سنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چپ چاپ
ایک وقت تھا کہ مشاعروں اور پشتو کی ادبی دنیا میں نوشاد علی باتور ایک بڑا اور منفرد نام ہوا کرتا تھا۔
ISLAMABAD:
یہ صرف ایک مصرعہ ہی نہیں بلکہ پوری غزلہے، یہ آج بہت یاد آرہی ہے جو اقبال بانو مرحومہ نے گائی ہے اور ملتان کے کسی شاعر کی ہے جس کے بارے میں ایک مرتبہ ہمیں ایکسپریس ملتان کے ایڈیٹر نے تھوڑا بہت بتایا تھا اور ہم نے اس کے مطبوعہ یا غیر مطبوعہ کلام کی فرمائش کی تھی لیکن وہ بھی شاید بھول گئے اور ہم بھی ۔
یاد آوری کی وجہ پشتو کے ایک شاعر '' نوشاد علی باتور '' کا دفن ہونا ہے کیونکہ مرتو وہ بہت پہلے اس دن گیا تھا جس دن پیدا ہوا تھا ۔ باقی ستر اسی سال وہ اپنی لاش کو یہاں وہاں لیے پھرتا رہا، شاید دفن ہونے کے لیے جگہ پسند نہیں آرہی تھی لیکن اب شاید وہ بہادر شاہ ظفر سے ذرا زیادہ خوش قسمت نکلا کہ نوشہرہ میں کہیں اسے دفن ہونے کے لیے '' دوگز '' زمین مل گئی ہے ۔
لیکن اس لحاظ سے وہ اس ملتانی شاعر (غالباً اقبال نام تھا ) سے زیادہ بدنصیب نکلا کہ اسے کوئی اقبال بانو بلکہ صرف ایک اقبال یا صرف ''بانو'' بھی نہیں ملی تھی ۔ اس لیے اس شعر کی مکمل تفسیر دے گیا کہ
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چپ چاپ
اس غزل کے باقی سارے شعر بھی شاعر کے تو حسب حال ہوں گے ہی لیکن '' نوشاد علی باتور '' پر اس سے بھی زیادہ موزون لگتے ہیں ۔ معلوم نہیں کس نے لیکن ایک نا معلوم ایس ایم ایس کے ذریعے ہمیں صرف یہ الفاظ ملے کہ نوشاد کاکا باتور ایکسپائرڈ ۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ نہ وقت نہ جگہ نہ جنازے کا یا فاتحے کا کوئی مقام اور وقت ۔ صرف نوشاد کا کا باتور ایکسپائرڈ اور ہمارے لیے اس میں کوئی ''خبر '' تھی ہی نہیں کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا کہ ایکسپائر تو وہ مینو فکچرنگ کے وقت بلکہ شاید اس سے بھی پہلے ہو چکے تھے اور یہ بھی ہمارے علم میں تھاکہ وہ تو خود '' آسمانی کھاٹ '' تھا ۔ تو اس کے جنازے کا کھاٹ کہاں ہوگا '' آسمانی کھاٹ '' ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کا کوئی پتہ ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔حالانکہ ایک وقت تھا کہ مشاعروں اور پشتو کی ادبی دنیا میں نوشاد علی باتور ایک بڑا اور منفرد نام ہوا کرتا تھا۔ وہ قلندر مومند، سردار خان فنا، ایوب صابر، حمزہ بابا، سمندر خان سمندر اور یہاں تک کہ خاطر غزنوی، احمدفراز، محسن احسان، فارغ بخاری اوراجمل خٹک کا ہم صحبت ہوتا تھا۔ وہ اپنی منفرد قسم کی شاعری کے لیے مشہور تھا ۔ وہ چھو ٹے چھوٹے فقروں میں بڑی بات کہنے کا فن جانتا تھا، ساحر لدھیانوی کا مشہور شعر کہ
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
باتور کہتا تھا خوامخواہ اتنا بتنگڑ بنانے کی کیا ضرورت تھی اور پھر اس نے پشتو میں اس کا ترجمہ یوں کردیا کہ زمانے نے جو دیا وہ میںنے لوٹا دیا ۔
