ایم کیو ایم کا 23 نکاتی منشور
اگر ایم کیو ایم کے منشور کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس میں عوام کو ریلیف مہیا کرنے کی ایک امنگ اور عملیت۔۔۔
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے الیکشن 2013 کے لیے 23نکات پر مشتمل انتخابی منشور بااختیار عوام خوشحال پاکستان کے عنوان سے اجرا کردیا جب کہ منشور میں ملک بھر کے مظلوم عوام کی توقعات ، خواہشات اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں میں ٹھوس اصلاحات کے جو انقلابی اعلانات کیے گئے وہ اگر بروئے لائے گئے تو یقیناً ملکی سماجی ماحول میں تبدیلی کا فائدہ عوام کو ہی پہنچے گا۔
ایم کیوایم کے انتخابی منشور کا اعلان پیر کو ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقعے پر ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ز نسرین جلیل ، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ، اراکین رابطہ کمیٹی ، حق پرست امیدوار بھی موجود تھے ۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے منشور کے خاص خاص نکات واضح کرتے ہوئے شعبہ تعلیم کے حوالے سے دہرے تعلیمی نظام کے خاتمہ ، تعلیم پر اخراجات کو قومی پیداوار کے 5 فیصد تک لے جانے، صوبوں کے بجٹ کا 20 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنے ، زرعی آمدنی پر ٹیکس نافذ کرنے ، تمام شہروں میںماحول دوست بسیں متعارف کرانے ، ملک میں خودمختارمقامی حکومتوں کے نظام جب کہ مقامی حکومتی نظام کے انتخابات پاکستان میں عام انتخابات کے 3 ماہ کے اندر اندر کرائے جانے اور تمام میٹرو پولیٹن شہروں میں پولیس سے ٹریفک کے انتظام کے اختیارات واپس لے کرانھیں شہری اور ضلعی حکومتوں کے تحت رکھنے کی اہم تفصیلات جاری کیں۔اسی طرح شہروں میں کم قیمت رہائشی منصوبوں کی حوصلہ افزائی ، عوام کو بہتر طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے صحت کے شعبے پر سرکاری اخراجات میںاضافہ خوش آیند اقدام ہوگا ۔
رعایتی میڈیکل انشورنس اسکیمیں ، مہنگائی پرقابوپانے کے سلسلے میں سرکاری اور نجی سفری ذرایع، تیل ، پیٹرول اور دیگراشیائے صرف کی قیمتوں کے ایک مقررہ مدت میں کم کیے جانے، توانائی کے بحران پر قابو پانے ، صنعتی شعبے کو مراعات دینے ، روزگارکے زیادہ مواقعے پیداکرنے کے منصوبے قابل عمل کہے جاسکتے ہیں۔یہ سلوگن کہ بغیر ٹیکسیشن کے کوئی نمایندگی نہیں شرمندہ تعبیر ہوا تو نظم حکمرانی میں صحت مند اقتصادی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور بھی ایم کیوایم کے منشور کا حصہ بتایا گیا۔ منشور کے مطابق ہر ضلع میں اولڈ ایج ہوم بنائے جائیں گے، معذور افراد کے لیے قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں متعارف کروائی جائیں گی۔
صوبائی احتساب بیورو قائم کیے جائیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک قومی پالیسی فوری ترتیب دی جائے گی، ملک کو اسلحے سے پاک ، اس کی پیداوار، تجارت، غیر قانونی نقل وحمل اور درآمد کو روکا جائے گا۔ خواتین، بچوں اور مذہبی اقلیتوںکے حقوق: پر منشور واضح کرتے ہوئے انھوں نے خواتین پرتشدد، بچوں سے زیادتی، بچوں کی شادی، کارو کاری، وِنی، قرآن سے نکاح، تیزاب پھینکنا، بے گار لینا اور چائلڈلیبر کے خلاف مؤثر قانون سازی کا یقین دلایا۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے بتایا کہ فوری طور پر گیس اور بجلی کے منصوبوں کی تکمیل ممکن بنائی جائے گی، سی این جی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی۔ نوجوانوں کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹر زقائم کیے جائیں گے اورمیٹرک سے فارغ التحصیل طلبا وطالبات کو داخلہ دیاجائے گا،آئینی ترمیم کرکے دوہری شہریت کے حامل سمندر پارپاکستانیوں کے انتخابات میں حصہ لینے پر عائد پابندی ختم کی جائے گی ، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے آئینی حق کویقینی بنایاجائے گا۔ انھوں نے کہاکہ ملک کی خارجہ پالیسی اور مسئلہ کشمیر پر بھی پارٹی پالیسی واضح کی۔
اگر ایم کیو ایم کے منشور کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس میں عوام کو ریلیف مہیا کرنے کی ایک امنگ اور عملیت پسندانہ طرز عمل کے تحت ان اہداف کی تکمیل کا عزم جھلکتا ہے۔ پارٹی کا ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کا عزم لائق تعریف ہے مگر اس ''مشن امپاسیبل ''کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جس اجتماعی دانش اور مشترکہ سیاسی جدوجہد اور ریاستی وحکومتی اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہوگی غالباً یہی چیز ملک میں امن وامان کی بحالی اور تشدد سے پاک معاشرے کی بقا ، رواداری اور جمہوری عمل کی کامیابی کی کلید ثابت ہوگی۔
