27 لاکھ کی گودڑی

70ء کی دہائی میں منظر عام پر آنے والے ان کے مجموعہ کلام ’’چھپر میں چھڑیوں‘‘ کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی تھی۔

پیر پاگارو کی طرح سندھ کے دوسرے بڑے پیر اور سروری جماعت کے روحانی پیشوا مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ، پیپلز پارٹی کے بانی رہنماؤں میں سے ایک اور چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کے قریبی و با اعتماد ساتھی تھے۔ حیدرآباد سے آگے قومی شاہراہ پر ہالہ میں واقع مخدوم سرورنوح کی درگاہ کے سجادہ نشین تو تھے ہی، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین اور قومی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ سندھی زبان کے بڑے شعراء میں گنے جاتے تھے۔

70ء کی دہائی میں منظر عام پر آنے والے ان کے مجموعہ کلام ''چھپر میں چھڑیوں'' کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی تھی، سندھی ادب کی ترویج واشاعت کے لیے سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے ادارے سندھی ادبی بورڈ کے ایک سے زائد بار سربراہ رہ چکے تھے اورعلمی وادبی سرگرمیوں کی دل کھول کر سرپرستی کیا کرتے تھے، حیدرآباد کے علاقے ہیرآباد میں نور محمد ہائی اسکول کے مسلم ہاسٹل کے بالمقابل اور وٹرنری اسپتال کے قریب مخدوم صاحب کے بنگلے میں ان ہی کی زیر صدارت اکثر مشاعرے ہوا کرتے تھے جس کے منتظم تلک چاڑی پر واقع اورینٹل کالج کے پرنسپل مخدوم امیر احمد ہوا کرتے تھے، 60ء کے عشرے میں دو ایک بار میں بھی ان مشاعروں میں شریک ہوا تھا، یوں مجھے مخدوم صاحب کا کلام خود ان ہی کی زبانی بالمشافہ سننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

اْن دنوں جسے دیکھو طالب المولیٰ کا کلام ''تو دلڑی یار دھتاری پر پوئے کان کئیی پوئیواری'' گنگنا رہا ہوتا تھا۔ ان کے بڑے صاحبزادے اور بعد میں جانشین کی ذمے داریاں سنبھالنے والے مخدوم امین فہیم کوبھی شاعری سے شغف تھا، اور اپنی گوناں گوں سیاسی وسرکاری مصروفیات میں سے اس کے لیے وقت نکال لیتے تھے۔

ایک زمانے میں نامورگلوکارہ رونا لیلیٰ کی بہن دینا لیلیٰ سے ان کی شادی ہر محفل میں موضوع بحث ہوا کرتی تھی، اپنے والد بزرگوارکے برعکس یہ پیپلز پارٹی کی ہر مرکزی حکومت میں وزیر رہے، بینظیر بھٹوکے ویسے ہی قریبی ساتھی اور بااعتماد مشیر تھے جیسے بڑے مخدوم صاحب چیئرمین بھٹوکے ہوا کرتے تھے، پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین بنی تو اس کی قیادت بھی ان کو سونپی گئی۔

غلام مصطفیٰ جتوئی کے پارٹی چھوڑنے کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مخدوم خلیق الزماں نے پی پی پی سندھ کی قیادت سنبھالی، میر مرتضیٰ بھٹو کی وطن واپسی کے بعد یہ ان سے جا ملے جس کے نتیجے میں پارٹی اور قیادت سے ان کے اختلافات پیدا ہوئے، اس نازک موڑ پر مخدوم امین فہیم نے کمال دانشمندی سے تمام معاملات کو سنبھالا اور اپنے خاندان کی سیاسی وابستگی پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ مخدوم طالب المولیٰ سیاسی اور روحانی لحاظ سے جتنے بااثر اورطاقتور تھے اتنے ہی سادہ لوح اور سیدھے بھی تھے، بالفاظ دیگر وہ صحیح معنوں میں ایک درویش صفت انسان تھے۔

ایک بار جب وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہالہ سے روانہ ہونے والے تھے، مجھے ان کی فون کال وصول کرنے کا اتفاق ہوا جو انھوں نے ایڈیٹر سراج میمن سے بات کرنے کے لیے کی تھی۔ انھیں شکایت تھی کہ پارٹی کا ترجمان ہوتے ہوئے بھی ہمارا اخبار انھیں وہ کوریج نہیں دیتا جو پارٹی کا سینئر وائس چیئرمین ہونے کی حیثیت سے ان کا حق ہے۔

مجھے ان کے کہے ہوئے الفاظ آج بھی اچھی طرح یاد ہیں کہ ''میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے خبروں میں اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی بھٹو صاحب کو دی جاتی ہے، مجھے وہ ڈسپلے بھلے نہ دیں جو آپ لوگ انھیں دیتے ہیں لیکن ثانوی حیثیت تو دیں کہ ان کے بعد پارٹی میں دوسری پوزیشن مجھے حاصل ہے، میری خبر اور تصویر بیشک بھٹو صاحب کی خبر اور تصویر سے ایک انچ نیچے رکھیں مگر لگائیں تو، آپ لوگوں نے تو میرا سرے سے بائیکاٹ کر رکھا ہے، میری خبریں بالکل نہیں لگتیں، سراج سے کہنا میرے صبرکا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے،اب میں یہ زیادتیاں مزید برداشت نہیں کروں گا، مجھے بھٹو صاحب سے شکایت کرنے پر مجبور نہ کرے ورنہ اچھا نہ ہوگا ۔''


