مک مکا کی سیاست
سیاسی جوڑ توڑ اور انتخابی اتحاد کے حوالے سے پنجاب اور خیبر پختونخوا سب سے زیادہ اہمیت کے حامل صوبے ہیں۔
اردو ڈکشنری بورڈ نے اپنی نئی جدید مختصر اردو لغت میں عصر حاضر کے حوالے سے کچھ نئے الفاظ معنی کے ساتھ شامل کیے ہیں مثلاً بھتہ، پرچی، ٹوپی کرانا اور جگاڑ لگانا وغیرہ۔ یہ الفاظ پہلے بھی اردو زبان میں شامل تھے مگر ماحول اور اقدار کی تبدیلی کے ساتھ ان الفاظ کے معنی اور مفہوم بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ پہلے یہ الفاظ شریفانہ اور مثبت معنوں میں استعمال ہوا کرتے تھے اب ان کا استعمال منفی معنوں میں کیا جاتا ہے۔
معلوم نہیں کہ لوٹا، چمک، نامعلوم، عدالتی قتل جیسے دیگر الفاظ بھی اس لغت میں شامل ہیں یا نہیں ہیں۔ آج کل ہمارے سیاسی واعظوں میں لفظ مک مکاؤ کی تکرار بڑی عام ہو گئی ہے، غیر آزمودہ، درآمدی مسیحا اور خدائی خدمت گار ملک و قوم کے غم میں جب لفظ مک مکاؤ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے چہروں کی بشاشت و رعنائیاں اور طبیعت کی جولانی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ان کے چہروں کی طمانیت اور طرز زندگی ان کے عزم اور عزائم دونوں کو واضح کر دیتی ہے۔
ملک میں انتخابات کے موقع پر حکمرانی کے مزے لوٹ کر طویل عرصہ بیرون ملک عیش و عشرت و بے فکری کی زندگیاں گزارنے والے مسیحاؤں کو یکایک ملک و عوام کے حال و مستقبل کی فکر ستانے لگی ہے اور وہ اپنی داد وعیش کی پرتکلف زندگی چھوڑ کر پاکستانیوں کو یہ یاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روئے زمین پر وہی ان کے واحد نجات دہندہ اور مسیحا ہیں اور ان کی ذات اور ایجنڈہ ہی ملک و قوم کی ناگزیر ضرورت اور نجات کا واحد ذریعہ ہے۔
عوام اگر انھیں اپنے کاندھوں پر سوار کرا کے مسند اقتدار پر بٹھا دیں تو وہ ان کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے حالانکہ ان کی سیاسی پٹاریوں میں خوشنما دعوئوں اور حسین خوابوں کے علاوہ گائے کا دودھ تو دور کی بات شہید کی مکھی کا پر بھی نہیں ہے۔ نہ کوئی سیاسی ڈھانچہ ہے نہ دعوئوں پر عملدرآمد کرنے کا لائحہ عمل ہے۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی اور تمام دوستوں کے درمیان گرم گرم کھچڑی کی تھال رکھ دی جس کے درمیان میں چاولوں میں گڑھا کر کے اصلی گھی بھرا گیا تھا، کھانا شروع ہوا تو اصلی گھی کی خوشبو نے بھوک کو چار چاند لگا دیے۔
میزبان دہلی والا تھا اس نے کھچڑی میں انگلی سے اپنی طرف لائن کھینچتے ہوئے کہا کہ میاں قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ نیک لوگوں کی ایک لائن لگائے گا، میزبان کی اس حرکت سے سارا اصلی گھی میزبان کی طرف بہنے لگا، دوسری جانب ایک پٹھان بیٹھا تھا اس نے اپنی موٹی سی انگلی سے اپنی طرف لائن کھینچتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک لائن گناہ گاروں کی بھی ہو گی، پٹھان کی اس ترکیب سے سارا گھی بہہ کر اس کی جانب جانے لگا، مہمان دنگ رہ گئے۔ دعوت میں شریک مکرانی پوری کھچڑی میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا اڑے بابا! قیامت کے دن تو افراتفری ہو گا، لائن مائن کدھر لگائے گا۔
