معاشی مفروضے اور حقائق

ایسا ہوتا بھی ہے کہ جہاں پیسہ زیادہ آجائے وہاں ’یہ بھی لے لو اور وہ بھی لے لو‘ کی ذہنیت چل پڑے۔


Kamran Aziz March 05, 2018

2007ء میں امریکی معیشت میں بھونچال آیا، پھر دنیا خاص طور پر یورپ بھر کی مارکیٹیں اس کی لپیٹ میں آگئیں، اس اقتصادی بحران میں دلچسپ صورتحال دیکھنے میںآئی، کھلی منڈیوں کے حامی مغرب نے اپنی ہی اقدار کو پامال کیا، حالات ایسے ہوگئے کہ امریکی پالیسی سازوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، ایک شعبے کو دیکھتے تو دوسرا شعبہ تباہی کی جانب جاتا، اسے سنبھالتے تو پھر تیسرا شعبہ اپنی جگہ سے پہاڑ کی طرح سرکنا شروع ہوجاتا.

انشورنس، بینک، آٹو سیکٹر سمیت تمام شعبوں کی بڑی کمپنیاں بیٹھنا شروع ہوگئیں، وقت ریت کی طرح ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا، پھر دنیا نے دیکھا کہ دوسروں کو نجکاری، منڈیاں کھولنے اور آزاد تجارت پر مجبور کرنے والے مغرب نے پینترا بدلا، بڑی بڑی کمپنیاں قومیالی گئیں، بہت سی فرمز دیوالیہ ہوئیں، کئی ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں، پھر دنیا کو مارکیٹ میں مداخلت سے روکنے والے امریکا، برطانیہ، جاپان سمیت دیگر ملکوں نے معیشتوں کو تباہی سے بچانے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا.

یورپ و مغربی دنیا کی اقتصادیات میں سب سے بڑا ہتھیار سود ہے، یہ اسے مہنگائی روکنے، منافع کمانے، کاروبار کی ترقی سمیت معاشی نمو کے لیے ہر اقتصادی سرگرمی کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان کی معاشی و زری بلکہ ہر پالیسی کا بنیادی نقطہ سود ہے جس کے گرد تمام عناصر گھومتے ہیں۔

امریکا میں 2007میں گھروں کے لیے لیے گئے قرضوں پر زیادہ سود نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو نادہندہ کیا تو بینکوں میں سرمائے کی قلت ہوگئی، بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہوئے، بینک بیٹھ گئے، معروف بینک لہمین برادرز ڈوبا تو دنیا میں جیسے بھونچال آگیا ہو، قریب تھا کہ نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کا مالیاتی نظام دھڑام سے گر پڑتا، امریکا سمیت بڑی معیشتوں نے بینکوں میں پیسہ ڈالنا شروع کر دیا۔

پیسے کی ریل پیل کے لیے 'ایزی منی' کی پالیسی اپنائی گئی یعنی بڑے مالیاتی پیکیجز، ڈوبتی کمپنیوں اور خراب مالیاتی اثاثوں کی خریداری کے ساتھ زری پالیسی کو سود کی شرح کم کرکے انتہائی نرم کردیا گیا تاکہ لوگوں کے پاس پیسہ آئے اور اشیا کی ڈیمانڈ پیدا ہو تو معیشتیں پھر سے اٹھنا شروع ہوں، مگر 2007-08کے مالیاتی بحران نے دنیا بھر میں صارفین کو انجانے خوف سے دوچار کردیا تھا جس کی وجہ سے لوگ محتاط خریداری کرتے رہے۔

خریدار کا یہ رویہ حیران کن تھا کیونکہ تھیوری یہ ہے کہ جب لوگوں کو زیادہ پیسہ ملتا ہے تو وہ خریداری کرتے ہیں اس سے ڈیمانڈ جنریٹ ہوتی ہے، کارخانے زیادہ مال بناتے ہیں، اس سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں، حتیٰ کہ معیشت 100 فیصد ایمپلائمنٹ کی طرف بڑھتی ہے یعنی ملازمتیں بہت اور ملازمت کے متلاشی کم ہو جاتے ہیں، اس سے اجرتوں میں اضافہ ہوتا ہے، یہ چیز معیار زندگی بہتر کرتی ہے، پھر اشیا کی قیمتیں ڈیمانڈ کے ساتھ بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔

مہنگائی ایک خاص حد سے بڑھے تو اسے کنٹرول کرنے کے لیے سود کی شرح بتدریج بڑھائی جاتی ہے تاکہ پیسہ مہنگا ہوجائے، لوگوں کی رسائی پیسے تک محدود ہو اور طلب ورسد متوازن ہوجائے، یہ سودی معیشت کا طریقہ کار ہے لیکن 2007-08 کے مالیاتی بحران سے شروع ہونے والی 'کسادبازاری' سستا پیسہ دستیاب ہونے کے باوجود ختم نہ ہو سکی بلکہ زیادہ خوفناک صورتحال 'سردمہری' میں تبدیل ہوگئی جس کے نتیجے میں بہت سی معیشتیں تفریط زر کا شکار ہوگئیں، یعنی اشیا کی قیمتیں لاگت سے گرگئیں۔

اب صورتحال یہ تھی کہ پیسہ بے تحاشا بہایا جا رہا تھا، اشیا کی قیمتیں بھی کم مگر خریدار پھر بھی غائب۔ جاپان اس صورتحال میں کئی برسوں سے پھنسا ہوا ہے، یہاں ایک اور تھیوری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا یعنی نوٹ زیادہ چھاپنے کا نتیجہ بہرحال مہنگائی کی صورت میں نکلتا ہے لیکن امریکا، برطانیہ، یورپی یونین کا سنگل کرنسی ایریا یعنی یورو زون اور جاپان سمیت بہت سے ملکوں میں بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپنے کے باوجود اشیا کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہو رہا تھا۔

ترقی یافتہ معیشتوں کے طرم خان لاکھوں جتن کرنے کے بعد بھی مطلب کے نتائج حاصل نہ کر سکے، انھیں پہلی بار افراط زر کی شرح کا ہدف مقرر کرنا پڑا، جاپان، امریکا و دیگر ملکوں نے انفلشن ریٹ میں اضافے کا ہدف 2 فیصد مقرر کیا مگر برسوں پیسہ پانی کی طرح بہانے کے باوجود برطانیہ کے سوا کہیں یہ ہدف حاصل نہ ہوا۔

برطانیہ میں بھی اشیا کی قیمتیں بڑھیں تو کسی اقتصادی سرگرمی کی وجہ سے نہیں بلکہ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اور 2016کی بات ہے جب بریگزٹ ووٹ پر برطانیہ سے متعلق مختلف قیاس آرائیوں نے پاؤنڈ کی قدر منہ کے بل گرادی تو درآمدی اشیا مہنگی ہونے سے وہاں مہنگائی ہوئی اور وہ بھی 2017 کے نومبر میں جا کر ہوئی، جب انفلیشن ریٹ 3.1 فیصد پر پہنچا، لیکن باقی مغربی دنیا اب بھی سر دھن رہی ہے کہ قیمتیں نہیں بڑھ رہیں، جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں محدود ہیں۔

امریکا میں تو معاشی ترقی کا انحصار ہی مقامی صارف کے اخراجات پر ہے یعنی خوردہ سطح پر جب اشیا کی کھپت میں اضافہ ڈیمانڈ بڑھا کر قیمتوں میں اضافہ کرتا ہے مگر وہاں ایسا نہیں ہو پا رہا، جاپان تو برسوں کے بعد بھی 2 فیصد مہنگائی کا ہدف نہیں حاصل کرسکا، حالات اس نہج پر آگئے کہ کئی مغربی ممالک میں شرح سود منفی کردی گئی تاکہ پیسہ بینکوں میں نہ آئے اور معیشت میں جائے، منفی شرح سود کا مطلب یہ ہے کہ کمرشل بینکوں کو اپنا اضافی پیسہ مرکزی بینک میں رکھوانے پر منافع نہیں ملے گا، ایسا اس لیے کیا گیا کہ بینک پیسہ ریگولیٹر کے پاس رکھوانے کے بجائے عوام کو ادھار پر دیں اور وہ اپنے استعمال میں لائیں تاکہ ڈیمانڈ بڑھے لیکن یہ بھی عبث۔

