سینیٹ انتخابات نوازشریف کی نئی فتح

سینیٹ کے نئے انتخابات اور نئے ارکانِ سینیٹ بارے کئی منفی باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔


Tanveer Qaisar Shahid March 05, 2018
[email protected]

ISLAMABAD: پاکستان میں اِسے ایوانِ بالا، بھارت میں راجیہ سبھا، برطانیہ میں ہاس آف لارڈز اور امریکا میں اِسے سینیٹ کہتے ہیں۔ نام اور کام سب کا ایک ہی ہے۔ ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی اور اس میں بیٹھنے والے منتخب عوامی نمایندوں کے بنائے گئے قوانین کو آخری اور حتمی شکل دینا۔ مہرِ تصدیق وتوثیق ثبت کرنا۔ یہ دراصل بادشاہ لوگ ہوتے ہیں۔جمہوریت کے گھن چکر میں نئے قانون ساز۔ پاکستان میں بھی گذشتہ روز ''نئے بادشاہوں'' کا انتخاب ہُوا ہے یعنی پاکستانی سینیٹ کے نئے چار درجن سے زائد ارکان کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔

کسی کو پسند آئے یا نہ آئے ، سینیٹ کے یہ نئے انتخابات، جو 3مارچ2018ء کو منعقد ہُوئے ہیں، جناب میاں محمد نواز شریف کی نئی فتح اور شاندار کامیابی ہے۔ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کی منفرد نئی فتح۔ وہی نواز شریف جنہیں عدالتِ عظمیٰ نے دوبار تازہ تازہ ''مسترد'' کیا ہے: ایک بار وزارتِ عظمیٰ سے نکال کر اور دوسری بار پارٹی کی صدارت کے لیے نااہل قرار دے کر۔

کہا جانے لگا تھا کہ نواز شریف تو اَب گئے سیاست سے۔ اُن کا کوئی کہا مانے گا نہ اُن کا پارٹی میں حکم چلے گا۔ نواز شریف بروئے کار آئے ۔ اپنا نیا اور زوردار بیانیہ لے کر۔ کوئی اِس بیانئے کوچاہے جتنا بھی بے اصولی اور سرکشی سے معنون کرے، اپنی نوعیت کی نئی جرأت تو تھی۔ نواز شریف دیوار سے لگتے لگتے بچے ہیں۔اپنے اِسی نئے بیانئے کی بدولت۔ بِلا شبہ اِس میں اُن کی صاحبزادی مریم نواز شریف صاحبہ کی بھی تگ و دَو شامل ہے۔

محترمہ مریم نواز کے عدلیہ بارے بیانات اور ٹویٹس کی مخالفت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن بہر حال اُن کا جوان اور جرأت مندانہ بیانیہ نوجوانوں میں مقبول تو ہُوا ہے۔ اِسے قبولیت ملی ہے۔ چوہدری نثار علی خان ایسے کئی سیاستدان ہوں گے جنہوں نے برسرِ مجلس اور نجی مجالس میں مریم نواز شریف کی قیادت قبولنے سے انکار کیا ہے لیکن اکثریت نے تو اُن کی آواز پر لبیک ہی کہا ہے۔

لاہور میں این اے 120کے حلقے میں ضمنی انتخاب کا مرحلہ ہو یا پنجاب بھر کے نئے جلسے، اپنے والدِ گرامی کے پہلو بہ پہلو محترمہ نواز شریف کی معرکہ آرائیاں ہر پہلو سے کامیاب رہی ہیں۔سینیٹ کے نئے انتخابات نے تو اَب ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ نواز شریف کی دوبار نااہلی کارگر ثابت نہیں ہُوئی ہے۔