آج ہمارے ملک کی سیاسی صورت حال بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ روایتی سیاسی جماعتیں عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی ہیں، نو وارد اور نو آموز اور غیر آزمودہ مسیحاؤں نے دعوئوں اور تقریروں کی شعبدے بازیوں سے عوام کی نظریں خیرہ اور دماغ سحر زدہ کر کے اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ درآمدی سربراہان حکومت کے دیے گئے زخموں کو بھلا کر قوم اب درآمدی نجات دہندؤں اور مسیحاؤں کے سیاسی اسٹالوں پر اپنے درد کا درماں تلاش کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی مروجہ سیاسی جماعتوں کی سیاسی جوڑ توڑ، خرید و فروخت، بلیک میلنگ، ذاتی مفادات، ذاتی انا اور سیاسی مفادات کے مقوی سیاسی اجزا سے بھرپور کھچڑی کی دیگ تیاری کے آخری مراحل میں ہے بلکہ دم پر رکھی ہوئی ہے کسی بھی وقت اس کا ڈھکن کھل سکتا ہے، سیاسی کھچڑی کا جو حشر ہو گا اہل نظر اس کا اندازہ خوب رکھتے ہیں۔
اقتدار میں شریک حکومت کی پانچ سالہ حشر سامانیاں تو قوم دیکھ اور بھگت چکی ہے اب انتخابی اتحاد کی توڑ جوڑ بھی ملکی سیاست پر دور رس نتائج مرتب کرے گی۔ اس وقت انتخابی اتحاد کی بڑی ڈیل جماعت اسلامی اور تحریک کے درمیان یا پھر جماعت اسلامی کی کسی دوسری جماعت کے ساتھ فائنل ہو سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کا اس سلسلے میں بارگیننگ پاور خاصا مستحکم نظر آتا ہے اور ماضی میں اس کے امیر (ن) لیگ کو وہ زخم دے چکے ہیں جسے (ن) لیگ آج بھی چاٹ رہی ہے جب اسلامی جمہوری اتحاد نے چند سو یا چند ہزار ووٹوں کے فرق سے (ن) لیگ کو اقتدار سے محروم کروا کر اقتدار کی ہما پی پی پی کے سر پر بٹھا دی تھی بالکل اسی طرح جیسے ورلڈ کپ میں ایک اپ سیٹ نے ورلڈ کپ پاکستان کو دلا کر فتح تحریک انصاف کے چیئرمین کے دامن میں ڈال دی تھی۔ یہ تاریخ (ن) لیگ کے ساتھ دوبارہ دہرائے جانے کے امکانات بھی بڑے واضح ہیں۔
سیاسی جوڑ توڑ اور انتخابی اتحاد کے حوالے سے پنجاب اور خیبر پختونخوا سب سے زیادہ اہمیت کے حامل صوبے ہیں۔ پنجاب میں اکثر حلقوں میں (ن) لیگ وننگ پوزیشن میں ہے جب کہ جماعت اسلامی کی پوزیشن بھی کافی حلقوں میں مستحکم ہے۔ تمام حلقوں میں اس کے قابل ذکر ووٹر موجود ہیں۔ اگر (ن) لیگ اور جماعت اسلامی اتحاد کر لیتی ہیں تو تہلکہ خیز نتائج حاصل کر سکتی ہیں۔ صوبہ سندھ تو عمومی اور عملی طور پر پی پی پی اور متحدہ کا بلاشرکت غیر انتخابی میدان ہے جس میں فنکشنل لیگ اور اے این پی کی چند نشستوں کے علاوہ کسی دوسری جماعت کے لیے کوئی موقع نہیں ہے۔
سندھ میں (ن) لیگ کی توجہ صرف یہاں اپنا سیاسی وجود کا احساس دلانے کی حد تک ہے تا کہ وہ قومی جماعت کہلا سکے۔ عمران خان بھی یہاں کوئی سعی لاحاصل کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں دوسرے صوبوں میں صرف کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سرحد میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور اے این پی موثر سیاسی جماعتیں ہیں، اس صوبے میں 2002 میں ایم ایم اے نے شاندار کامیابی اور کارکردگی دکھائی تھی لیکن اگلے انتخابات میں بائیکاٹ کی سیاسی غلطی نے اے این پی کو اقتدار سے سرفراز کیا مگر اس کی حکومت نے کرپشن و نااہلی کی جو تاریخ رقم کی اس نے اس کے آیندہ کامیابی کے امکانات بہت ہی کم کر دیے ہیں۔
