روک سکتے ہو تو روک لو
اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کا گراف دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کے مقدمے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 62,63 پر پورا نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔ فیصلے کے مطابق نواز شریف کی نااہلی کے بعد بطور پارٹی سربراہ تمام اقدامات، احکامات اور ہدایات کالعدم قرار دے دی گئی ہیں اور یوں نوازشریف کی جانب سے بطور پارٹی صدر کی جانے والی سینیٹ کے امیدواروں کی نامزدگیاں بھی کالعدم ہوگئی ہیں۔
جس کے بعد پنجاب میں سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے کئی سوالات اْٹھ گئے ہیں۔ چند ماہ قبل تک اس بات کی قوی امید کی جاری تھی کہ حکمران جماعت مسلم لیگ اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جس کے بعد اْ سے دونوں ایوانوں میں اکثریت مل جائے گئی۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد کچھ ایسے قانون پاس کر سکتی ہے جس سے نواز شریف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور کچھ ایسے قانون بھی منظور کرسکتی ہے جس سے اداروں کے اختیارات کو محدود کیا جاسکے۔ لہٰذا مسلم لیگ کو سینیٹ میں اکثریت سے محروم کرنے کی حکمت علمی تیار کی گئی۔
سینیٹ میں ہر پارٹی کو زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا حق حاصل ہے مگر جمہوری اصولوں اور اخلاقیات کی حدود میں سب کچھ ہو تو اچھا لگتاہے مگریہاں تو اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے ہر غیر جمہوری اور غیر اخلاقی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کا ایک میلہ سج گیا ہے جہاں ممبر صوبائی اسمبلی کی قیمت لگانے کے لیے منڈی میں بیوپاری خرید وفروخت کر رہے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کے اس عمل کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ کا ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
کپتان کی قیادت میں تحریک انصاف، شیخ رشید اور طاہر القادری تواس بات پر بضد تھے کہ سینیٹ کے انتخابات سے پہلے اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور قومی انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلیاں نئے سینیٹرز کا انتخاب کریں۔یہ بات اس مفروضے پر کی جارہی تھی کہ آیندہ انتخابات میں تمام جماعتیں مل کر مسلم لیگ کو پنجاب میں شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گی مگر اب پنجاب کی سیاسی صورت حال تبدیلی ہوچکی ہے، نواز شریف کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔
عوام یہ سوال بھی اْٹھارہے ہیں کہ پانامہ میں پانچ سو کے قریب جن شخصیات کے نام سامنے آئے تھے ان کے خلاف اب تک کیا کارروائی ہوئی۔ ایک جانب نواز شریف کے خلاف احتساب کا عمل جاری ہے تو دوسری طرف بلوچستان میں راتوں رات وزیر اعلیٰ کو تبدیل کیا گیا اور خرید وفروخت کا کاروبارکے نتیجے میں بلوچستان میں نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب عمل میں آیا۔اس سارے عمل سے یہ حقیقت آشکار ہوکر سامنے آگئی کہ مسلم لیگ کو ہر صورت میں ایوان بالا میں اکثریت سے محروم رکھنا ہے۔
لہٰذامفاہمت اور مصلحت پسندی کی سیاست کے بے تاج بادشاہ آصف علی زرداری نے اپنی جادوگری، اپنے تجربے اور کمال ذہانت سے بلوچستان کے دبنگ وزیر اعلیٰ کے خلاف ایسا جال بنایاکہ انھوں نے کسی مزاحمت کے بغیر وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کے ساتھ مسلم لیگ سینیٹ کی پانچ سیٹوں سے محروم ہوگئی۔
پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں کوئی نشست نہیں مگر وہاں بھی اْس کے امیدوار سینیٹ کے لیے سر گرم ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میںارب پتی شخصیات سینیٹ کی امیدوار ہیں۔ سندھ میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے ۔ایم کیو ایم کی اندرونی خلفشار کی وجہ سے سندھ میں ایم کیو ایم کی چار نشستوں پر بھی پیپلز پارٹی کی نظریں ہیں امید یہی کی جارہی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سے قبل تک ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات ختم نہ ہوئے تو ایم کیو ایم کی چار نشستیں بھی پیپلز پارٹی کی جھولی میں گر جائیں گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سینیٹ کے انتخابات پر جہاں خدشات اور اندیشوں کے بادل منڈلا رہے ہیں ، وہاں پنجاب اسمبلی میں سینیٹ کے امیدواروںکا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے کیو نکہ معروف قانون دان بیرسٹر فروغ نسیم کا یہ کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن بروقت ہوں گے اور فیصلے کے بعد صرف ن لیگ الیکشن سے آؤٹ ہوئی ہے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے۔گویا مسلم لیگ پنجاب سے بھی سینیٹ میں اپنے امیدار کامیاب کرنے میں ناکام رہے گی۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا اس صورت حال پر کہنا تھا کہ سینیٹ ٹکٹ منسوخ ہونے پر تمام ضمنی الیکشن بھی کالعدم قرار دیدیے جائیں گے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی اہلیت پر بھی حرف آئے گا۔ نواز شریف نے جو فیصلے کیے ہیں وہ عدالتی فیصلے کے بعد کالعدم ہوچکے ہیں ان کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ ملک میں ایک ہیجان اور بحرانی کیفیت ہے۔
وزیراعظم،کابینہ پر سوالیہ نشان اٹھ چکے ہیں چونکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے نامزد کیا تھا اس لیے ان کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھ سکتے ہیں امکان ہے ان کو وزارت عظمیٰ سے نااہل کرنے کے لیے کوئی بھی سپریم کورٹ میں درخواست دے سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان کا یہ کہنا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ تفصیلی عدالتی فیصلہ ملنے سے قبل سینیٹ انتخابات سے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تفصیلی فیصلہ اگر سینیٹ کے انتخابات سے قبل آتا ہے تو یقینا ًمسلم لیگ فیصلے کے خلاف اپیل میںبھی جاسکتی ہے ان حالات میں یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخانات وقت پر ہوں گے ؟ مسلم لیگ کے امید وار کس حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے؟
سینیٹ کے انتخابات کا رزلٹ کچھ بھی آئے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کا گراف دن بہ دن بڑھ رہا ہے جس کی تازہ مثال لودھراں میں تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار کے مقابلے میں مسلم لیگی امیدوارکی کامیابی ہے جس کے بعد مریم نواز کا یہ ٹویٹ پنجاب کے لوگوں کے دل کی آواز بن گیا ہے۔
''روک سکتے ہو تو روک لو''ایک طرف نواز شریف کو مائنس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسر ی طرف نواز شریف ''لیڈر'' کی حیثیت سے تمام مصائب اور مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں،ایک طرف مقدمات اور عدالتیں ہیں تو دوسری طرف نواز شریف کا اپنے مخالفین کے سامنے ڈٹ جانا ہے اور یہی ان کی جیت ہے۔