سات ماہ قبل جناب محمد نواز شریف کی پہلی عدالتی نااہلی کے بعد کہا جانے لگا تھا کہ اب نون لیگ کی حکومت بھی نہیں بچے گی، سینیٹ کے انتخابات بھی نہیں ہوں گے اور اگلے عام انتخابات کا رَن بھی نہیں پڑے گا۔ دو''پیشگوئیاں'' تو غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ الحمد للہ۔ نون لیگ کی حکومت بھی نقصانات کی زَد میں نہیں آئی ہے اور سینیٹ کے انتخابات بھی امن سکون سے ہو گئے ہیں۔

عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے دوسرے نواز شریف مخالف فیصلے کے بعد سینیٹ کے نون لیگی امیدوار بھی لاوارث سے ہو گئے تھے کہ وہ نواز شریف کی جماعت کے پرچم تلے سینیٹ کا انتخاب لڑ ہی نہیں سکتے تھے۔ اُنہیں آزادانہ یعنی بے نام ہو کر ایوانِ بالا کے الیکشن میں اُترنا تھا۔ اور وہ اِسی حالت اور اِسی بے نامی کے ساتھ تین مارچ کو اُترے بھی۔ اللہ نے نواز شریف کے تقریباً اکثریتی امیدواروں کو کامیابیوں سے نوازا ہے۔

پنجاب، وفاقی دارالحکومت اور کے پی کے میں نون لیگ کامیاب و کامران رہی ہے۔ یوں اِسے قدرے قومی سیاسی جماعت کے لقب سے بھی پکارا جا سکتا ہے۔ اور اس کا سارا کریڈٹ ، ظاہر ہے، نواز شریف ہی کو جاتا ہے۔ سینیٹ کے تازہ انتخاب میں پنجاب کی بارہ سیٹوں میں سے نون لیگ کا گیارہ سیٹوں پر کامیاب ہو جانا معمولی فتح ہے؟

اسلام آباد میں تو نواز شریف کو سو فیصد کامیابی ملی ہے۔ دو سیٹیں تھیں اور دونوں نون لیگ لے اُڑی ہے۔ ایک پر مشاہد حسین سید بطور ٹیکنو کریٹ کامیاب رہے ہیں اور دوسری جنرل نشست پر سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے صاحبزادے اسد جونیجو ۔ کے پی کے میں بھی نون لیگ کے چندامیدوار جیتے ہیں۔

یوں نواز شریف کی فتح کا جھنڈاکچھ اِس شان سے لہرایا ہے کہ پاکستان کے ایوانِ زیریں کے ساتھ ساتھ ایوانِ بالا میں بھی نون لیگ کی اکثریت غالب آگئی ہے۔ ابھی تو جو لوگ ''آزاد'' منتخب ہُوئے ہیں ، توقع ہے کہ اُن میں سے بھی کئی نون لیگ کا حصہ بن جائیں گے۔ایسے میں محترمہ نواز شریف کا ایک ٹویٹ یوں سامنے آیاہے:'' دشمنوں کو خبر ہو کہ اللہ ہی عزت عطا فرمانے والا ہے۔'' لاریب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے انسانوں کو عزت دینا اور ذلّتوں سے ہمکنا رکرنا۔

اکاون یا باون کی تعداد میں منتخب ہونے والے نئے سینیٹرحضرات اگلے چھ برسوں کے لیے پاکستانی ایوانِ بالا کے معزز رکن بن گئے ہیں۔ سینیٹ کے نئے انتخابات اور نئے ارکانِ سینیٹ بارے کئی منفی باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ ''پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ہے'' اور یہ کہ''نواز شریف نے سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اربوں روپیہ خرچ کر ڈالا ہے'' اور یہ بھی کہ'' آصف علی زرداری نے سندھ کو اپنی مُٹھی میں رکھنے کے لیے دولت کے بَل پر کئی لوٹوں کو اپنا بنا لیا۔''

ہمارے ہاں جس اسلوب کی سیاست کا چلن ہے، اِن الزامات کو محض بے بنیاد بھی نہیں کہا جا سکتا۔ جمہوری سیاست میں پیسہ تو بہر حال چلتا ہے۔ بھارت میں بھی، برطانیہ میں بھی ، امریکا اور کینیڈا میں بھی۔ بس شکلیں ذرا مختلف ہیں۔ وطنِ عزیز کی سیاست بھی پیسے کی لعنت سے محفوظ اور منزّیٰ نہیں ہے۔ اِسے بہرحال پاک اور مصفّا کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔

یہ بھی شکائت اور گِلہ سامنے آیا ہے کہ سینیٹ کے تازہ انتخابات میں ہمارے الیکشن کمیشن نے'' مطلوبہ فلٹر '' کا کام نہیں کیا ہے۔ اِسے غفلت کا ارتکاب کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ اِن انتخابات میں بعض ایسے لوگ بھی سینیٹر بن گئے ہیں جن پر مبینہ طور پر برطانیہ اور امریکا میں کئی مقدمات بن چکے ہیں۔منی لانڈرنگ کے کیس بھی اور کریڈٹ کارڈز کے فراڈز میں بھی ماخوز ۔ایک صاحب تو امریکا میں منی لانڈرنگ کرتے ہُوئے رنگے ہاتھوں گرفتار بھی ہُوئے۔

امریکا کے ممتاز ترین اخبار ''نیویارک ٹائمز'' میں اُن کی گرفتاری، مقدمے اور مبینہ جرم کے بارے میں نمایاں خبر شایع ہُوئی۔ اگر آپ ان صاحب کا نام گوگل پر ٹائپ کریں تو یہ خبر اب بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ممکن ہے بعد ازاں وہ ''باعزت'' بری بھی کر دیے گئے ہوں لیکن یہ داغِ ندامت و شرمندگی اُن کے دامن پر لگ تو چکا ہے۔ زیادہ مناسب یہ تھا کہ موصوف کو ٹکٹ ہی نہ دیا جاتاکہ پاکستانی سینیٹ اور اس کے جُملہ ارکان کا احترام اور اکرام برقرار رہنا چاہیے۔

اِن شکایات کے پس منظر میں رکنِ قومی اسمبلی شیخ رشید احمد صاحب کا سینیٹ کے تازہ انتخاب سے قبل یہ غُل مچانا بجا لگتا تھا کہ سینیٹ کے انتخاب سے قبل امیدواروں سے 19سوالات کا جواب لینا از بس ضروری ہے۔ ان سوالات میں امیدواروں کی شہریت، جائیداد اور اُن پر قائم کسی مقدمے کی نوعیت بارے استفسار زیادہ نمایاں اور ناگزیر تھے۔ کسی نے مگر اُن کے شور کو درخورِ اعتناء ہی نہ سمجھا۔

کل کلاں ہماری کسی عدالت نے اس پہلو پر اٹھنے والے کسی کیس میں فیصلہ سنا دیا تو غیر ملکی شہریت رکھنے اور مشکوک کردار رکھنے والے ارکانِ سینیٹ کسی بڑے بحران کا مُوجب بن جائیں گے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہمارے الیکشن کمیشن کے معزز ارکان جرأت مندی سے پہلے ہی ''فلٹر'' لگا دیتے تو اِن خدشات کے سامنے بخوبی بند باندھا جا سکتا تھا۔جناب نواز شریف ، جن کے بارے میں سارے ملک کے سارے شرفا نے بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں، کو کم از کم اپنی جماعت میں از خود یہ ''فلٹر'' ضرور لگانا چاہیے تھا۔

میاں صاحب پر یہ بھی لازم تھا کہ ایسے افراد کو بھی سینیٹ کا رکن نہ بناتے جو ابھی کل تک قاف لیگ اور چوہدری شجاعت حسین کی محبت کادَم بھر رہے تھے، پھر وہ پرویز مشرف کے ساتھی بن گئے اور اَب نون لیگ کے ٹکٹ پر اسلام آباد سے ٹیکنو کریٹ کی حیثیت میں سینیٹر بن گئے ہیں۔ ایسے افراد نواز شریف کی نئی فتح کو اخلاقی طور پر گہن لگانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