حالیہ انتخابات کے موقع پر تحریک انصاف کے سیاسی مظاہروں، دعوئوں نے عوام کو اپنی طرف دیکھنے، سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سرحد میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور (ن) لیگ فطری اتحادی جماعتیں نظر آتی ہیں، اسی طرح پنجاب میں جماعت اسلامی اور (ن) لیگ فطری اتحادی جماعتیں نظر آتی ہیں لیکن ان جماعتوں میں اتحاد کی کوئی سنجیدہ کوششیں دیکھنے میں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں انتخابی اتحاد کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کو فضل الرحمٰن نے اس کا بے لباس لوگوں کے ساتھ اتحاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی جمائما کلچر کا شکار ہو گئی ہے۔
جماعت اسلامی کا پی ٹی آئی کی طرف قدم بڑھانا (ن) لیگ سے اپنا بارگیننگ پاور بہتر بنانے کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔ اس اتحاد سے تحریک انصاف کو پورے ملک کے انتخابی حلقوں میں جماعت کے منظم کارکنان کی ورک فورس مل جائے گی اور ووٹ بینک میں اضافے سے اس کی نشستوں میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کو اپنے لوگوں کی بددلی اور (ن) لیگ کے ووٹر کی مخالفت اور نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خود جماعت کے کارکنان بھی اس غیر فطری اتحاد کو خوش دلی سے تسلیم نہیں کر پائیں گے۔ عوام نے اقتدار کی شراکت کا خمیازہ تو بھگتا ہے خدانخواستہ انتخابی اتحاد کا خمیازہ بھی اسے ہی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں مک مکاؤ کی سیاست مستقبل کے لیے کیا گل کھلاتی ہے۔
معلوم نہیں کہ لوٹا، چمک، نامعلوم، عدالتی قتل جیسے دیگر الفاظ بھی اس لغت میں شامل ہیں یا نہیں ہیں۔ آج کل ہمارے سیاسی واعظوں میں لفظ مک مکاؤ کی تکرار بڑی عام ہو گئی ہے، غیر آزمودہ، درآمدی مسیحا اور خدائی خدمت گار ملک و قوم کے غم میں جب لفظ مک مکاؤ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے چہروں کی بشاشت و رعنائیاں اور طبیعت کی جولانی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ان کے چہروں کی طمانیت اور طرز زندگی ان کے عزم اور عزائم دونوں کو واضح کر دیتی ہے۔
ملک میں انتخابات کے موقع پر حکمرانی کے مزے لوٹ کر طویل عرصہ بیرون ملک عیش و عشرت و بے فکری کی زندگیاں گزارنے والے مسیحاؤں کو یکایک ملک و عوام کے حال و مستقبل کی فکر ستانے لگی ہے اور وہ اپنی داد وعیش کی پرتکلف زندگی چھوڑ کر پاکستانیوں کو یہ یاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روئے زمین پر وہی ان کے واحد نجات دہندہ اور مسیحا ہیں اور ان کی ذات اور ایجنڈہ ہی ملک و قوم کی ناگزیر ضرورت اور نجات کا واحد ذریعہ ہے۔