طبعیت میں اس کی جتنی شوخی تھی، زندگی میں اتنی ہی اس کی تلخی اور تنہائی تھی ۔ پیدا تو وہ ہمارے ایک پڑوس کے گاؤں میں ہوا تھا، امان کوٹ، لیکن اپنے گاؤں کے شاید کسی بھی شخص کو اب معلوم نہ ہو کہ نوشاد علی باتور بھی ایک فرد اس گاؤں کا تھا ۔ وہ عمر بھر جہاں گشت رہا ہے، آوارہ گرد بھی کہہ سکتے ہیں لیکن خانہ بدوش نہیں کیونکہ اس کا کوئی '' خانہ '' تھا ہی نہیں، اکیلا آیا تھا، اکیلا دربدر پھرا کیا اور اکیلا ہی چلا گیا ۔
رگوں میں زہر کے نشتر اتر گئے چپ چاپ
ہم اہل '' درد '' جہاں سے گزر گئے چپ چاپ
کبھی موقع ملے تو اقبال بانو کی آواز میں یہ غزل ضرور سنئے گا کیونکہ اس نے صرف غزل نہیں گائی ہے بلکہ شاعر کو بھی گایا ہے اور اس کے الفاظ کو وہ گویائی دی ہے کہ ساز بھی '' چپ چاپ '' ہوگئے ہیں '' چپ چاپ '' کے دو عام الفاظ کو اس نے کچھ ایسی ادا سے گایا ہے شاید اسے خود اپنے وجود کا ادراک بھی ہوگیا۔'' چپ '' کا لفظ تو عام سا لفظ تھا لیکن '' چا آ آ آ آ پ '' کو اس نے جو کھینچ کر اپنی جگہ جمایا ہے اس کا جواب نہیں ۔ نوشاد کاکا باتور ایکسپائرڈ کے الفاظ پڑھ کر ہم نے اپنے بیٹے سے یہ غزل نکالنے کے لیے کہا اور تب سے اب تک کوئی تیس بار سن چکے ہیں۔ ہر بار ''چپ چاآ آ آ آپ ''کے ساتھ نوشاد علی باتور اپنے مخصوص تلخ انداز میں مسکراتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
زندگی تو خیر اس کی ایک طویل لطیفہ تھی ہی جس کا کلائمکس نوشاد کاکا باتور ایکسپائرڈ پر ہو گیا ہے لیکن جاتے جاتے ایک اورلطیفہ بھی دے گیا۔
جس کسی نے ہمیں وہ ایس ایم ایس بھیجا ہے، اس نے نہ اپنا نام لکھا ہے اور نہ ہی '' ایکسپائرڈ '' کے بارے میں کچھ اور لکھا ہے صرف سوکھے ساکھے الفاظ تھے، نوشاد کاکا باتور ایکسپائرڈ ۔ لطیفہ یہ ہوگیا کہ تین دن بعد اس ایس ایم ایس کا باقی حصہ ہمیں مل گیا جو راستے میں ایس ایم ایس سے غالباً ایسا بچھڑ گیا تھا جیسے نوشاد علی باتور سے زندگی یا زندگی سے وہ بچھڑ گیا ۔ تیسرے دن ایس ایم ایس کا بقیہ بھی صرف اتنا تھا۔ ان نوشہرہ کینٹ ۔
نمبر وہی تھا اور صرف یہی الفاظ تھے اس لیے ہم سمجھ گئے کہ یہ اسی میسج کا بقیہ ہے جو پیچھے ٹھیک اسی طرح رہ گیا تھا جیسے کسی غریب کے جنازے سے امیر لوگ کسی نہ کسی طرح '' رہ '' جاتے ہیں ۔
کسی پہ ترک تعلق کا بھید کھل نہ سکا
تری نگاہ سے ہم یوں اتر گئے چپ چاپ
یہ عروس ہزار داماد جسے لوگ دنیا کہتے ہیں اس کی '' نگاہ '' سے نہ جانے ایسے کتنے ؟ ایسے ہی چپ چاپ اتر گئے ہوں گے لیکن اسے کیا پروا اس کی نگاہ تو آنے والوں پر جمی ہوئی ہوتی ہے، جانے والوں پر نہیں۔ پلٹ کے دیکھنا اس کی عادت ہی نہیں ۔
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
آخری شعر تو اس غزل کا وہ ہے جو آپ پہلے پڑھ چکے ہیں لیکن ہمارے خیال میں آخری شعر یہ ہونا چاہیے کم از کم نوشاد علی باتور کے لیے کہ
تمہارے شہر میں رو رو کے '' دن '' گزار لیا
ہوئی جو شام تو ہم اپنے گھر گئے چپ چاپ
وہ آیا ہی اپنے گھر جانے کے لیے تھا ۔ شہر میں تو صرف اس نے اتنا وقت گزارنا تھا کہ اندھیرا ہو جائے تاکہ کوئی اس کی کس مپرسی نہ دیکھ سکے ۔
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
اچھا ہوا نہ خبر ہوئی نہ ہم گئے ورنہ ۔ '' دل داغدار '' میں
ایک اور داغ کے لیے جگہ ہی نہیں بچی ہے