کالم کی عمر …
آج بھی ترقی کی راہ پر ایک قدم آگے کی طرف رکھتے ہیں تو دو قدم پیچھے پھسل جاتے ہیں۔
اواخر 2005 ء کی ایک تپتی دوپہر میں، کراچی میں ایک دفتر میں، میں اپنی پہلی کتاب، ایک محبت دو افسانے، جو کہ دو ناولوں پر مشتمل تھی، کی تقریب رونمائی کے لیے محمود شام صاحب کو دعوت اور کتاب پر تبصرے کی درخواست کرنے کے لیے موجود تھی۔ '' آپ کالم کیوں نہیں لکھتیں بی بی؟ '' ان صاحب نے سوال کیا، میں نے انھیں حیرت سے دیکھا اور سوچا، میں نے تو ابھی تک صرف محبت اور معاشرتی مسائل پر کہانیاں لکھی ہیں اور وہی انھوں نے پڑھی ہیں ، تو انھوں نے ایسا سوال کیوں کیا... انھوںنے اس سے قبل میری کتاب کا مطالعہ کر رکھا تھا ۔
'' میں نے تو کبھی کالم لکھا نہیں !! '' میں نے تذبذب سے کہا۔
'' مگر آپ لکھ سکتی ہیں !! '' انھوں نے مسکرا کر کہا۔
'' یہ کس نے کہا ہے؟ '' میں نے پھر سوال کیا۔
'' میں کہہ رہا ہوں... میری نظر میں اتنی پرکھ تو ہے کہ میں اس بات کو جان سکوں!! '' انھوں نے پورے وثوق سے کہا...'' فی الحال تو میں آپ کے پاس درخواست لے کر آئی ہوں ، آپ... '' میں نے اپنی غرض بتائی ...' 'بصد شوق، میں اس تقریب میں شرکت بھی کرونگا اور اپنے خیالات کا اظہار بھی!! '' انھوں نے وعدہ کیا۔ '' جس دنیا کو ہم سرسری نظر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں، آپ چلتے چلتے اس میں گہرائی تک دیکھ لیتی ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو مشاہدے کی وہ نظر دی ہے جو ایک لکھاری کو کالم نگار بناتی ہے... '' میں اس کا ذکر صرف اس بات کے لیے کررہی ہوں کہ مجھے کالم نگار بنانے میں اللہ کے بعد اگر کسی کا ہاتھ ہے تو وہ ان صاحب کا ہے۔
'' مگر مجھے تو ملکی اور غیر ملکی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں، رہی بات مذہب کی تو وہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جسے چھونے کے لیے میری عقل انتہائی ناقص ہے!'' میںنے تاویل پیش کی، '' کالم تو عموما ان ہی موضوعات پر ہوتے ہیں!''... ''یہی تو افسوس ہے کہ ہمارے ہاں عموما کالم ثقیل موضوعات پر ہی لکھا جاتا ہے، اس میں دنیا کے ان مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے جن سے ایک عام آدمی کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا! '' انھوںنے کہا، '' عام آدمی کے مسائل کو، عام زبان میں آپ جیسے لوگ لکھ سکتے ہیں، عام آدمی کی روزمرہ زندگی کے مسائل!! ''
'' میرے لکھنے سے کون سا مسائل حل ہو جائینگے... کسی کے لکھنے سے آج تک کیا فرق پڑا ہے؟ '' میں نے کہا۔ باتوںمیں وقت کا علم ہی نہ ہوا... '' لکھاری تو چاہتا ہے کہ وہ کچھ ایسا لکھے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے شام صاحب، اور کالم کی کیا عمر ہوتی ہے، ایک دن!! اگلے روز کا اخبار آتا ہے تو کل کا اخبار ختم ہو جاتا ہے!! '' اٹھتے ہوئے میں نے انھیں کوئی حوصلہ افزا جواب نہ دیا، میرا اس وقت اس صنف میں طبع آزمائی کا کوئی ارادہ نہ تھا، مگر وقت نے جلد ہی مجھے کالم نگار بنا دیا۔
2006ء کے وسط میں، ایک پبلی کیشنز کے دفتر میں، قمرعلی عباسی صاحب ( مرحوم ) اور ان کی اہلیہ نیلوفر عباسی کے اعزاز میں ایک ظہرانے میں ، پہلی بار عباسی صاحب مرحوم سے ملاقات کے شوق نے وقت سے پہلے ہی مجھے وہاں پہنچا دیا۔ '' تو آپ ہیں شیریں حیدر !! '' پرتپاک انداز سے مجھے ملتے ہوئے عباسی صاحب نے کہا، '' میری ہر صبح کا آغاز آپ کو یاد کر کے ہوتا ہے!! '' میں عجیب شش و پنچ میں پڑ گئی، ' کیا پوچھوں ؟' کیا وہ مجھے خواب میں دیکھتے ہیں... سوچا، ''بھئی آپ کا وہ کالم جس میں آپ نے پانی کے بیجا استعمال کے بارے میں لکھا ہے، میری نظر سے گزرنے والے ایسے کالموںمیں سے ہے جس نے میری زندگی کا رخ بدل دیا ہے !!'' میں اس کالم کے پڑھنے کے بعد سے، امریکا جیسے ملک میں رہ کر بھی کہ جہاں پانی اور بجلی جیسے وسائل کی کوئی کمی ہمیں محسوس نہیں ہوتی،بالکل اسی طرح کرتا ہوں جس طرح آپ نے اپنے کالم میں لکھا تھا۔
