تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر
اگر جنگ کا آپشن نہیں ہے تو پھر بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔
کسی بھی دشمن سے نمٹنے کے دو طریقے ہوتے ہیں یا تو جسمانی و مادی طور پر مجبور کر دو کہ باز آ جائے یا پھر بات چیت کرو ، بڑوں کو بیچ میں ڈالو اور کچھ لو کچھ دو کے اصول پر معاملہ رفع دفع کر لو۔تعطل کوئی حل نہیں بلکہ تعطل ہر روز معاملے کو اور پیچیدہ کرتا ہے ، خون جلاتا ہے ، نفرت بڑھاتا ہے ، مزید جھگڑے جنم دیتا ہے اور ایک کے بعد ایک نسل خراب ہوتی جاتی ہے۔
یہ وہ کامن سنس ہے جو دیوار پر موٹی موٹی لکھی ہے۔ فرد کو یہ جلدی نظر آجاتی ہے لیکن ریاست کی نگاہ چونکہ کمزور ہوتی ہے اور اس کی عینک کے شیشے بھی موٹے ہوتے ہیں اس لیے ریاست کو دیوار پڑھنے میں بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں۔جیسے یورپ کو پانچ سو سال اور کئی کروڑ جانیں لگیں صرف اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کہ اختلاف کینسر ہے اور اتفاق میں برکت ہے۔
باقی دنیا نے بھی یورپی یونین کے ماڈل پر اپنے اپنے حالات کے حساب سے سیاسی و اقتصادی بلاک بنانے شروع کر دیے۔کچھ تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں کچھ کھچوے کی رفتار سے۔مگر رفتار کچھ بھی ہو آنا میز پر ہی پڑتا ہے۔سر پھاڑنے کے بعد بھی اور سر پھاڑے بغیر بھی۔
اس اصول کی بنیاد پر اگر جنوبی ایشیا کو دیکھا جائے تو حالات اتنے دگرگوں ہیں نہیں جتنے نظر آ رہے ہیں۔ستر سال کی تعلقاتی اونچ نیچ اور اٹھا پٹخ کے باوجود نہ پاکستان بھارت سے کشمیر چھین سکا اور نہ ہی بھارت پاکستان کا پتھر راستے سے اٹھا کر کہیں دور پھینک سکا۔
چار جنگیں لڑنے ، سیاچن سے لے کر لائن آف کنٹرول تک توپوں کے گولے ضایع کرنے، ایک دوسرے کو علاقائی اور بین الاقوامی منڈبوں پر کتا ذلیل قرار دینے ، ویزا کھولنے بند کرنے ، دہشت گردی کے بٹن کو آن آف کرنے سمیت کون سا ایسا حربہ ہے جو دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کر لیا۔مگر تین نسلیں اور اربوں ڈالر جھونک دیے جانے پر بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
دنیا کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ یہ دونوں ممالک لڑتے ہیں کہ مرتے ہیں۔دنیا کا مفاد بس اتنا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کچھ بھی کرو بس خون کے چھینٹے ہمارے منہ پر نہیں گرنے چاہئیں۔ایٹمی ہتھیار استعمال کرو مگر تابکاری کے اثرات تم دونوں تک محدود رہنے چاہئیں۔ایک دوسرے کی کچھ آبادی چھوڑساری آبادیاں تاراج کر دو مگر ہم تمہارے پناہ گزیں لینے پر تیار نہیں۔تم اگر اقتصادی طور پر برباد ہوتے ہو تو ہمیں کیا اعتراض ہے الٹا ہمارا فائدہ ہے ، ہماری مصنوعات اور ہمارے اسلحے کے لیے۔تو یہ ہے دنیا کا مفاد۔
مودی حکومت کو چار برس ہو چلے۔اس کا خیال تھا کہ آنکھیں دکھانے، ہو ہا کرنے، بات چیت کا دروازہ بند رکھنے مگر بیک ڈور پر چٹخنی نہ چڑھانے، اور کشمیریوں کو ایک ہی بار طبیعت سے پیٹ پاٹ کر سیدھا کرنے سے الو سیدھا ہو جائے گا۔مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ سابق وزیرِ اعلی فاروق عبداللہ ہوں کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بی جے پی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی مشترکہ وزیرِ اعلی محبوبہ مفتی یا پھر کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ ، سب کھل کے کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کی پاکستان سے بات نہ کرنے کی پالیسی مکمل ناکام ہو چکی ہے۔
