنے والے افراد کی تھی۔ جلسے کا وقت گیارہ بجے دن مقرر کیا گیا تھا لیکن اس وقت تک صرف چند ہزار افراد ہی پہنچ پائے تھے۔ دھوپ اور گرمی کی وجہ سے مینار پاکستان گراونڈ کا بڑا حصہ خالی تھا تاہم جوں جوں دن ڈھلتا چلا گیا شرکاء کی حاضری بھی بڑھتی چلی گئی ۔او رعصر کے وقت تک تمام گراونڈ مکمل طورپر بھر چکی تھی ۔


کانفرنس سے دو درجن کے لگ بھگ مقررین نے خطاب کیا۔ اہم مقررین میں مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ ، حافظ حسین احمد ، مولانا عبدالغفور حیدری ، ڈاکٹر خالد محمود سومرو، محمد اکرم خان درانی، مولانا اﷲ وسایا، مولانا محمدخان شیرانی اور قاری محمد حنیف جالندھری اور دیگر شامل تھے ۔ نظامت مولانا امجدخان نے کی اور اپنے نعروں اور خطابت سے حاضرین کو جگائے رکھا ۔ جلسہ کی اہم بات مسیحی طبقے سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رہنما اکرم وقار گِل کی تقریر تھی جنہوں نے اسٹیج سے پاکستان کا مطلب کیا ، لاالہ الااﷲ کے نعرے لگوائے اور کہاکہ پاکستان مین ایک اسلامی حکومت ہی اقلیتوں کے ساتھ انصاف کرسکتی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرسکتی ہے ۔ جس کی شرکاء کی طرف سے تالیوں کی صورت میں انہیں بھرپور داد ملی ۔

کانفرنس کا کلیدی خطاب مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان کا تھا جنہو ں نے اپنی جماعت کا انتخابی منشور پیش کیا اور کہا کہ قرار داد پاکستان ہماری پالیسی ہے ، مزارع کو جاگیردار کی زمین او مزدور کو کارخانے میں حصہ دیا جائے گا۔ ملکی اداروں کو بین الاقوامی دباؤ سے نکالیں گے ۔انہوںنے دعویٰ کیاکہ ملک میں جے یو آئی کے علاوہ کوئی نمائندہ دینی جماعت نہیں ہے ۔ انہوںنے سابقہ حکومت کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس کے وہ خود بھی حصہ دار رہ چکے تھے ۔ انہوںنے اپنی جماعت کی پانچ سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر حکومت کے خلافِ اسلام اقدامات کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی اور اسے ناموس ِ رسالت قانون میں ترمیم کرنے سے روکے رکھا۔

مولانا فضل الرحمان کی مذکورہ تقریر اور انقلابی منشور نے اگرچہ جلسے میں ایک سماں باندھ دیا تھا اور شرکائے جلسہ جذبات کی رو میں بہتے چلے جارہے تھے لیکن اس کامیاب ترین جلسے کے پیش نظر کیا اس توقع کااظہار کیا جاسکتا ہے کہ جے یو آئی آئندہ انتخابات میں معقول نشستیں حاصل کرکے حکومت سازی میں کوئی کردار ادا کرسکے گی ؟ یہ ہے وہ سوال جو ''اسلام زندہ باد کانفرنس '' کے حوالے سے ہر شہری کی زبان پر ہے ۔ اس میں شک نہیں اسلام زندہ باد کانفرنس نے شرکاء کی تعداد کے اعتبار سے خود جے یوآئی ہی کے تمام سابقہ جلسوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے ، لیکن اس حوصلہ افزا صورت حال کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ جے یو آئی ملکی سیاست میں کوئی کلیدی رول ادا کرسکے گی کیونکہ پنجاب کی حد تک ابھی تک اس جماعت کے پاؤں جم نہیں سکے ہیں۔

صرف بلوچستان اورخیبر پختون خوا میں اسے معقول نشستیں مل سکیں گی ۔ مقامی لوگوں کی جمعیت میں عدم شمولیت کی وجہ سے یہ جماعت ابھی تک پنجاب کے لوگوں کے دلوں میں نہیں اترسکی۔ اس مقصد کے لیے جماعت کو تنظیمی سطح پر جہاں مزیدفعال بنانے کی ضرورت ہے وہاں اس کے لیے ایک موثر میڈیا سیل کی بھی ضرورت ہے۔ بادی النظر میں جے یو آئی اور اس کی قیادت کو عوامی سطح پر بعض حلقوں کی طرف سے جس قسم کے منفی پراپیگنڈے کا سامنا ہے اس کاابطال ایک مضبوط اور موثر میڈیا سیل کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ جے یوآئی کی ہیئت حاکمہ جب تک اس حقیقت کاادراک نہیں کرے گی یہ قومی اور مقبول عوام جماعت کا درجہ حاصل نہیں کرپائے گی خواہ جتنے ہی بڑے جلسے منعقد کرلے۔
Load Next Story