وجود زن اور اس کا عالمی دن
عورت کی نسوانیت، اس کی حرمت، اس کی حساسیت سے مردوں کے معاشرے کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔
پاکستان کی آبادی میں خواتین کا تناسب 51 فیصد ہے، یعنی ملک کی نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، لیکن تعلیم، صحت، معیشت، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاست، صحافت اور کھیل سمیت دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں ان کا کردار اس تناسب سے کہیں کم ہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کے شور مچانے پر حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے قوانین تو تشکیل دیے گئے لیکن ان سے متعلق آگاہی اور ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں فرسودہ اور قبیح رسوم کی بھینٹ چڑھنے والی خواتین کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔
دوسری جانب ملک کے بااثر طبقات ان قوانین سے متعلق آگاہی پھیلانے اور ان کے نفاذ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یوں معاشرے میں پائی جانے والی رجعت پسندانہ سوچ کی وجہ سے متاثرہ خواتین کو انصاف ملنا تو دورکی بات، ان کی اشک شوئی بھی نہیں کی جاتی۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے گو خواتین کے حق میں آواز بلند کی جاتی رہی ہے، عورتوں کی حمایت میں قوانین پر قوانین بھی بنائے جا رہے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو پارہا۔
ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ اداروں میں اچھا سلوک نہیں کیا جاتا، ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ راستے میں لوگ عورتوں پر فقرے کستے، انھیں گھورتے، اشارے کرتے ہیں۔ دبئی میں اس انداز سے عورت کو دیکھنے پر قانون بنایا جارہا ہے اور عورت کی اس رپورٹ پر مرد کے خلاف کارروائی اور بعدازاں اسے سزا ہوگی، لیکن ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی نہیں اور نہ ہی یہاں بلاامتیاز انصاف کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اگرکسی خاتون کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو حکومت انصاف کی فراہمی کے لیے اسے کسی قسم کی قانونی معاونت فراہم نہیں کرتی۔
ہمارے ملک میں جہاں عورت وزیراعظم بن سکتی ہے، ماؤنٹ ایورسٹ سرکرسکتی ہے اور ایئرفائٹرکے طور پر خدمات انجام دے سکتی ہے، وہیں پاکستانی عورت حد درجہ معاشرتی مظالم کی بھینٹ بھی چڑھتی ہے، جرگوں میں اس کے خلاف فیصلے بھی سنائے جاتے ہیں اور اسے گھروں میں قیدی بناکر بھی رکھا جاتا ہے۔ دراصل ہم ایک طبقاتی نظام میں جی رہے ہیں۔
یہاں مرد کی حاکمیت قائم ہے اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ غربت کا چہرہ نسوانی ہوتا ہے۔ تاہم غریب اور ناخواندہ خواتین کے مقابلے میں پڑھی لکھی اور خود مختار پاکستانی خواتین کی صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔ عورت پر ظلم کی ایک اہم وجہ ملک کی شرح خواندگی کا کم ہونا ہے، اگرچہ چند برسوں میں پاکستانی خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے لیکن مجموعی طور پر عورت کے مقام و مرتبے میں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا۔
8 مارچ کو دنیا بھر میں عورت کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عورت کا عالمی توکیا اس کا کوئی بھی دن اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ عورت چاہے ماں ہو، بیوی ہو، بہن ہو یا بیٹی وہ مرد سے پہلے اٹھتی ہے اور مرد کے بعد سوتی یا آرام کرتی ہے۔ عورت گھر کی زینت ہی نہیں روح بھی ہوتی ہے۔ عورت محنت مشقت کرتی ہے اور محبت کرتی ہے، بس یہی اس کی داستان حیات ہے۔
عورت کتنی ہی خوشحال کیوں نہ ہو، ذمے داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوپاتی، اسے عورت ہونے کے کچھ نہ کچھ عذاب ضرور بھگتنے پڑتے ہیں اور اس کی وجہ مردوں کا معاشرہ ہے جو اسے اول تو پیرکی جوتی سے زیادہ وقعت نہیں دیتا اور اگر اس سے زیادہ وہ کچھ سمجھے تو یہ اس کی مردانگی کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ عورت کی نسوانیت، اس کی حرمت، اس کی حساسیت سے مردوں کے معاشرے کو کوئی غرض نہیں ہوتی اور یہ بھی ہمارے 95 فیصد مردوں کا المیہ ہے کہ وہ صرف اپنے گھرکی عورت کو احترام دینے کے قائل ہوتے ہیں، دوسری عورتیں ان کی مردانگی کا دل ربا سامان یا کھلونا ہی ان کی نظر میں رہتی ہیں۔
عورت کی سب سے بڑی محافظ اس کی بدصورتی کوکہا جاتا ہے اور آنسو کو عورت کا سب سے زیادہ ساتھ نبھانے والا ساتھی کہا جاسکتا ہے، کیونکہ واقعی عورت اور آنسو کا رشتہ بڑا گہرا بڑا مضبوط ہوتا ہے۔ جب سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تب بھی آنسو عورت کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ عام طور پر عورت وفا پرست، مخلص اور سمجھوتہ کرنے والی ہی ہوتی ہے اس لیے کہ مرد ہمیشہ عورت کی پہلی محبت بننا چاہتا ہے لیکن عورت اس کی آخری محبت بننے کی خواہش رکھتی ہے۔
عورت کے حوالے سے ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ معاشرے کے ارتقا میں عورتوں کا کردار مکمل طور پر کبھی بھی قلم بند یا فلم بند نہیں ہوسکا اور جب کبھی بھی ایسا ہوگا دنیا جان لے گی کہ غلامی سے لے کر سماجی انصاف تک جب جب جہاں جہاں اور جس جس قسم کی بہتریاں ہوئی وہ سب عورتوں کے دم سے ہوئیں۔ انھیں اختیار نہیں دیا گیا، انھیں مان نہیں دیا گیا، انھیں احترام نہیں دیا گیا، اس کے باوجود جب بھی انھیں موقع ملا اس نے اپنی بساط سے بڑھ کر، کر دکھایا۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عورت کے دل میں جگہ جگہ گڑھے ہوتے ہیں، جن میں تلخ یادوں اور تکلیف دہ حالات کا گدلا پانی جمع ہوتا ہے۔کتنی ہی باتیں اورکتنے ہی طعنے اور قصے ان میں تیر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ زبان پر چپ کا تالا لگائے رکھتی ہے۔
کم و بیش دنیا کے تمام مذاہب عورت کے حقوق اور اس کی ذات کی پاسداری کا درس دیتے ہیں، لیکن پھر بھی گینگ ریپ، کاروکاری، ونی، عورتوں کی اسمگلنگ، اس کی عصمت دری اور اس پر جسمانی تشدد کی ہزارہا ظلم کی داستانوں سے آراستہ عورت بہت باہمت اور بہت ہی مضبوط ہے، شکست خوردگی کہیں سے اس پر غالب نہیں آپائی، ایسے جی رہی ہے کہ مردوں کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے حالانکہ اسے اپنے دکھوں کا مداوا، اپنے زخم کا مرہم، اپنے جسم اور اپنی روح میں بسے ہوئے زہر کا تریاق نہیں مل سکا۔