ٹرمپ کو روکو
ٹرمپ پاکستان دشمنی میں ابھی اور آگے تک جاسکتے ہیں کیونکہ وہ بھارت میں مزید سرمایہ کاری کرنے کا پروگرام بناچکے ہیں۔
ٹرمپ کے صدر بنتے ہی امریکی عوام ان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ وہ اب تک مسلسل ان کے خلاف محو احتجاج ہیں اور ان کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اگر ٹرمپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ ہی نہیں دے دیتا اپنی قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگتا۔
سوال یہ ہے کہ آخر امریکی قوم انھیں کیوں ناپسند کررہی ہے۔ اس کی بھی حقیقی وجوہات ہیں جنھیں ٹرمپ خود بھی جانتے ہیں۔ اول تو وہ ایک بگڑے ہوئے دولت مند ہیں۔ ان کے نزدیک حلال حرام کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وہ ایک اسٹیٹ بروکر ہیں۔ انھوں نے پراپرٹی کے کام میں اندھادھند دولت کمائی ہے، ان کے ادارے کو امریکا میں اچھی شہرت حاصل نہیں۔ پھر یہ شخص اول درجے کا ابن الوقت، وعدہ خلاف، زر پرست اور انا پرست ہے۔ ان پر الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے کا بھی الزام ہے۔
ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے الیکشن جیتنے کے لیے امریکا کے دشمن ملک روس سے مدد لی تھی۔ اس سلسلے میں انکوائری جاری ہے۔ گوکہ ٹرمپ نے روس کی مدد لینے سے انکار کیا ہے مگر ٹرمپ کے کئی مشیر اس سلسلے میں شک کے دائرے میں ہیں اور ان سے مسلسل تفتیش جاری ہے۔ تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدارتی الیکشن میں اپنی مدمقابل ہلیری کلنٹن کے سرکاری لیپ ٹاپ سے مواد چوری کرانے میں ان کا ہاتھ تھا۔
موصوف نے ہر قیمت پر الیکشن جیتنے اور ہلیری کلنٹن کو ہرانے کی کوشش کی تھی۔ ان کی الیکشن میں کامیابی اس لیے بھی شک و شبہ کے دائرے میں ہے کیونکہ وہ ہر قومی مباحثے میں ہلیری کلنٹن سے مات کھاتے رہے تھے اور اپنے اکھڑ پن اور اجڈ پن کو ظاہر کرکے خود کو امریکی صدارت کے لیے نااہل ثابت کرتے رہے تھے۔
موصوف کو چونکہ کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا چنانچہ انتخابی مباحثوں میں ناکام ہی رہے تھے۔ اس لیے تمام امریکی ذرائع ابلاغ نے ہلیری کلنٹن کے جیتنے کی پیش گوئی کردی تھی، مگر اس کے باوجود ان کا الیکشن میں جیتنا ایک عجوبے سے کم نہ تھا۔
دراصل موصوف مذہبی انتہا پسندی اور قوم پرستی کا مسلسل پرچار کرتے رہے تھے، ساتھ ہی مسلمانوں پر امریکا میں داخلے کی پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے وہاں آباد مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کرتے رہے تھے۔ چنانچہ ان کی طرح انتہا پسندی کا رجحان رکھنے والے امریکیوں نے انھیں کامیاب کرایا تھا اور پھر موصوف نے صدارت کا عہدہ سنبھال کر فوراً ہی اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دینا شروع کردیا تھا۔
پہلے چھ مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عاید کردی، جسے خوش قسمتی سے ایک عدالت نے غیر قانونی عمل قرار دے دیا تھا مگر اس کے باوجود بھی وہ اس پابندی کو لاگو کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ سعودی عرب اور قطر میں تنازعہ کرانے میں کامیاب رہے، اس کے بعد ایران کو دھمکیاں دینا شروع کیں۔ وہ اوباما دور کے جوہری معاہدے کو بھی اسرائیل کی چاہت میں ختم کرچکے ہوتے اگر یورپی ممالک نے انھیں نہ روکا ہوتا۔
موصوف اسرائیل کے اس لیے بھی حامی و مددگار بن گئے ہیں کیونکہ ان کے الیکشن کے اخراجات یہودیوں نے ہی پورے کیے تھے مگر انھوں نے کمال ہوشیاری سے الیکشن سے قبل ہی ٹرمپ سے وعدہ لے لیا تھا کہ وہ صدر بننے کے فوراً بعد امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کردیںگے اور بالآخر انھیں ایسا کرنا پڑا مگر یہ امریکا کی مسلم ممالک سے متعلقہ مسلمہ پالیسی کے عین خلاف ہے، چنانچہ اس فیصلے کے اثرات آئندہ امریکا کو بھگتنا ہوںگے کیونکہ امریکا مسلم ممالک کو ناراض کرکے خود بھی خوش نہیں رہ سکتا۔
