شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال

شامی فوج نے مشرقی غوطہ پر قبضے کے لیے مزید پیش قدمی کی ہے۔


Editorial March 05, 2018
شامی فوج نے مشرقی غوطہ پر قبضے کے لیے مزید پیش قدمی کی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اقوام متحدہ نے شام کے شہر غوطہ میں بشار الاسد حکومت کی بمباری کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے عالمی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کردیا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام کے شہر غوطہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے ملزمان کی شناخت کی جارہی اور مستقبل میں ان پر مقدمہ چلانے کے لیے دستاویزات تیار کی جا رہی ہیں، اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد پر اتفاق رائے کے باوجود مشرقی غوطہ میں عام شہریوں پر مسلسل بمباری کی جارہی ہے جو نہ صرف جنگی جرائم بلکہ انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہے، شہریوں کو سرنڈر کرنے یا موت میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اجلاس برطانیہ کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا۔

گزشتہ دو ہفتوں سے غوطہ میں جاری شامی اور روسی افواج کی بمباری سے 650 سے زائد شہری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔ انسداد کیمیائی ہتھیاروں کے بین الاقوامی ادارہ (او پی سی ڈبلیو) کے مطابق مشرقی غوطہ میں کلورین بم استعمال کیا گیا۔ اس وقت غوطہ میں مکمل جنگ بندی کے بجائے روس کے اعلان کے مطابق دن میں صرف 5گھنٹے کی جنگ بندی ہو رہی ہے۔

غوطہ شام کے شہر شام کے دارالحکومت دمشق کے مشرقی حصے میں واقع ہے، اس کا شمار ان چند علاقوں میں ہوتا جہاں بشار الاسد حکومت کے باغیوں کی اکثریت ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ نے 30دن کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تاکہ دمشق کے اس نواحی علاقے میں محصور لوگوں کی فوری مدد کی جا سکے لیکن جنگ بندی کے اس اعلان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور غوطہ پر شامی اور روسی افواج نے بمباری کا سلسلہ جاری رکھا جس کے باعث امدادی ٹرک داخل نہ ہو سکنے پر وہاں مقیم لاکھوں افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

شامی فوج نے مشرقی غوطہ پر قبضے کے لیے مزید پیش قدمی کی ہے۔ شام میں اس وقت صورت حال انتہائی پیچیدہ اور پریشان کن ہے جہاں داخلی سطح پر ملک مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکا ہے وہاں خارجی سطح پر امریکا' روس' ترکی' ایران سمیت دیگر غیرملکی قوتیں بھی جاری جنگ میں شریک ہو چکی ہیں۔ جس کے باعث شام کی بڑی آبادی تباہ ہو چکی اور شہر کھنڈر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق شام میں اب تک 10لاکھ سے زائد مسلمانوں کا خون بہہ چکا ہے' جس طرح امریکا نے افغانستان میں اپنے جدید ہتھیاروں کے تجربات کیے بالکل اسی طرح روس بھی اپنے ہتھیاروں کے تجربات کے لیے شام کو مشق ستم بنائے ہوئے ہے اور اس گھناؤنے کھیل میں شامی حکومت روس کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔

ایک جانب شامیوں کو بشار الاسد حکومت اور روسی بمباری کا سامنا ہے تو دوسری جانب شام کے شہر عفرین میں ترکی کرد باغیوں پر حملے کر رہا ہے' گزشتہ دنوں عفرین میں کرد باغیوں سے جھڑپوں کے دوران 8ترک فوجی ہلاک اور13زخمی ہو گئے تھے، اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز ترک فوج نے شامی علاقے عفرین میں بمباری کے دوران کرد ملیشیا کی حمایت کے لیے آنے والے شامی حکومت کے حامی 36 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔ شام کے شمالی شہر رقہ میں بشارالاسد حکومت کے حامیوں نے ایک نئے عوامی مزاحمتی گروپ کے قیام کا اعلان کیا تھا جو امریکی فوج کا مقابلہ کرے گا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق شام کے اس وقت مختلف حصے بخرے ہو چکے ہیں' ایران ایک حصے میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو ایک حصے میں اسرائیل اور امریکا ترکی پر دباؤ بڑھانے کے لیے کرد ریاست قائم کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں جب کہ امریکا اپنے قیام کو طول دینے کے لیے دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر ایک نیم خود مختار ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس پیچیدہ اور گمبھیر صورت حال میں شام کے مسئلے کا کوئی فوری حل سامنے نہیں آ رہا' موجودہ صورت حال کے تناظر میں یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ خانہ جنگی کا یہ عذاب جلد تھمنے والا نہیں اور شام کی بربادی کا سلسلہ ابھی مزید جاری رہے گا۔

اب اقوام متحدہ کی جانب سے شامی حکومت کو جنگی جرائم میں ملوث قرار دینے کا مطلب بشار الاسد کا حشر صدام حسین جیسا کرنا بھی ہو سکتا ہے تاکہ پوری مسلم دنیا کے حکمرانوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