تعلیمی مسائل اور ان کے حل کے لیے تجاویز…
نصاب مرتب کرتے وقت ٹیکسٹ بک بورڈ اوراس سے منسلک دوسرے اداروں میں ماہرین تعلیم کو تعینات کر کے ان کی رائے کے مطابق۔۔۔
تعلیم کی اہمیت سے انکار کسی بھی دور میں نہیں کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تعلیم کے بغیر کسی معاشرے میں امن و امان، عدل و انصاف، ترقی و خوشحالی نہیں رہی ہے۔ امن کے لیے بنیادی شرط لوگوں کو تعلیم کے زیور سے آراستگی ہے امن کا حقیقی دُشمن ہی جہالت ہے جس معاشرے میں لوگوں کو ان کے صحیح مقام، فرائض اور حقوق کا علم نہ ہو وہ معاشرے صحیح معنوں میں معاشرہ رہتا ہی نہیں دُنیا کے جن ممالک نے تعلیم کو اپنا نصب العین بنایا ان ممالک اگرچہ آزادی ہم سے بعد میں حاصل کی لیکن معاشی ، اقتصادی، سیاسی، سماجی اور جدید سائنسی طریقہ میں ہم سے کافی آگے نکل چکے ہیں۔
آزادی حاصل کرنے کے65 سال بعد بھی اگر ہم سالانہ قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے صرف 5 فیصد کا بجٹ حصہ رکھ رہے ہیں اور مطمئن ہو کر دعویٰ کرتے ہیں کہ تعلیمی انقلاب آ جائے گا تو یہ محض دھوکہ دہی ہو گی۔ اس لیے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 35 فیصد سے بھی کم ہے اور خواتین میں یہ شرح صرف 15 فیصد ہے۔
ہمارے تعلیمی نظام کے اکثر مسائل کا حل مالی وسائل سے ہے لہٰذا سب سے پہلے سالانہ قومی و صوبائی بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص رقم 5فیصد یا6 فیصد فیصد سے بڑھا کر کم از کم 25فیصد سے 30 فیصد کر دی جائے جس سے تعلیمی نظام کے مندرجہ ذیل مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام کی تنخواہیں و دیگر مراعات دیگر شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی نسبت کافی کم ہیں بعض پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ 2 سے5 ہزار ماہانہ تنخواہ پر بھی کام کرتے ہیں۔ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت نہیں دی گئی اساتذہ کرام پرائیویٹ بسوں ویگنوں میں اسکولوں اور کالجوں کو جاتے ہیں اور ان کی تنخواہ کا بیشتر حصہ سفری اخراجات پر خرچ ہو جاتا ہے۔
حالات کا تقاضہ ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قریب اساتذہ کے لیے رہائشی کالونیاں تعمیر کی جائیں اور جہاں پر ممکن نہ ہو بالخصوص شہروں میں وہاں پک اینڈ ڈراپ کے لیے سرکاری بس چلائی جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کو جو عزت اور مقام ہے وہی عزت و مقام ہمیں اساتذہ کو دینا چاہیے تا کہ اہل و قابل لوگ اس شعبے کی طرف راغب ہو سکیں۔ ہمارے ہاں قابل لوگ تعلیم کے شعبے میں اس لیے آنا نہیں چاہتے کہ وہاں عزت ہے نہ مقام نہ ہی مراعات اور نہ تحفظ۔ تعلیم کی ترقی کے لیے اساتذہ کرام کو ملکی و بیرون ملک خصوصی تربیت دی جائے اساتذہ کرام کی تعیناتی ترقی تبادلے اور چھٹیوں سے متعلق پالیسیوں میں ترمیم کر کے انھیں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔
ہمارے ہاں تعلیمی نصاب میں اصلاحات کی ضرورت ہے نرسری سے لے کر ماسٹر تک نصاب میں بار بار کورس کو دہرایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دوسری جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب دیکھی جائے تو جناب قائداعظم کے چودہ نکات علامہ محمد اقبال کا خطبہ الہ آباد اور دوسرے موضوعات شامل ہیں اور اگر اسی طرح ماسٹر لیول کے مطالعہ پاکستان کی کتاب میں بھی یہی موضوعات ہمیں ملیں گے اس دوران جتنی کلاسز ہیں سب میں وہی چیزیں دہرائی جاتی ہیں۔
نصاب مرتب کرتے وقت ٹیکسٹ بک بورڈ اور اس سے منسلک دوسرے اداروں میں ماہرین تعلیم کو تعینات کر کے ان کی رائے کے مطابق نصاب مرتب کیا جائے، نصاب آسان اور سلیس زبان میں ہونا چاہیے اس کے علاوہ مضامین کی تعداد کو کم کرنا چاہیے نرسری کے بچے کو پانچ سے چھ مضامین اور مڈل کلاس کے بچے کو آٹھ سے نو مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ بچے بیک وقت ان مضامین کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں اور جو چیز سمجھ نہیں آتی اس سے بچے بور اور بے زار ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک اور المیہ زبان کا ہے مادری زبان کچھ اور قومی زبان کچھ، نصابی زبان کچھ اور بچے کو صرف ایک چیز سیکھنے اور سمجھنے کے لیے انگریزی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ میٹرک تک سرکاری اسکولوں میں کورس اردو میں پڑھایا جاتا ہے انٹر میں کورس ایک دم تبدیل ہو کر انگریزی میں ہو جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم صرف ایک زبان میں ہونی چاہیے تا کہ بچے با آسانی سیکھ اور سمجھ سکیں۔
اکثر اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اسٹاف اور کلاس رومز کی کمی کی وجہ سے ایک ایک کلاس میں80 سے110 طلباء کو بٹھایا اور پڑھایا جاتا ہے اتنی کثیر تعداد کو ایک جگہ بڑھانا انھیں پڑھانا سمجھانا اور کنٹرول کرنا ایک استاد کے بس میں نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کی پڑھائی شدید متاثر ہوتی ہے اور فطری بات ہے کہ جب بچے نہیں سمجھتے تو استاد بھی دلچسپی نہیں لیتا اس لیے ضروری ہے کہ ہر کلاس روم میں طلباء کی مناسب تعداد ہونی چاہیے اور یہ تعداد 20 سے25 کے درمیان ہونی چاہیے تاکہ استاد بھی پڑھا اور سمجھا سکے اور طلباء بھی سمجھ سکیں۔
تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں سال بھر میں8 یا 9 مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ سال کے آخر میں ان تمام مضامین کا امتحان10 سے 15 دنوں میں لیا جاتا ہے ایک طالب علم خواہ سال بھر ان تمام مضامین میں کتنا ہی قابل کیوں نہ رہا ہو لیکن امتحان کے دنوں میں اگر وہ کسی وجہ سے ایک پیپر میں حاضر نہ ہو تو اسے فیل قرار دے کر پورا سال ضایع ہو جاتا ہے امتحان کا طریقہ کار تبدیل کر کے سمسٹر وائز کر دیا جائے اور ہر مہینے کے بعد مضامین کے صرف اس حصے کا امتحان لیا جائے جو پڑھایا جا چکا ہے اس سے مثبت تبدیلی آئے گی اس کے علاوہ مضامین میں ممکن ہو ان کا امتحانی پیپر Objective قسم کا کر دیا جائے۔
اسکولوں اور کالجوں میں نو عمر نوجوان بچے پڑھتے ہیں سیاسی تنظیموں کی مداخلت سے ان کی پڑھائی شدید متاثر ہوتی ہے طلباء پڑھائی کے بجائے سیاسی تنظیموں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ سیاسی تنظیمیں انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں سیاسی تنظیموں کی سیاست اور یونٹ سازی پر مکمل پابندی لگائی جائے۔