باراک اوباما کا دورہ اسرائیل پہلا حصہ

امریکا نے اقوام متحدہ میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے اعلان کی فلسطینی انتظامیہ کی کوششوں کی مخالفت کی تھی۔

امریکا کے صدر بارک اوباما انیس مارچ کی شب صہیونی ریاست اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب پہنچے۔ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ صہیونی صدر شمعون پیریز اور وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے ان کا استقبال کیا۔ بیس مارچ کو اوباما کی قیادت میں اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں صہیونی صدر اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں کیں۔ اوباما نے ان صہیونی حکومتی شخصیات کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔

اکیس مارچ کو اوباما نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں واقع فلسطینی انتظامیہ کے صدر دفتر کا دورہ کیا۔ وہاں فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔ اسی روز صہیونی صدر کے رات کے کھانے (اسٹیٹ ڈنر) کی تقریب میں شرکت کی اور اسرائیلیوں سے خطاب بھی کیا۔ بائیس مارچ کو انھوں نے صہیونیوں کی ایک یادگار کا دورہ بھی کیا۔ اسی دن بیت اللحم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش اور چرچ آف نیٹیویٹی کا دورہ بھی کیا۔ وائٹ ہائوس نے اوبامہ کی مخصوص یہودی لباس اور یہودی طریقے سے عبادت کرنے کی تصویر بھی جاری کی ہے۔

بائیس مارچ کو امریکی صدر اردن پہنچ گئے جہاں انھوں نے شاہ اردن عبداللہ دوم سے تفصیلی ملاقات کی اور مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس پہلے غیر ملکی دورے میں انھوں نے اسرائیلی فوجی تنصیبات اور ایک میوزیم کا دورہ بھی کیا ۔ اوباما نے نسل پرست یہودیوں کی صہیونی تحریک اور اس کی ذیلی دہشت گرد صہیونی تنظیم ہگانہ کے سرکردہ افراد بشمول تھیوڈور ہرٹزل اور اسحاق رابن کی قبر پر بھی حاضری دی۔

فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے مشترکہ میڈیا کانفرنس میں کہا کہ صدر اوباما فلسطین کے دورے میں ایسے عوام کے سامنے آئے ہیں جنھیں اپنی تاریخ، میراث اور ثقافت پر فخر ہے اور جو نکبہ جیسی آفت و مصیبت سے گذر کر آگے بڑھ رہے ہیں ۔ جو افراد صدر صاحب آپ سے ملے ہیں وہ سادہ ترین حقوق بشمول حق آزادی و خود مختاری اور امن کے خواہاں ہیں۔ وہ ایک ایسا آزاد ملک فلسطین چاہتے ہیں جس کا دارالحکومت بیت المقدس (یروشلم) ہو۔

محمود عباس نے واضح کیا کہ یقیناً تشدد، قبضے، (نسل پرست بنیادوں پر تعمیر کی گئی ) دیواروں، (یہودی نسل پرستانہ) بستیوں، گرفتاریوں، محاصروں اور فلسطینی مہاجرین کے حقوق سے انکار کر کے امن قائم نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک ایسا عادلانہ امن چاہتے ہیں جو قبضے اور جنگ کے خاتمے پر مبنی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر اوباما سے اچھے اور کار آمد مذاکرات ہوئے، ان میں نسل پرستانہ بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی یہودی بستیاں اور فلسطینی قیدیوں کے مسئلے پر بھی بات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رہنے کے خطرات اور برے نتائج ہوں گے۔ اس موقعے پر انھوں نے اوباما کو حاضرین کی موجودگی میں آگاہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کی قومی مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔


صدر اوباما نے مرحبا کہہ کر گفتگو کا آغاز کیا، فلسطینی انتظامیہ اور محمود عباس کی خوب تعریف کی اور حماس پر شدید تنقید کی۔ وہ پانچ سال بعد رام اللہ آئے تھے اور آج کا رام اللہ انھیں ایک تبدیل شدہ شہر لگا۔ محمود عباس کی جانب سے اٹھائے گئے کسی بھی مسئلے پر انھوں نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی لیکن اس کے باوجود محمود عباس نے امریکا کی مدد کا شکریہ ادا کیا۔ حالانکہ ایک طویل عرصے سے امریکا نے فلسطینی انتظامیہ کی بھی کوئی مدد نہیں کی۔ اور ان کو اسرائیل کے مقابلے میں خاموش رہنے کے عوض جو معاوضہ امداد کے نام پر دیا جاتا تھا، وہ بھی روکا ہوا ہے اور امریکا میں قانون سازی کر دی گئی ہے کہ فلسطینی انتظامیہ جب تک فلسطین کا مسلح دفاع کرنے والے گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی، کوئی رقم ادا نہیں کی جائے گی۔ ممکن ہے کہ اوباما نے شاید اس ضمن میں کوئی یقین دہانی کرائی ہو۔

