نان پرسن
کیا مشرف صاحب خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں کہ انھوں نے ’’لاکھوں منتظر آنکھوں‘‘ کی باتوں پر یقین کر لیا؟
سیاستدانوں کی کمزوریوں، نااہلیوں اور نالائقیوں کا فائدہ اٹھا کر طاقتور جرنیلوں نے ماضی قریب میں ملکی اقتدار پر قبضہ کرکے جو ظلم کیا، اِس کی نحوستوں سے نجات حاصل نہیں ہو رہی۔ جنرل ایوب خان نے اپنے دورِ اقتدار کے دوران پاکستان میں امریکیوں کے پاؤں مضبوط کرنے کا جو ابتدائی کھیل کھیلا، اِس کے نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں اور نجانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اِن منفی اقدامات کے باوجود جنرل ایوب خان خود کو پاکستان اور پاکستان کے عوام کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ اقتدار سے علیحدہ ہونے کے باوجود آخری سانسوں تک وہ اسی وہم میں مبتلا رہے کہ قوم کو اب بھی اُن کی ضرورت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ عملی سیاست میں کودنے سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہو گئے، وگرنہ دل جلے عوام خصوصاً مشرقی پاکستان کی عوام کے ہاتھوں نہ جانے ان کی کیا درگت بنتی۔ جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف (شومئی قسمت سے بندوق کے زور پر تینوں ہی اس ملک کے صدور بنے رہے) کے آمرانہ اور غاصبانہ کردار کو اِس ملک کی تاریخ سے نکال دیا جائے تو مملکتِ خداداد کی تاریخ کا ہر ورق کس قدر روشن اور پُرامن محسوس ہوگا۔
اِن تینوں کی وجہ سے ہماری تاریخ کے 66 برسوں کے تقریباً تین عشرے منافقت اور استحصال سے لتھڑے محسوس ہوتے ہیں۔ تینوں نے اپنے اپنے دور میں امریکی پنجوں کو مضبوط کیا، ملک میں ہمہ گیر تعصب و نفرت کے بیج بوئے اور اپنے مفادات کی خاطر خون بہانے سے گریز نہ کیا۔ اور اب جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں۔ وہ تقریباً آٹھ سال مطلق اقتدار کے مزے اُڑاتے رہے لیکن جی نہ بھرا۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیاء نے اپنے اپنے ادوار میں تو پھر بھی ''شرمو شرمی'' امریکا کو اِس کھل کھیلنے کی اجازت نہ دی لیکن جنرل مشرف نے تو سارے حجاب ہی اٹھا دیے۔
ہم اُن کے اقتدار کے دنوں کو یاد کرکے اذیت محسوس کرتے ہیں لیکن حیرانی کی بات ہے کہ یہ صاحب نادم ہوئے بغیر پھر بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہی ملک کے نجات دہندہ بن سکتے ہیں اور ''ایک بار پھر'' ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا آزمائے ہوئے کو پھر آزمانے کا خطرہ مول لیا جائے؟ ابھی تو لوگوں کا اِس بات پر اشتعال کم نہیں ہوا تھا کہ پانچ سال قبل صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے انھیں پورے پروٹوکول کے ساتھ ملک سے کیوں جانے دیا کہ اب وہ پھر سے آ دھمکے ہیں۔ انھیں حیرت ہو رہی ہے کہ کراچی میں اُن کا ''لاکھوں'' میں استقبال کیا گیا نہ انھیں جلسے کی اجازت دی گئی۔
وہ اپنے ''ساتھیوں'' پر برہم ہیں: وہ لاکھوں لوگ کہاں گئے جن کی آمد کا مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا؟ کیا مشرف صاحب خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں کہ انھوں نے ''لاکھوں منتظر آنکھوں'' کی باتوں پر یقین کر لیا؟ اُنہیں اپنا طرز حکمرانی یاد نہیں؟ ابھی وہ اِسی ادھیڑ بن میں تھے کہ اُن پر کسی دل جلے نے جوتا پھینک دیا ہے جس سے رہی سہی ''توقیر'' اور ''مقبولیت'' بھی ہوا ہو گئی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ جنرل مشرف کی شکل میں ہمارے سابق جرنیلوں نے یہ توہین آمیز منظر بھی دیکھنا تھا۔