عوام اگر انھیں اپنے کاندھوں پر سوار کرا کے مسند اقتدار پر بٹھا دیں تو وہ ان کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے حالانکہ ان کی سیاسی پٹاریوں میں خوشنما دعوئوں اور حسین خوابوں کے علاوہ گائے کا دودھ تو دور کی بات شہید کی مکھی کا پر بھی نہیں ہے۔ نہ کوئی سیاسی ڈھانچہ ہے نہ دعوئوں پر عملدرآمد کرنے کا لائحہ عمل ہے۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی اور تمام دوستوں کے درمیان گرم گرم کھچڑی کی تھال رکھ دی جس کے درمیان میں چاولوں میں گڑھا کر کے اصلی گھی بھرا گیا تھا، کھانا شروع ہوا تو اصلی گھی کی خوشبو نے بھوک کو چار چاند لگا دیے۔
میزبان دہلی والا تھا اس نے کھچڑی میں انگلی سے اپنی طرف لائن کھینچتے ہوئے کہا کہ میاں قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ نیک لوگوں کی ایک لائن لگائے گا، میزبان کی اس حرکت سے سارا اصلی گھی میزبان کی طرف بہنے لگا، دوسری جانب ایک پٹھان بیٹھا تھا اس نے اپنی موٹی سی انگلی سے اپنی طرف لائن کھینچتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک لائن گناہ گاروں کی بھی ہو گی، پٹھان کی اس ترکیب سے سارا گھی بہہ کر اس کی جانب جانے لگا، مہمان دنگ رہ گئے۔ دعوت میں شریک مکرانی پوری کھچڑی میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا اڑے بابا! قیامت کے دن تو افراتفری ہو گا، لائن مائن کدھر لگائے گا۔
آج ہمارے ملک کی سیاسی صورت حال بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ روایتی سیاسی جماعتیں عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی ہیں، نو وارد اور نو آموز اور غیر آزمودہ مسیحاؤں نے دعوئوں اور تقریروں کی شعبدے بازیوں سے عوام کی نظریں خیرہ اور دماغ سحر زدہ کر کے اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ درآمدی سربراہان حکومت کے دیے گئے زخموں کو بھلا کر قوم اب درآمدی نجات دہندؤں اور مسیحاؤں کے سیاسی اسٹالوں پر اپنے درد کا درماں تلاش کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی مروجہ سیاسی جماعتوں کی سیاسی جوڑ توڑ، خرید و فروخت، بلیک میلنگ، ذاتی مفادات، ذاتی انا اور سیاسی مفادات کے مقوی سیاسی اجزا سے بھرپور کھچڑی کی دیگ تیاری کے آخری مراحل میں ہے بلکہ دم پر رکھی ہوئی ہے کسی بھی وقت اس کا ڈھکن کھل سکتا ہے، سیاسی کھچڑی کا جو حشر ہو گا اہل نظر اس کا اندازہ خوب رکھتے ہیں۔
اقتدار میں شریک حکومت کی پانچ سالہ حشر سامانیاں تو قوم دیکھ اور بھگت چکی ہے اب انتخابی اتحاد کی توڑ جوڑ بھی ملکی سیاست پر دور رس نتائج مرتب کرے گی۔ اس وقت انتخابی اتحاد کی بڑی ڈیل جماعت اسلامی اور تحریک کے درمیان یا پھر جماعت اسلامی کی کسی دوسری جماعت کے ساتھ فائنل ہو سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کا اس سلسلے میں بارگیننگ پاور خاصا مستحکم نظر آتا ہے اور ماضی میں اس کے امیر (ن) لیگ کو وہ زخم دے چکے ہیں جسے (ن) لیگ آج بھی چاٹ رہی ہے جب اسلامی جمہوری اتحاد نے چند سو یا چند ہزار ووٹوں کے فرق سے (ن) لیگ کو اقتدار سے محروم کروا کر اقتدار کی ہما پی پی پی کے سر پر بٹھا دی تھی بالکل اسی طرح جیسے ورلڈ کپ میں ایک اپ سیٹ نے ورلڈ کپ پاکستان کو دلا کر فتح تحریک انصاف کے چیئرمین کے دامن میں ڈال دی تھی۔ یہ تاریخ (ن) لیگ کے ساتھ دوبارہ دہرائے جانے کے امکانات بھی بڑے واضح ہیں۔