ایسی کسی یقین دہانی کی کوئی خبر بہرحال نہیں آئی، البتہ فلسطینی مسائل کے حل کے بجائے امریکی صدر نے اسرائیل کا خوب دفاع کیا۔ انھوں نے محمود عباس کے ساتھ اپنی گفتگو میں واضح کیا کہ فلسطینیوں کے مسائل ایسے نہیں جنھیں اسرائیل فوری طور پر حل کر دے۔ اوباما نے کہا کہ اصل ایشو دو ہیں، ایک فلسطینیوں کی خود مختاری اور دوسرا اسرائیلیوں کی سیکیورٹی۔ ان کے مطابق یہ دو مسئلے حل ہو جائیں تو باقی سارے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ اصل میں اوباما نے اسرائیل میں قدم رکھتے ہی اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکا کی جانب سے یقین دہانی کرا دی تھی لیکن فلسطینیوں کی خود مختاری کے حوالے سے ان کے پاس کوئی نمائشی قسم کی یقین دہانی بھی نہیں تھی۔

امریکا نے اقوام متحدہ میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے اعلان کی فلسطینی انتظامیہ کی کوششوں کی مخالفت کی تھی، یہی نہیں بلکہ فلسطین کو رکنیت دینے پر یونیسکو کے فنڈز بھی روک لیے تھے۔ فلسطینیوں کو جو نام نہاد انتظامیہ امریکا نے اوسلو معاہدے کے بعد عطا کی تھی اس کی برائے نام زیر انتظام حدود میں بھی چھ لاکھ یہودیوں پر مشتمل متعدد ناجائز یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں اور انھیں ختم کرنے اور مزید ایسی نسل پرست بستیوں کی تعمیر نہ کرنے کی کوئی ضمانت محمود عباس کو نہیں دی گئی۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے اسرائیل کی جانب سے نسل پرست اور غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کی مذمت کی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ان بستیوں کی تعمیر پر جنگی جرائم کے مقدمات بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔ کیا محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ اس موقف کو سنجیدگی سے لے کر اس پر عمل کرے گی؟

اس سوال کا جواب محمود عباس نے ابھی تک نہیں دیا ہے۔ یاد رہے کہ اوسلو معاہدے پر یاسر عرفات نے نہیں بلکہ محمود عباس نے ان کی طرف سے دستخط کیے تھے۔ فلسطینیوں کی قومی مفاہمت کی کوششیں بھی اس صورت میں کامیاب ہو سکیں گی جب فلسطینی انتظامیہ مسلح مزاحمت کرنے والے گروہوں کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑی ہو اور امریکا سمیت عالمی برادری کو یہ باور کروائے کہ مقبوضہ فلسطین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے کی جنگ لڑٖنے والے یہ گروہ فلسطین کے نمایندہ قومی مزاحمتی گروہ ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر ملکی جارحیت اور قبضے کے خلاف دفاعی جنگ اور مزاحمت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اگر امریکا و برطانیہ کی نظر میں فلسطینی انتظامیہ کی کوئی اہمیت اور حیثیت ہوتی تو اوبامہ کو یہ ہمت نہ ہوتی کہ محمود عباس کی موجودگی میں مزاحمتی گروہوں کے خلاف بیان داغتے۔

ایک طرف تو اوباما نے صہیونی حکومت کے زیر تسلط بیت المقدس میں صہیونی دہشت گرد نسل پرست گروہ ہگانہ اور صہیونیت کے سرکردہ افراد کی قبروں پر حاضری دی اور ان سے عقیدت کا اظہار کیا حالانکہ ان لوگوں نے فلسطین کے اٹھتر فی صد علاقے کو ناجائز طور پر قبضہ کر کے نسل پرست یہودی ریاست کا نام دے دیا ۔ جب کہ دوسری جانب انھوں نے فلسطینی انتظامیہ کے بانی یاسر عرفات کی قبر کو دور سے بھی سلام نہیں کیا حالانکہ یاسر عرفات ہی تھے جو اوسلو معاہدے پر راضی ہوئے اور محض بائیس فیصد فلسطینی علاقے کے بدلے میں اٹھتر فیصد علاقے سے دستبردار ہو گئے تھے۔ صدر اوباما کی یہ پالیسی اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ وہ اس دورے میں فلسطینیوں کو نہیں بلکہ صرف اور صرف صہیونیوں کا دفاع اور حمایت کرنے آئے تھے۔ (جاری ہے)
Load Next Story