احتساب کی کہانی

تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ اب خود مسلم لیگ کے دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کا احتساب ہورہا ہے۔

tauceeph@gmail.com

نیب نے پنجاب میں آپریشن شروع کردیا۔ ایک مضبوط افسر زیر حراست ہے۔ پہلی دفعہ سپیریئر سروس کے افسروں نے ہڑتال کی۔ مسلم لیگ ن اس احتسابی عمل کو انتقام قرار دے رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری اس احتسابی عمل کے پرزور حامی ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پیشگوئی کررہے ہیں کہ دراصل احد چیمہ پر حملہ میاں شہباز شریف پر حملہ ہے اور افسروں کی ہڑتال کے پس پشت شہباز شریف ہیں۔ ہڑتال کرنے والے افسروں کو انتخابات کے لیے نااہل قرار دینا چاہیے۔

دو سال قبل کراچی میں رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا تھا اور ہزاروں فائلیں اپنے قبضے میں لے لی تھیں۔ سندھ بلڈنگ اتھارٹی کے سربراہ فرار ہو کر کینیڈا میں روپوش ہوئے۔ رینجرز اور نیب کی ٹیم نے سندھ کی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر سے اس کے سربراہ ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا تھا۔ نیب والے حکومت سندھ کے مختلف دفاتر سے فائلیں لے گئے تھے۔ سندھ کے بیشتر سیکریٹریوں اور اس وقت کے چیف سیکریٹری اور آئی جی کو ہائی کورٹ سے ضمانتیں کرانی پڑی تھیں۔

ڈاکٹر عاصم کی کرپشن کے الزامات تسلیم کرنے کی وڈیو الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنی۔ آصف زرداری نے رینجرز اور نیب کی کارروائی کو یکطرفہ اور غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ وہ اسلام آباد گئے اور دھواں دار پریس کانفرنس میں غیر جمہوری مقتدرہ پر ان کارروائیوں کی پس پردہ سرپرستی کا الزام لگایا تھا۔

آصف زرداری وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے خواہاں تھے مگر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نیب اور رینجرز کی کارروائیوں کو درست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر عاصم کی اقرار جرم کی وڈیو دیکھی ہے اور یہ وڈیو باقاعدہ طور پر ذرایع ابلاغ کی نذر کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد آصف زرداری دبئی چلے گئے، کئی ماہ تک وہ واپس نہ آئے۔ اس دوران اخبارات میں عزیر بلوچ کے اقبالی بیان کا چرچہ ہوا۔ ڈاکٹر عاصم کئی سال جیل میں بند رہے۔

سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن فرار ہوگئے تھے، وہ ملک آئے اور اشتہارات کی تقسیم میں بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ آصف زرداری کے بیانات کا انداز تبدیل ہوگیا۔ انھوں نے بھارت کی مذمت کرنا شروع کی۔ سعودی عرب فوج بھیجے کے فیصلہ کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ میاں نواز شریف اور ان کے رفقاء کو بدترین کرپشن پر جیل بھیجنے کی تجویز دی۔ بعد ازاں ڈاکٹر عاصم ضمانت پر رہا ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اپنی سرگرمیاں تیز کیں اور اب زرداری متوقع انتخابات میں کامیابی کی پیشگوئی کررہے ہیں۔

پاکستان میں صرف سیاستدانوں کے احتساب کی روایت ہے۔ وہ 1948 سے معتوب قرار پارہے ہیں۔ جب ملک آزاد ہوا توصوبہ سرحد میں خدائی خدمت گار تحریک کے ڈاکٹر خان پریمیئر تھے۔ سندھ میں ایوب کھوڑو صوبے کے چیف ایگزیکٹو تھے۔ ڈاکٹر خان اور ان کے بھائی غفار خان نے کانگریس کی حمایت کی تھی، مگر 14 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام کے بعد ڈاکٹر خان نے اپنا موقف تبدیل کرلیا تھا اور پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ڈاکٹر خان نے گورنر جنرل محمد علی جناح سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

جناح صاحب نے ڈاکٹر خان سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا تھا مگر اس ملاقات سے پہلے کانگریس سے مسلم لیگ میں شامل ہونے والے خان قیوم خان نے اہم حیثیت اختیار کرلی۔ پولیس نے ان کے حکم پر بھابھڑا بازار پشاور میں خدائی خدمت گاروں کے ایک جلوس پر اندھادھند گولیاں برسائیں۔ ڈاکٹر خان کی حکومت برطرف کردی گئی۔

قیوم خان نے اقتدار میں آتے ہی اپنی کتاب 'گنز اینڈ گولڈ' پر جو انھوں نے مسلم لیگ کے خلاف تحریر کی تھی پر پابندی عائد کردی۔ ڈاکٹر خان عبدالغفار خان غدار کہلائے اور برسوں کے لیے جیلوں میں پھینک دیے گئے۔ ایوب کھوڑو کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی سندھ میں مہاجروں کی آبادکاری کی پالیسی پر اعتراض تھا۔ انھیں کراچی میں ہونے والے مذہبی فسادات پر تشویش تھی۔