اگر جنگ کا آپشن نہیں ہے تو پھر بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔اگر دونوں ملکوں کے سیکیورٹی ایڈوائزر کسی تیسرے ملک میں خفیہ ملاقاتیں کر سکتے ہیں تو پھر کھل کے آمنے سامنے بیٹھنے میں کیا مسئلہ ہے۔جب سے مودی حکومت نے اگست دو ہزار پندرہ سے بات چیت کا دروازہ بند کیا اس کے بعد سے حالات بہتر ہونے کے بجائے اور خراب ہوئے۔لہذا اب اس حکمتِ عملی پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔
مگر وہ بی جے پی ہی کیا جو مان جائے۔مودی کو تو پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری کے اعزاز میں سابق سفارت کار اور کانگریس کے رہنما منی شنکر آئیر کی ضیافت میں من موہن سنگھ ، سابق فوجی سربراہ جنرل وجے سنگھ اور دعوت میں موجود تین سابق بھارتی ہائی کمشنر اور دو سابق خارجہ سیکریٹری بھی بھارت کے خلاف پاکستان سے گٹھ جوڑ کرتے نظر آتے ہیں۔
محبوبہ مفتی اور کیمونسٹ پارٹی کی نکتہ چینی رد کرتے ہوئے بی جے پی کے سیکریٹری جنرل رام مادھو نے کہا کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔اگلے برس بھارت میں عام انتخابات کا سال ہے۔ اس سے پہلے مودی کی علاقائی پالیسی میں کوئی تبدیلی خارج از امکان ہے۔
مسئلہ صرف پاکستان سے نپٹنے یا اسے تنہا کرنے کی پالیسی کا نہیں بلکہ چین سے بھی جو سفارتی و عسکری پنجہ آزمائی شروع ہو گئی ہے اور پھر مودی نواز میڈیا کی جانب سے چوبیس گھنٹے '' قدم بڑھاؤ مودی جی ہم تمہارے ساتھ ہیں '' تواتر سے سننے کا جو نشہ ہے اس سے خارجی حالات سہہ آتشہ ہو گئے ہیں۔نیپال نے بھارت کے حلقہِ اثر سے نکل کے چین کے سائے میں اقتصادی و سیاسی پناہ لے لی ہے۔
سری لنکا میں چین سرمایہ کاری کے راستے بہت آگے جا چکا ہے۔ مالدیپ میں حالیہ حکومتی بحران میں بھارت پہلے کی طرح کسی ایک فریق کے حق میں اس لیے آگے نہیں آ سکا کیونکہ چین نے پیشگی خبردار کر دیا تھا کہ تم اگر جزائر میں اترو گے تو پھر ہم بھی آئیں گے۔
کیونکہ ہم نے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے تحت اتنی محنت سے بحیرہ ہند میں ایشیا سے افریقہ کے ساحل تک جو '' موتیوں کی مالا '' پروئی ہے۔سری لنکا اور مالدیپ کے بغیر یہ مالا مکمل نہیں ہو سکتی۔بنگلہ دیش کو بھارت اور چین دونوں اپنی جانب شدت سے راغب کرنے میں جٹے پڑے ہیں اور پاکستان تو خیر ہے ہی چین کا بغل بچہ۔اور افغانستان میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ بھی بالاخر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ طالبان سے غیر مشروط مذاکرات اور پاکستان کو وسطی ایشیا سے تجارت کی ترغیب دے کر افغان امن عمل میں غیر جانبدار رہنے کے فوائد کی پیش کش کے بغیر ٹیڑھی کھیر سیدھی نہیں ہوگی۔ بھلے ٹرمپ کے جو بھی عسکری خواب ہوں اور مودی افغانستان کو کتنی بھی امداد فراہم کردے۔
یوں سارک ممالک کا تو ہو گیا کریا کرم۔اب کیا ہوگا۔ظاہر ہے بات چیت۔اور بات چیت بھی جتنی جلد شروع ہو اتنا ہی اچھا۔بات چیت ہی چین ، بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی تعلقاتی چمتکار دکھا سکتی ہے۔چین کو تجارت کی جلدی ہے ، پاکستان کو دھشت گردی کی پناہ گاہ کے سٹیکر سے نجات کی جلدی ہے اور بی جے پی کے بھارت کو دو ہزار پچاس تک اقتصادی طور پر چین کے ہم پلہ یا آس پاس ہونے کی جلدی ہے۔لہذا تینوں کو ایک دوسرے کو راستہ تو دینا پڑے گا۔ورنہ راستہ اپنا راستہ خود ہی بنا لے گا۔ گو قیمت چوگنی لے گا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)