سرمائی اولمپکس یا سفارت کار
اولمپک کھیلوں کے مقابلوں کو بطور سفارتکاری جتنا استعمال کیا جاتا ہے اتنا دوسرے کھیلوں میں نظر نہیں آتا۔
قوموں اور ثقافتوں کے مابین اختلافات کے نتیجے میں لگنے والے زخموں کو بھرنے کی خاطرکھیلوں کو ایک مثبت سرگرمی کے طور پردیکھا جاتا ہے۔کھیلوں کے میدان میں ہونے والی فتح اور شکست اکثر اقوام عالم کے درمیان امن کے راستے بھی ہموار کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کھیل باہمی اختلافات رفع کرنے میں اکسیر اورمثالی طور پر شفا سمجھے جاتے ہیں۔ شاید اسی لیے جب کسی سرزمین کا امن تاراج کرنا ہو تو وہاں دیگر مسائل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد میں رکاوٹیں عائد کی جاتی ہیں حتی کہ ان مواقعے پر دہشتگردانہ کارروائیاں کرکے دنیا کو یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ کھیلوں کے ذریعے قیام امن کا راستہ تلاش کرنے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ ترکی اور آرمینیا کے صدیوں سے بگڑے ہوئے زخم 2000 میں آرمینیا کے فٹ بال اسٹیڈیم میں ہی بھرے گئے۔
ترکی کے اس وقت کے صدرعبد اللہ گل کو آرمینیا کی حکومت نے میچ دیکھنے کی دعوت دی جو انھوں نے پرانی رنجشوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے قبول بھی کرلی۔ جدید ترکی کی تاریخ میں عبداللہ گل آرمینیا کا دورہ کرنیوالے پہلے ترک صدر قرار پائے۔اس وقت صرف ترکی کے صدرکو ہی مدعو نہیں کیا گیا بلکہ پانچ ہزار ترک باشندوں کو بھی میچ دیکھنے کے لیے ویزے فراہم کیے گئے۔ یوں انسانی تاریخ میں اتحاد اوریگانگت کے ایک روشن باب کا اضافہ ہوا۔
اولمپک کھیلوں کے مقابلوں کو بطور سفارتکاری جتنا استعمال کیا جاتا ہے اتنا دوسرے کھیلوں میں نظر نہیں آتا۔ اولمپک کھیلوں کا نعرہ بھی یہی ہے کہ ''ایک پر امن اور بہتر دنیا کی تشکیل میں کھیل کا شکریہ'' اولمپک ڈپلومیسی سے اکثر باہمی تنازعات کا پُرامن حل تلاش کرنے کا مقصد پورا کیا جاتا رہا ہے۔
2018کے سرمائی اولمپک میں جنوبی اورشمالی کوریا کے درمیان سالوں سے جاری کشیدگی کے بادل چھٹ گئے، دلوں میں گنجائش بڑھا گئے، انا کی تسکین کی جگہ اس بار اصولوں کو اہمیت دی گئی اور دنیا نے وہ تاریخی لمحات دیکھے جب جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کی مشترکہ ٹیموں نے میدان میں اتر کر رنگ جمایا۔
دونوں ممالک کے حکمراں جن کے دلوں میں کچھ عرصے قبل تک نفرت اور بغض کے سوا کچھ نہ تھا، ان کی مصافحہ کرتی مسکراتی ہوئی تصویروں کو دنیا نے حیرت کی آنکھ سے دیکھا۔ وہ ممالک جو ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے اب ایک دوسرے کو دوروں کی دعوت دے رہے ہیں۔ اناپرست اور متشدد کہلائے جانے والے سربراہانِ مملکت نے ایک ساتھ بیٹھ کر اولمپک کھیلوں کے مقابلے دیکھے۔
شمالی و جنوبی کوریا دو ایسے ممالک ہیں جن کا 1953کی کوریائی جنگ کے بعد ایک دوسرے سے سوائے دشمنی کے کوئی دوسرا تعلق نہیں تھا۔ جنوبی کوریا نے تو روس کے تسلط سے رہائی پالی مگر شمالی کوریا روسی پشت پناہی کو ہی اپنی بقا کا راز سمجھتا رہا ہے۔ ساٹھ سال سے دونوں ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ موڑے صرف تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان موجود یہ تنازعات اکثر خوفناک طوفانوں کا باعث بنتے رہے ہیں۔ یہ ذکر ہے 1988کا، جب جنوبی کوریا میں اولمپک کھیلوں کی تیاریاں مکمل کی جا چکی تھیں۔
شمالی کوریا کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے دنیا کو خوف زدہ کرنے اور جنوبی کوریا کو پوری دنیا میں بدنام کرنے کے لیے جنوبی کوریا کے طیارے میں ٹائم بم رکھوا دیا۔ اس حادثے میں ایک سو پندرہ افراد جاں بحق ہوئے۔ حادثے کے بعد دو جاسوسوں کی گرفتاری ہوئی، جن میں سے ایک نے موقعے پر ہی زہریلی شے کھا کر خودکشی کرلی مگر دوسری جاسوسہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس فعل کا براہ راست تحریری حکم شمالی کوریا کے اس وقت کے حکمراں کم جونگ دوم کی طرف سے دیا گیا تھا۔