ایوب کھوڑو بندر روڈ پر ہندوؤں کے محلے کے سامنے پستول لے کر کھڑے ہوگئے تھے اور اعلان کیا تھا کہ بلواکرنے والے پر وہ گولیاں چلائیں گے۔ ان کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا گیا۔ ان کی برطرفی کے بعد نافذ ہونے والے قانون کا اطلاق ماضی پر کیا گیا۔ جب 1954 میں ایوب کھوڑو نے ون یونٹ کی حمایت کی تو وہ پھر سندھ کے وزیراعلیٰ بنادیے گئے۔ اس طرح ڈاکٹر خان بھی ون یونٹ کی حمایت پر تیار ہوئے تو مغربی پاکستان کے پہلے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئے۔

کمیونسٹ پارٹی نے قیام پاکستان کی حمایت کی، جب پاکستان امریکا کا اتحادی بنا تو 1954میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پابندی لگادی گئی۔ مشرقی پاکستان میں 1954 میں صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ کو شکست دی۔ فضل الحق وزیراعلیٰ تھے۔ وہ کلکتہ گئے، ان کے متنازعہ بیان پر جگتو فرنٹ حکومت کو برطرف کردیا گیا۔

1970 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات میں عوامی لیگ اکثریتی جماعت کے طور پر کامیاب ہوئی، مگر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کے ترجمان بن گئے۔ عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ آپریشن شروع ہوا۔ شیخ مجیب الرحمن گرفتار کرلیے گئے۔

عوامی لیگ پر پابندی لگادی گئی۔ عوامی لیگ کے بعض اراکین قومی اسمبلی کی نشستو ںکو خالی قرار دیا گیا اور ضمنی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے کارکن بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔ 20 دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ 1972 میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے سرحد اور بلوچستان سے کامیاب ہونے والی جماعتوں کو حکومتیں بنانے کی دعوت دی۔

میر غوث بخش بزنجوکو بلوچستان اور ارباب سکندر خلیل کو صوبہ سرحد کا گورنر مقرر کیا گیا۔ بلوچستان میں سردار عطاء اﷲ مینگل اور سرحد میں مفتی محمود نے مخلوط حکومتیں قائم کیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ ایران کو بلوچستان میں نیپ حکومت قابل قبول نہیں تھی۔ وزیراعظم بھٹو اور جنرل ٹکا خان کو نیپ کا برسر اقتدار آنا پسند نہیں آیا تھا۔

اسلام آباد کے عراق کے سفارتخانہ سے روس اسلحہ برآمد ہوا۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کی حکومت برطرف کردی۔ مفتی محمود حکومت نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما حیات شیر پاؤ پشاور یونیورسٹی میں بم کے دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگادی تھی۔

نیپ اور بائیں بازو کے معروف رہنماؤں کو گرفتار کر کے حیدرآباد سازش کیس تیار کیا گیا۔ جب 1977 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے پاکستان قومی اتحاد کے رہنما نوابزادہ نصراﷲ نے بلوچستان میں آپریشن ختم کرنے اور حیدرآباد ٹریبول کے خاتمے کے مطالبات پیش کیے تو وزیراعظم بھٹو نے فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کو ان مذاکرات میں بلایا۔ جنرل ضیاء الحق نے سیاسی رہنماؤں کو لیکچر دینے کے انداز میں کہا کہ بلوچستان میں آپریشن ختم کرنے سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔

جب 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو جنرل ضیاء الحق حیدرآباد جیل گئے اور خان عبدالولی خان سے ملاقات کی۔ صحافیوں کو بتایا کہ حیدرآباد سازش کیس 90 فیصد سیاسی ہے۔ کچھ عرصے بعد یہ ٹریبونل ختم ہوا۔ سیاسی قیدی رہا ہوگئے۔ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو محمد خان قصوری قتل کیس میں گرفتار کیا۔ پیپلز پارٹی کے وزراء پر بدعنوانی کے مقدمات دائر کیے گئے اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت جیلوں میں بند کردی گئی۔

بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت کے لیے ہائی کورٹ کے جج اور ایک فوجی افسر پر مشتمل خصوصی بنچ قائم کی گئی مگر کسی بھی رہنما کو بدعنوانی کے الزام میں سزا نہیں ہوسکی۔ 1990 سے 2007 تک آصف زرداری، بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کا احتساب ہوا۔ ان رہنماؤں کو کبھی جیل اور کبھی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر پاکستان کا آئین پامال کرنے والے حکمرانوں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور ان کی حکومتوں کو آئینی جواز فراہم کرنے والوں کے احتساب کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ اب خود مسلم لیگ کے دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کا احتساب ہورہا ہے۔ بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی آزاد خارجہ پالیسی ان کے احتساب کا اصل سبب بنی۔ آصف زرداری اور بیرسٹر اعتزاز احسن کو تاریخ کے راستہ میں جھانکنا چاہیے اور ضرور سوچنا چاہیے کہ اس ملک میں سیاستدانوں کے احتساب کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور پھر احتساب کے نعرہ کا حقیقی فائدہ کس کو ہوگا؟
Load Next Story