29 مارچ 2013 کو پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر سندھ ہائیکورٹ میں پیشی کے دوران ایک وکیل نے غصے میں جوتا پھینک دیا تھا۔ مشرف پر جوتا پھینکنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف پر پھینکے گئے جوتے کا عمل اپنی طرز اور نوعیت میں پہلا اور اوّلین فعل نہیں ہے۔ اِس سے قبل بھی دنیا بھر میں اہم شخصیات پر جوتے پھینکے جاتے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر 14 دسمبر 2008 کو امریکا کے (سابق) صدر جارج ڈبلیو بش نے ''فاتح'' کی حیثیت سے عراق کا دورہ کیا تو بغداد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک عراقی صحافی منتظر زیدی نے یہ کہتے ہوئے بش پر دو جوتے پھینکے: ''عراقی عوام کی طرف سے تمہارے لیے یہ پہلا جوتا تمہارے لیے الوداعی بوسہ ہے اور یہ دوسرا جوتا عراق کی اُن بیواؤں اور یتیم بچوں کی طرف سے ہے جن کے شوہر اور باپ تمہارے فوجیوں نے شہید کر ڈالے۔'' سات اپریل 2008 کو سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کو بھی اُس وقت جوتے کے حملے کا سامنا کرنا پڑا جب وہ نئے نئے اسمبلی رکن کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد اسمبلی سے باہر نکل رہے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جوتا پھینکنے والے کا نام آغا جاوید پٹھان تھا اور وہ پیپلز پارٹی کے ایک کارکن تھے۔ دو فروری 2009 کو چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ لندن میں اپنے ہم منصب گورڈن براؤن کے ساتھ کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچر دے رہے تھے کہ اچانک سامعین میں سے ایک شخص اٹھا اور اُس نے چیخ کر وزیر اعظم وین کی طرف جوتا پھینکا۔ جوتا مارنے والا شخص جرمن باشندہ اور اُس کا نام مارٹن تھا۔ چھ مارچ 2009 کو ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے ایک موٹر کیڈ پر بھی کسی نے جوتا پھینک دیا تھا۔ اِسی طرح کا ایک مبینہ واقعہ اُن کے ساتھ اس وقت بھی پیش آیا تھا جب وہ امیر کبیر یونیورسٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
یکم اکتوبر 2009 کو آئی ایم ایف کے سربراہ ڈومنک اسٹراس کاہن پر بھی ایک طالب علم نے جوتا مار دیا تھا جب وہ استنبول یونیورسٹی میں خطاب کر رہے تھے۔ جوتا مارنے والا طالب علم یہ کہہ کر بھی چلایا تھا: ''آئی ایم ایف والو، دفع ہو جاؤ، تم لوگ ہمارا خزانہ لوٹ رہے ہو ۔'' نومبر 2009 میں سربیا کے نائب صدر گورڈانا کومک پر بھی جوتا پھینکا گیا تھا۔ بھارت کے وزیر داخلہ چدم برم کو ایک بھارتی صحافی جرنیل سنگھ نے جوتا مارا تھا۔ ایک انتخابی ریلی کے دوران ڈاکٹر من موہن سنگھ پر بھی 26 اپریل 2009 کو احمد آباد میں ایک شخص نے جوتا پھینک دیا تھا۔ اسی برس کرناٹک کے وزیرِ اعلیٰ وی ایس یاد روپا پر چندر شیکھر نامی ایک شخص نے ہوائی چپل پھینک دی تھی ۔
دیگر معروف بھارتی سیاستدان جنہوں نے جوتوں کے حملوں کا سامنا کیا، اُن میں نوین جنڈال، ایل کے ایڈوانی، اروندکجروال اور راہول گاندھی بھی شامل ہیں۔ سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر پر بھی خرطوم میں جوتے سے حملہ کیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ بھی پندرہ اگست 2010کو جوتے کے حملے کا نشانہ بنے تھے۔ چار ستمبر 2010 کو سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر پر جوتوں اور انڈوں سے وارکیا گیا تھا۔ گیارہ ستمبر 2010 ہی کو یونان کے وزیرِ اعظم جارج پینڈرو کو جوتا مار دیا گیا تھا۔ آسٹریلیا کے سابق وزیرِ اعظم جان ہاورڈ پر بھی جوتے پھینکے گئے تھے۔ مصر کے سابق ''مردِ آہن'' اور آمر حسنی مبارک بھی ایک جلسے میں جوتے کے حملے کا سامنا کر چکے ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم جنرل (ر) پرویز مشرف کو ابھی اِس طرح کے مزید کتنے دل شکن اور توہین پر مبنی مناظر دیکھنا پڑیں گے لیکن ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ پاکستان واپس آ کر وہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے لیے مسئلہ بنے ہیں اور بن رہے ہیں۔ ایسے میں کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ وہ لندن میں دوبارہ ایجور روڈ پر بنے اپنے گھر میں عافیت کی زندگی گزارنے پر غور فرمائیں؟ سچی بات تو یہی ہے کہ آج سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستانیوں کے لیے کچھ بھی نہیں رہے۔ بقول شخصے، وہ محض NON-PERSON بن کر رہ گئے ہیں لیکن وہ اِس زمینی حقیقت کو ماننے اور تسلیم کرنے کے لیے فی الحال تیار نظر نہیں آتے۔