2018 میں اولمپکس کا دروازہ ایک بار پھر جنوبی کوریا کی سرحد پر وا ہوا تو کافی خدشات موجود تھے۔ سرحدوں کے دونوں جانب عوام میں بے چینی عروج پر تھی لیکن کم جونگ دوم کے جاں نشین نے اس پریشان کن مرحلے کو بہ خوبی قابو کیا۔ چونتیس سالہ کم جونگ آن متشدد، تنہائی پسند اور غیرمتوقع شخصیت کے حامل کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے انتہائی غیرمتوقع طور پر اس بار اولمپک مقابلوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش نہ کی بلکہ مہذب لائحہ عمل کے تحت اس کھیل کو ان تنازعات کے حل کا ذریعہ بنایا جو سالوں سے دونوں ممالک کا سردرد بنے ہوئے ہیں۔ جدید تاریخ میں کھیلوں کی سفارت کاری کی یہ ایک بہترین مثال ہے۔
اولمپک میں انھوں نے شمالی کوریا کی ٹیم کو ہی نہیں بھیجا بلکہ جنوبی کوریا کے صدر کی دعوت پر اپنی بہن کے ساتھ خود بھی کھیل کے میدان کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان کی بہن نے جنوبی کوریا کے صدر کو شمالی کوریا کے دورے کی دعوت دی جو قبول کرلی گئی۔ اب وہ ماہرین مخمصے میں ہیں جو کچھ عرصے پہلے تک شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان چپقلش میں اضافے کا خطرہ بتا رہے تھے۔ اب ممکن ہے کہ جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان موسم گرما تک شمالی کوریا کا دورہ کرلیں، جس سے مفاہمت کے مزید امکانات روشن ہوں گے۔
اولمپکس کے حالیہ مقالوں میں آئس ہاکی کے لیے شمالی و جنوی کوریائی خواتین کی مشترکہ ٹیم میدان میں اتری تو اس لمحے کو تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کرلیا۔ اتحاد اور محبت کے ناممکن نظر آنے والے خواب کی تکمیل اولمپک کی شمع تلے ہونا ہی تقدیر میں لکھی تھی۔ وہی ہوائیں جو کچھ عرصے پہلے پیغام پہنچا رہی تھیں کہ جنوبی کوریا کوآگ کا دریا بنا دیا جائے گا ا ب وہی فضائیں محبت کے نغمے گارہی ہیں۔
جنوبی کوریا کی غریب آمریت اور رہی سہی معیشت کو نیست و نابو کرنے کی دھمکیاں دینے والے مل کر اب اولمپک کی شمع روشن کر رہے تھے۔ اولمپک کی مشعل میں جانے کیسی معجزاتی آگ ہے کہ وہ جس قدر دہکتی ہے نفرتوں کے الاؤ اسی قدرکم ہوتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں ہونے والے یہ مقابلے ہر لحاظ سے صحت مند اور مثبت نتائج کے حامل رہے۔ ماحول کا تناؤ کم ہوا، مذاکرات کے راستے ہموار ہوئے، لیکن ماہرین نے اس مفاہمت سے شاید زیادہ امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔
امریکی ماہرین کی تو خوش فہمی اس حد تک ہے کہ شمالی کوریا نہ صرف نیوکلیائی ہتھیاروں کو تلف کرکے اس دوڑ سے باہر ہوجائے گا بلکہ نیوکلیائی ہتھیاروں کی تیاری کی جگہ کے معائنے کے لیے امریکی افسران کو رسائی بھی فراہم کرے گا، لیکن امریکا کی خوش فہمیوں پر جلد پانی پھر جائے گا۔
شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان قیام امن کا جو اسٹیج اولمپکس نے تیارکیا ہے، اس پر کھل کر رنگ نہ جمایا اور قدرت کے عطا کردہ نادر موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو یہ تاریخ کی ایک بھیانک غلطی ہوگی۔ کھیلوں سے امن کا راستہ نکالنا ایسا عجب بھی کہاں؟ 1917 میں پنگ پانگ ( ٹیبل ٹینس) ڈپلومیسی نے امریکا اور چین کے درمیان اختلافات کی اونچی ہوتی دیواروں کو کم کیا۔ موجودہ دور میں ریسلنگ کا کھیل ایران اور امریکا کے درمیان سرد مہری کوکم کرنے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ یوں آج تک کھیلوں کے مقابلے صرف دو ٹیموں کے درمیان نہیں بلکہ متعلقہ ممالک کے درمیان بھی موثر ابلاغ کی ایک بڑی وجہ بن رہے ہیں۔
شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان ممکنہ شروع ہونے والے مذاکرات سے ''امریکا صاحب'' بے حد مسرور ہیں اور انھوں نے جھٹ مذاکرات میں شمولیت کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا ہے یعنی اولمپک کے بعد ایک نیا کھیل شروع ہونے کو بے تاب ہے۔ اولمپک کے میدان میں شمالی اور جنوبی کوریا کے ایتھلیٹس نے مشترکہ مارچ کرکے دنیا کو کھیلوں کے ذریعے فروغ امن کا جو پیغام دیا اسے امریکا اپنی ٹانگ اڑا کر سبوتاژکرنا چاہتا ہے لیکن ایک خدشہ جو جنوبی کوریا کے عوام میں سر اٹھا رہا ہے، یہ ہے کہ شمالی کوریا کسی نئے منصوبے کا جال بن رہا ہے اور جب تک اس کے پاس نیوکلیائی ہتھیار ہیں امن کا کوئی منصوبہ قابل اعتبار نہیں ہو سکتا۔ ان خدشات کے باوجود بھی دونوں طرف عوام کی اکثریت متحد ہونے کی خواہش رکھتی ہے۔ خدا کرے سرمائی اولمپکس سے پیدا ہونے والی امیدیں اورگرم جوشی کبھی ختم نہ ہوں۔