صورتحال اب بھی دلچسپ ہے اور کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے، صارفین کا خرچ کرنے کا رجحان بھی ریڈار میں آرہا ہے اور یہ معاشی مفروضے دم توڑتے دکھائی دے رہے ہیں، ان سوالات کے جواب کھوجنے کے لیے یقیناً تحقیق کی ضرورت ہے، سوال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپنے کے باوجود مہنگائی کیوں نہ ہوئی، کیونکہ کرنسی بھی جنس ہے، یہ دیگر اشیا کی طرح بیچی اور خریدی جاتی ہے، بہتات کے باوجود جاپانی، سوئس، یورو اور پاؤنڈ کی قدر میں کمی کیوں نہ ہوئی، بڑی معیشتیں بیٹھنے سے بڑے پیمانے پر لوگ بیروزگار ہوئے، اب صورتحال بہتر ہو چکی ہے خاص طور پر امریکا، برطانیہ اور جاپان میں 100 فیصد ایمپلائمنٹ کی بات ہو رہی ہے، مگر اجرتیں بڑھ رہی ہیں نہ اشیا کی ڈیمانڈ پیدا ہو رہی ہے۔

سود کی شرح امریکا میں اگرچہ گزشتہ سال سے بڑھانا شروع کی گئی جو اب بھی بہت کم ہے مگر اب بھی یورو زون، برطانیہ میں کم ترین سطح پر ہے بلکہ جاپان، سوئٹزر لینڈ میں تو ریٹس منفی ہیں، الٹرا لوز مانیٹری پالیسی نتائج نہیں دے رہی، حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ پالیساں کارگر ہوتی بھی ہیں یا نہیں کیونکہ دیگر عوامل بھی ساتھ کام کرتے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ آپ کسی کو پیسہ تھما کر خریداری پر مجبور کرسکیں۔

ایسا ہوتا بھی ہے کہ جہاں پیسہ زیادہ آجائے وہاں 'یہ بھی لے لو اور وہ بھی لے لو' کی ذہنیت چل پڑے، یہ مفروضے پتھر پر لکیر ہیں نہ سی او ٹو کا فارمولہ، یہ اندازے ہیں جو ہرصورت تخمینوں پر پورا نہیں اترتے، اس لیے ان میں ہروقت تبدیلی کی ضرورت رہتی ہے اور کی بھی جاسکتی ہے، اگر جانور کو بھوکا رکھ کر کھانا دیا جائے تو وہ جھپٹ پڑے گا، مگر انسان بھوک کی وجہ سے قریب المرگ بھی ہو تب بھی کھانے سے انکار کر سکتا ہے۔

اجتماعی معاشی معاملے میں بھیڑ چال کو قرین قیاس قرار دے کر پالیسی بنائی جاتی ہے مگر یہاں مذہب بڑا فرق ہے، اسے نظرانداز کرکے پالیسی سازی صرف نظر ہی ہوگی، ایسی پالیسیاں جو وہ بھی نہیں چلاسکتے جو بناتے ہیں، انھیں مسلم معاشرے پر مسلط کرنا جبر ہوگا۔ 1400 سال گزرنے کے بعد بھی اگر ہم اسلامی تعلیمات پر مبنی کوئی معاشی نظام نہ لا سکے تو اسے پرلے درجے کی نااہلی قرار دیا جائے گا، انسان اور مسلمان دنیا میں اب بھی جیتے ہیں، اس طرف نظر کیے بغیر انسانیت کی خدمت ممکن نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