ایم کیوایم کے انتخابی منشور کا اعلان پیر کو ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقعے پر ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ز نسرین جلیل ، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ، اراکین رابطہ کمیٹی ، حق پرست امیدوار بھی موجود تھے ۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے منشور کے خاص خاص نکات واضح کرتے ہوئے شعبہ تعلیم کے حوالے سے دہرے تعلیمی نظام کے خاتمہ ، تعلیم پر اخراجات کو قومی پیداوار کے 5 فیصد تک لے جانے، صوبوں کے بجٹ کا 20 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنے ، زرعی آمدنی پر ٹیکس نافذ کرنے ، تمام شہروں میںماحول دوست بسیں متعارف کرانے ، ملک میں خودمختارمقامی حکومتوں کے نظام جب کہ مقامی حکومتی نظام کے انتخابات پاکستان میں عام انتخابات کے 3 ماہ کے اندر اندر کرائے جانے اور تمام میٹرو پولیٹن شہروں میں پولیس سے ٹریفک کے انتظام کے اختیارات واپس لے کرانھیں شہری اور ضلعی حکومتوں کے تحت رکھنے کی اہم تفصیلات جاری کیں۔اسی طرح شہروں میں کم قیمت رہائشی منصوبوں کی حوصلہ افزائی ، عوام کو بہتر طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے صحت کے شعبے پر سرکاری اخراجات میںاضافہ خوش آیند اقدام ہوگا ۔
رعایتی میڈیکل انشورنس اسکیمیں ، مہنگائی پرقابوپانے کے سلسلے میں سرکاری اور نجی سفری ذرایع، تیل ، پیٹرول اور دیگراشیائے صرف کی قیمتوں کے ایک مقررہ مدت میں کم کیے جانے، توانائی کے بحران پر قابو پانے ، صنعتی شعبے کو مراعات دینے ، روزگارکے زیادہ مواقعے پیداکرنے کے منصوبے قابل عمل کہے جاسکتے ہیں۔یہ سلوگن کہ بغیر ٹیکسیشن کے کوئی نمایندگی نہیں شرمندہ تعبیر ہوا تو نظم حکمرانی میں صحت مند اقتصادی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور بھی ایم کیوایم کے منشور کا حصہ بتایا گیا۔ منشور کے مطابق ہر ضلع میں اولڈ ایج ہوم بنائے جائیں گے، معذور افراد کے لیے قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں متعارف کروائی جائیں گی۔
صوبائی احتساب بیورو قائم کیے جائیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک قومی پالیسی فوری ترتیب دی جائے گی، ملک کو اسلحے سے پاک ، اس کی پیداوار، تجارت، غیر قانونی نقل وحمل اور درآمد کو روکا جائے گا۔ خواتین، بچوں اور مذہبی اقلیتوںکے حقوق: پر منشور واضح کرتے ہوئے انھوں نے خواتین پرتشدد، بچوں سے زیادتی، بچوں کی شادی، کارو کاری، وِنی، قرآن سے نکاح، تیزاب پھینکنا، بے گار لینا اور چائلڈلیبر کے خلاف مؤثر قانون سازی کا یقین دلایا۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے بتایا کہ فوری طور پر گیس اور بجلی کے منصوبوں کی تکمیل ممکن بنائی جائے گی، سی این جی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی۔ نوجوانوں کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹر زقائم کیے جائیں گے اورمیٹرک سے فارغ التحصیل طلبا وطالبات کو داخلہ دیاجائے گا،آئینی ترمیم کرکے دوہری شہریت کے حامل سمندر پارپاکستانیوں کے انتخابات میں حصہ لینے پر عائد پابندی ختم کی جائے گی ، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے آئینی حق کویقینی بنایاجائے گا۔ انھوں نے کہاکہ ملک کی خارجہ پالیسی اور مسئلہ کشمیر پر بھی پارٹی پالیسی واضح کی۔
اگر ایم کیو ایم کے منشور کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس میں عوام کو ریلیف مہیا کرنے کی ایک امنگ اور عملیت پسندانہ طرز عمل کے تحت ان اہداف کی تکمیل کا عزم جھلکتا ہے۔ پارٹی کا ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کا عزم لائق تعریف ہے مگر اس ''مشن امپاسیبل ''کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جس اجتماعی دانش اور مشترکہ سیاسی جدوجہد اور ریاستی وحکومتی اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہوگی غالباً یہی چیز ملک میں امن وامان کی بحالی اور تشدد سے پاک معاشرے کی بقا ، رواداری اور جمہوری عمل کی کامیابی کی کلید ثابت ہوگی۔