سیاسی جوڑ توڑ اور انتخابی اتحاد کے حوالے سے پنجاب اور خیبر پختونخوا سب سے زیادہ اہمیت کے حامل صوبے ہیں۔ پنجاب میں اکثر حلقوں میں (ن) لیگ وننگ پوزیشن میں ہے جب کہ جماعت اسلامی کی پوزیشن بھی کافی حلقوں میں مستحکم ہے۔ تمام حلقوں میں اس کے قابل ذکر ووٹر موجود ہیں۔ اگر (ن) لیگ اور جماعت اسلامی اتحاد کر لیتی ہیں تو تہلکہ خیز نتائج حاصل کر سکتی ہیں۔ صوبہ سندھ تو عمومی اور عملی طور پر پی پی پی اور متحدہ کا بلاشرکت غیر انتخابی میدان ہے جس میں فنکشنل لیگ اور اے این پی کی چند نشستوں کے علاوہ کسی دوسری جماعت کے لیے کوئی موقع نہیں ہے۔
سندھ میں (ن) لیگ کی توجہ صرف یہاں اپنا سیاسی وجود کا احساس دلانے کی حد تک ہے تا کہ وہ قومی جماعت کہلا سکے۔ عمران خان بھی یہاں کوئی سعی لاحاصل کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں دوسرے صوبوں میں صرف کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سرحد میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور اے این پی موثر سیاسی جماعتیں ہیں، اس صوبے میں 2002 میں ایم ایم اے نے شاندار کامیابی اور کارکردگی دکھائی تھی لیکن اگلے انتخابات میں بائیکاٹ کی سیاسی غلطی نے اے این پی کو اقتدار سے سرفراز کیا مگر اس کی حکومت نے کرپشن و نااہلی کی جو تاریخ رقم کی اس نے اس کے آیندہ کامیابی کے امکانات بہت ہی کم کر دیے ہیں۔
حالیہ انتخابات کے موقع پر تحریک انصاف کے سیاسی مظاہروں، دعوئوں نے عوام کو اپنی طرف دیکھنے، سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سرحد میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور (ن) لیگ فطری اتحادی جماعتیں نظر آتی ہیں، اسی طرح پنجاب میں جماعت اسلامی اور (ن) لیگ فطری اتحادی جماعتیں نظر آتی ہیں لیکن ان جماعتوں میں اتحاد کی کوئی سنجیدہ کوششیں دیکھنے میں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں انتخابی اتحاد کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کو فضل الرحمٰن نے اس کا بے لباس لوگوں کے ساتھ اتحاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی جمائما کلچر کا شکار ہو گئی ہے۔
جماعت اسلامی کا پی ٹی آئی کی طرف قدم بڑھانا (ن) لیگ سے اپنا بارگیننگ پاور بہتر بنانے کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔ اس اتحاد سے تحریک انصاف کو پورے ملک کے انتخابی حلقوں میں جماعت کے منظم کارکنان کی ورک فورس مل جائے گی اور ووٹ بینک میں اضافے سے اس کی نشستوں میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کو اپنے لوگوں کی بددلی اور (ن) لیگ کے ووٹر کی مخالفت اور نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خود جماعت کے کارکنان بھی اس غیر فطری اتحاد کو خوش دلی سے تسلیم نہیں کر پائیں گے۔ عوام نے اقتدار کی شراکت کا خمیازہ تو بھگتا ہے خدانخواستہ انتخابی اتحاد کا خمیازہ بھی اسے ہی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں مک مکاؤ کی سیاست مستقبل کے لیے کیا گل کھلاتی ہے۔