سراج آئے تو میں نے انھیں مخدوم صاحب کی شکایت ان ہی کے الفاظ میں من و عن کہہ سنائی، وہ ان کی ناراضگی کا جان کر پریشان ہو گئے اور اسے دور کرنے کی انوکھی ترکیب ڈھونڈ نکالی جس کا علم مجھے بعد میں ہوا۔

سلیم ہالائی اْن دنوں محکمہ اطلاعات سندھ میں ڈائریکٹر پریس کی حیثیت سے تعینات تھے، ان کا شمار مخدوم صاحب کے قریبی آدمیوں میں ہوتا تھا، سراج صاحب نے پہلی فرصت میں ان سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں ان کے چھوٹے بھائی انور ہالائی کا تقرر بطور سب ایڈیٹر صبح کی شفٹ میں عمل میں آیا جس کا انچارج میں تھا، یہ اپنے بھائی سلیم ہالائی سے بھی زیادہ مخدوم صاحب کے قریب تھے جس کی وجہ ان کا شاعر ہونا تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں فارسی الفاظ اگر، مگر اور لیکن کثرت سے استعمال کرتے تھے جو بات سراج کو سخت ناپسند تھی اور وہ اس پر انور ہالائی کو ٹوکا بھی کرتے تھے۔

بہرحال، اپنا کام نکالنے کے لیے انھوں نے اسے اپنے کمرے میں بلاکر پہلے دوستانہ ماحول میں گپ شپ کی، چائے پلائی اور پھر مخدوم صاحب کی ناراضگی دور کرانے میں مدد چاہی۔ وہ تیار ہوگیا تو سراج نے اس سے مخدوم صاحب کو فون کروایا کہ اس کا (انور کا) کام ہی ان کی خبروں کو دیکھنا اور انھیں اہمیت کے مطابق ڈسپلے دینا ہے، اب اگر خبریں موصول ہی نہیں ہوں گی تو وہ کیا کرسکتا ہے وغیرہ۔ مخدوم صاحب کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو اس نے روبرو حاضر ہوکر وضاحت پیش کرنے کی اجازت چاہی جو فوراً ہی مل گئی، دوسرے دن ٹیپو سلطان سوسائٹی میں واقع مخدوم صاحب کے بنگلے پر ملاقات کا وقت طے ہوا اور سراج صاحب نے اسے وہ سبق رٹایا جو مخدوم صاحب کو سنانا تھا۔

دفتر میں انور ہالائی اور میری دوستی کے قصے مشہور تھے، اکثر وبیشتر ساتھ آتے جاتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ ہم ایک ہی جگہ تھوڑے فاصلے پر رہتے تھے، میں سی ون ایریا میں واقع محمدی کالونی (پرانا عثمان گوٹھ) میں رہتا تھا جب کہ اس کا گھر لالو کھیت ڈاکخانہ سے ناظم آباد جانے والی سڑک پر طارق کلینیکل لیبارٹری کے پیچھے گلی میں تھا جہاں وہ اپنے شادی شدہ بیٹے کے ساتھ رہتا تھا جو مشہور پیتھالوجسٹ ڈاکٹر شاہدکی مذکورہ لیبارٹری میں بطور ٹیکنیشن ملازم تھا۔

مجھے اس کا پتہ تب چلا جب انور ہالائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ ٹیپو سلطان سوسائٹی کہاں ہے۔ میرے بتانے پر بولا''تم بھی میرے ساتھ چلو، سراج صاحب نے ٹیکسی کاکرایہ دیا ہے، مخدوم صاحب سے مل لینا، پھر گھر بھی ساتھ ہی چلیں گے۔

مجھے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ پرانے طرز کے بنگلے کے صحن میں محافظ اور نوکر اِدھر اْدھر ٹہل رہے تھے، سب انور ہالائی کو جانتے تھے، ہمیں فوراً ہی ملاقاتی کمرے میں جانے کی اجازت مل گئی، دبیز قالین بچھے تھے، صوفوں اورکرسیوں کا نام و نشان نہ تھا، مخدوم صاحب خود بھی فرشی نشست پر تشریف فرما تھے۔ انور نے میرا تعارف کرایا تو کمال شفقت اور مہربانی سے پیش آئے، خیریت پوچھی اور حال احوال معلوم کیا، پھر انور کی طرف متوجہ ہوئے اور آنے کی غرض وغایت دریافت فرمائی۔

میں اس دن انورکی فنکاری کا قائل ہوگیا، اس نے سراج صاحب کا رٹایا ہوا سبق کچھ ایسی مہارت اور چابکدستی سے سنایا کہ مخدوم صاحب بالکل ہی پسیج گئے اور انور سے مخاطب ہوکر فرمایا ''پھر تو مجھ سے بڑی بھول ہوگئی، میں نے بیچارے سراج میمن پر بلا وجہ شک کیا اور سمجھا وہ جان بوجھ کر میری خبریں نہیں لگاتا، یہ تو اچھا ہوا بھٹو صاحب کی مصروفیات کی وجہ سے میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی ورنہ غریب کی نوکری جاتی۔ بہرحال، تم سراج سے میری طرف سے معذرت کرلینا اورکہنا اپنا دل صاف کرلے ۔'' سادہ لوحی، اعلیٰ ظرفی اور بڑے پن کا یہ مظاہرہ وہ روحانی پیشوا کر رہا تھا جس کے مرید سندھ بھر میں پھیلے ہوئے تھے اور جس کی سروری جماعت 27 لاکھ کی گودڑی کہلاتی تھی۔
Load Next Story