طالبہ کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے والے ملزموں کو سزا ہو گی

 پولیس کی تفتیش سے مطمئن نہیں: طالبہ، میرٹ پر کام کر رہے ہیں، ایس پی

 پولیس کی تفتیش سے مطمئن نہیں: طالبہ، میرٹ پر کام کر رہے ہیں، ایس پی۔ فوٹو: فائل

لاہور:
تعلیم کے فروغ کے ساتھ طلبہ کی کردار سازی کے لئے جامعات بنائی جاتی ہیں تاکہ ہمارا نوجوان معاشرے کا ایک مفید رکن بن سکے، مگر افسوس! آج ہمارے تعلیمی اداروں کی صورت حال روز بروز دگرگوں ہوتی چلی جا رہی ہے، کیوں کہ جب استاد خود ہی اخلاقیات سے عاری ہو تو وہ طالب علموں کی کیا تربیت کرے گا۔

گزشتہ دنوں ملک کی بہترین یونیورسٹیز میں شامل زکریا یونیورسٹی میں ایک افسوسناک سکینڈل سامنے آیا جس میں ایک طالبہ سے نہ صرف زیادتی کی گئی بلکہ اس کی فحش ویڈیو بنانے کے الزامات بھی سامنے آئے لیکن اس واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس میں ایک استاد بھی ملوث پایا گیا۔

زکریا یونیورسٹی کے شعبہ سرائیکی کی طالبہ مرجان امین نے ویمن پولیس کو درخواست دی کہ وہ زکریا یونیورسٹی میں ایم اے سرائیکی (تھرڈ سمسٹر) کی طالبہ ہے۔ محمد علی رضا اس کا کلاس فیلو ہے، جس نے ایک سال قبل شادی کا جھانسہ دے کر اس سے تعلقات قائم کر لئے اور اس کی فحش ویڈیو اور تصاویر بنا لیں۔

ملزم ایک سال تک ان ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے اسے بلیک میل کرکے زیادتی کا نشانہ بناتا رہا اور رقم بھی بٹورتا رہا، وہ یونیورسٹی میں پسٹل لے کر آتا تھا اور اسے اسلحہ دکھا کر ہراساں کیا جاتا، ملزم اسے اور اس کے خاندان کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ محمد علی رضا اور شعبہ سرائیکی کے پروفیسر محمد اجمل مہار کے آپس میں دوستانہ مراسم ہیں، بعدازاں محمد اجمل مہار نے بھی علی رضا کے پاس موجود ویڈیو اور تصاویر کے ذریعے اسے بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔

پروفیسر اجمل مہار نے اسے کہا کہ اس کے پاس اس کی علی رضا والی ویڈیو موجود ہے، اگر اس نے اس کے ساتھ تعلقات قائم نہ کئے تو وہ نقصان اٹھائے گی، اگر میری بات مان جاؤ گی تو میں تمہاری جی پی اے بڑھا دوں گا اور جاب بھی دلوا دوں گا، ملزم علی رضا اور پروفیسر اجمل مہار اسے گھر لے گئے جہاں پر اجمل مہار نے ایس ہراساں کیا ملزم علی رضا کے دوست تنزیل ،نشاط اور عثمان وغیرہ بھی اس بلیک میلنگ میں شامل رہے ہیں۔


پولیس نے طالبہ کی اس درخواست کی روشنی میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا۔ بعدازاں 14روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر انہیں جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد طالبات اور ان کے والدین خوف وہراس کا شکار اور یونیورسٹی کا تشخص بری طرح مجروح ہوا۔

قابل افسوس امر یہ ہے کہ یہ تو ایک واقعہ تھا، جو منظر عام پر آیا، یونیورسٹی میں اس طرح کے بے شمار سکینڈل موجود ہیں، جن میں بیشتر طالبات اپنی عزت بچانے کی خاطر خاموش رہتی ہیں، تاہم کچھ نے شکایت کی تو ان کی شنوائی نہیں ہوئی اور برائے نام انکوائریوں کے بعد شکایات کو سرد خانے کی نذر کر دیا گیا۔

زکریا یونیورسٹی میں منشیات فروشی کا سکینڈل بھی سامنے آیا اس میں ملوث کرداروں کو سزا دینے کی بجائے معاملہ ختم کرنے کے لئے زور لگایا گیا اور ملوث طلباء کے مستقبل کے نام پر انہیں معافی دے دی گئی۔ طالبہ کو ہراساں کرنے کے واقعہ میں ملوث پروفیسر اجمل مہار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شہرت اچھی نہیںہے وہ ماضی میں بھی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔

زکریا یونیورسٹی میں سمسٹر سسٹم کے آغاز کے بعد جنسی ہراسمنٹ کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ باپ کا درجہ رکھنے والے بعض استاد شیطانی روپ اختیار کر چکے ہیں، وہ طالبات کو فیل کرنے کی دھمکی دے کر تعلقات استوار کرنے پر مجبور کرتے ہیں ماضی میں شعبہ سائیکالوجی ،انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز، ابلاغیات، سوشیالوجی اور فزکس کے شعبوں میں طالبات کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایات سامنے آچکی ہیں۔

طالبہ مرجان اور اس کے والد محمد امین کا کہنا ہے کہ وہ پولیس کی تفتیش سے مطمئن نہیں ہیں، مرکزی ملزم کا تعلق سیاسی گھرانے سے ہے اور وہ تفتیش پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ملزمان سے برآمد ہونے والی فحش ویڈیوز پولیس نے ضائع کر دی ہیں۔ ایس پی گلگشت جلیل عمران غلزئی نے بتایا کہ مقدمے کی تفتیش میرٹ پر کی جارہی ہے اور ملزموں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
Load Next Story