ٹرمپ نے مسلم دشمنی کو آگے بڑھاتے ہوئے شام کے بعد پاکستان کو بھی نہیں بخشا اور افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ بد قسمتی سے اس وقت پاکستان میں حکومت کو پاناما لیکس کے معاملے میں الجھادیاگیا ہے جس کی وجہ سے خارجہ پالیسی پر بھرپور توجہ مرکوز نہیں کی جارہی ہے۔
اب پاکستان کی امداد بھی بند کردی گئی ہے۔ اب وہ مزید ایک ستم ڈھائے جارہے ہیں۔ انھوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پیرس میں منعقدہ اجلاس میں پاکستان کا نام منی لانڈرنگ کرنے اور دہشت گرد تنظیموں کو مالی وسائل فراہم کرنے والے ممالک کو واچ لسٹ میں ڈالنے کے لیے فرانس برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر ایک قرارداد پیش کی ہے۔ گو کہ اس وقت ممبران کے درمیان اس پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو فی الحال تین مہینے کی مہلت دے دی گئی ہے مگر خود وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مہلت ختم ہونے کے بعد یہ قرارداد پاکستان کے خلاف پاس ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ٹرمپ بھارت کو پاکستان کے خلاف خواہش کو رد نہیں کرسکتے۔
اب دراصل امریکا دنیا کی قیادت کرنے کے قابل نہیں رہا ہے وہ تو ہر جگہ خود طاقت کا کھیل کھیل رہا ہے اور دنیا کے صرف طاقتور ممالک کے مفادات کے لیے کام کررہا ہے۔ وہ غریب ممالک اور مقبوضہ علاقوں کے محکوم عوام کی داد رسی کرنے کے بجائے ان کا دشمن بن گیا ہے۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور ان کے حق خود اختیاریت کی ترجمانی کرنے کے بجائے اسرائیل اور بھارت کا ہمنوا بن گیا ہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کی مالی امداد روکنے اور عالمی امداد کے دروازے بند کرانے اور دیگر مشکلات کھڑی کرنے کی ایک وجہ پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی ہیں مگر پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ٹرمپ بھارت کی اتنی آؤ بھگت اور اسے خوش کرنے کے لیے اپنے سرکاری اختیارات سے بھی تجاوزکیوں کررہے ہیں تو اس کی وجہ اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ ان کی کنسٹرکشن کمپنی جو ٹرمپ آرگنائزیشن کہلاتی ہے نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ٹرمپ ٹاورز کے نام سے وہاں ہائی رائز الٹرا ماڈرن فلیٹس تعمیرکیے گئے ہیں۔ یہ فلیٹس ممبئی، دہلی، پونا، بنگلور، حیدرآباد دکن اور کلکتہ میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ بھارت کے سب سے مہنگے فلیٹس ہیں، ان فلیٹس کی اب فروخت شروع ہوچکی ہے، یہ وقت ٹرمپ کے لیے بہت اہم ہے انھیں اپنے تمام فلیٹس فروخت کرکے اربوں ڈالر کمانے ہیں، چنانچہ وہ اس وقت بھارت کی طرفداری میں پاکستان کے خلاف کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
حیرت یہ ہے کہ امریکی کانگریس اور سینیٹ کے کسی بھی رکن کی جانب سے ان کی اس بے قاعدگی پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ مسئلہ در اصل یہ ہے کہ امریکا کے تقریباً تمام ہی پارلیمنٹرینزکسی نہ کسی ملک کے لیے کام کررہے ہیں تو پھر ٹرمپ کے خلاف آواز کون اٹھائے گا۔
ٹرمپ پاکستان دشمنی میں ابھی اور آگے تک جاسکتے ہیں کیونکہ وہ بھارت میں مزید سرمایہ کاری کرنے کا پروگرام بناچکے ہیں چنانچہ بہتر یہی ہے کہ اپنی بے قاعدگیوں کو درست کرلیا جائے اور تمام معاملات کو عالمی قوانین کے مطابق بنایاجائے تاکہ ٹرمپ کو مزید پاکستان دشمنی سے روکا جاسکے تاہم بھارت اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ کتنی ہی پابندیاں کیوں نہ لگوائے پاکستان کشمیریوں کی حمایت سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