صرف اس وقت پانی کھولتا ہوں جس وقت اس کی ضرورت ہوتی ہے، نہاتے ہوئے، وضو کرتے ہوئے، دانت صاف کرتے ہوئے اور شیو بناتے ہوئے بھی... اسی طرح جس طرح آپ نے بیان کیا میں چلتے پھرتے دانت صاف کرتا ہوں، کھڑکیوں کے پردے ہٹاتا ہوں ، باہر سے اخبار اٹھاتا ہوں اور جب دو منٹ پورے ہو جاتے ہیں تو دوبارہ سنک پر جا کر پانی کھول کر کلی کر لیتا ہوں ... صرف صبح ہی نہیں، میں دن میں بھی کئی بار آپکو یاد کرتا ہوں !!'' اس پر ایک بھر پور قہقہہ پڑا، میں جو سٹپٹائی ہوئی تھی اور عباسی صاحب کی قوت بیان سے بے خبر، اب خودکو ریلیکس محسوس کیا اور ان کی صحبت سے لطف اندوز ہونے لگی۔ ان کی باتیں، ان کا لہجہ صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے انھیں بولتے ہوئے سنا ہو۔
یہ وہ وقت ہے جب مجھے کالم نگاری کرتے ہوئے لگ بھگ سات ماہ ہوئے تھے اور اتنے مختصر عرصے میں ایک اچھے لکھاری کے منہ سے اپنے لیے ایسے تعریفی کلمات میرے لیے آج تک سند ہیں۔ میں نے اپنی اس سوچ کی اس روز خود ہی تردید کی، اگر عباسی صاحب ایک کالم کے حوالے سے مجھے سات ماہ تک ہر روز یاد کرسکتے ہیں اور انھوں نے اپنی ایک عادت کو تبدیل کر لیا تو میری یہ سوچ کہ کالم کی عمر ایک دن کی ہوتی ہے، باطل ہو گئی ۔ جن کالموں کا تعلق ہمارے معاملات زندگی سے ہے وہ شاید زیادہ پر اثر ہوتے ہیں، میں نے اپنی مشاہدے کی قوت کو اور قلم کی طاقت کو بالخصوص ایسے موضوعات کے لیے وقف کردیا جو کہ ذہنوں پر اثر کریں۔
بارش کے ایک قطرے کی طرح، ایک آدمی کے ذہن تک بھی میرا کوئی کالم رسائی پا جائے تو وہ میرے لیے اعزاز ہوتا ہے۔ چاردن قبل فیس بک پر اپنا ایک دوسال پرانا 28 فروری 2016 کا شائع ہونے والا کالم ( ہم تو اس کتے سے بھی گئے گزرے ہیں ) دیکھا اور اسے شیئر کیا۔ وہ کالم کچھ سیاسی رنگ لیے ہوئے تھا کہ اس میں عام آدمی کی زندگی کے مسائل کو لے کر حکومت اور حکومتی عہدیداروں پر تنقید کی تھی۔ میں اس قدر حیرت زدہ ہوئی اپنا ہی کالم پڑھ کر کہ یوں لگا کہ وہ کالم میں نے اسی روز لکھا ہو۔ وہی ہمارے حالات، وہی حکمرانوں کے اللے تللے اور ان کی غفلت کے قصے... دو سال، جس عرصے میں دنیا میں کیا سے کیا تبدیل ہو گیا ہے، ایک نہیں تبدیل ہوا تو ہمارے مقدر، ہمارے ملک کے حالات، ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ انداز اور عوام کے کبھی حل نہ ہونے والے مسائل۔
ایک ایک لفظ آج بھی دیکھو تو آج کی حقیقت ہی لگتی ہے۔ تب میں نے اپنی سو چ کو دوسری بار جھٹلایا، کالم کی کوئی عمر نہیں ہوتی، حتٰی کہ کسی سیاسی موضوع پر لکھا گیا، حکومت پر تنقیدی کالم، پاکستان کے تناظر میں آج بھی وہی اہمیت رکھتا ہے اور پڑھ کر تازہ لگتا ہے جتنا کہ وہ دو سال پہلے تھا۔
اس کالم کو اگر آج بھی نئے عنوان کے ساتھ دوبارہ پڑھا جائے، تو وہ اتنا ہی نیا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے، کوڑے کے ڈھیر کی قسمت بھی مگر کچھ نہیں بدلتا تو وہ اس ملک کے لوگوں کے نصیب ہیں جو آج بھی ترقی کی راہ پر ایک قدم آگے کی طرف رکھتے ہیں تو دو قدم پیچھے پھسل جاتے ہیں۔ ہم میں اگر کچھ تبدیل ہوا بھی ہے تو وہ منفی رجحانات ہی ہیں، منفی سوچیں، منفی عادتیں اور منفی اعمال۔ ہمارے ہاں آج بھی فلم بنتی ہے تو اس میں وہی موضوعات عموما ہوتے ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے تھے، وہی تشدد اور وہی بے مقصد کہانیوں پرمبنی۔ ادب کی کسی بھی صنف کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنی سوچ کو بھی آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے، نہ ہم بدلتے ہیں، نہ ہماری سوچ، نہ ووٹ دینے کا طریقہ، نہ حکمرانوں کا طبقہ اور نہ ہمارے مسائل!!