بین المذاہب شادیاں

ہندوستان میں یہ کلچر نیا نہیں بلکہ اس کی جڑیں تاریخ میں گڑھی ہوئی ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari March 05, 2018
[email protected]

بھارت میں ہندو مذہبی انتہا پسند طاقتیں کتنی ہی انتہا پسندی کا مظاہرہ کریں، بھارت کے بعض ہندو اور مسلمان حلقوں میں کھلم کھلا سیکولرزم کے مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں سے شادیاں کر رہے ہیں اور ہندو نوجوان مسلمان لڑکیوں سے شادیاں کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں یہ کلچر نیا نہیں بلکہ اس کی جڑیں تاریخ میں گڑھی ہوئی ہیں۔

ہندوستان میں مسلم حکمرانی کے ہزار سالہ دور میں مسلمان بادشاہ ہندو کنیاؤں سے بیاہ رچاتے رہے اور مسلمان خواتین سے ہندو نوجوانوں نے بھی شادیاں رچائیں۔ نہرو کی بہن ارونا نے آصف علی سے شادی کی اور ارونا آصف علی بن گئیں۔ اکبر بادشاہ کی جودھا بائی سے شادی تاریخ کی یادگار شادیوں میں سے ایک تھی، اس کے علاوہ بھی اعلیٰ اور ادنیٰ سطح پر اس قسم کی شادیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بھارت کے مشہور ادیب کرشن چندر نے مسلمان خاتون سلمیٰ سے شادی کی اور سلمیٰ کرشن چندر کہلائیں۔

دور حاضر میں کئی مسلمان اداکاروں نے ہندو اداکاراؤں سے شادیاں کیں اور کئی مسلمان لڑکیوں نے ہندو اداکاروں، تاجروں سے شادیاں کیں۔ اداکار سیف علی خان نے کپور خاندان کی مشہور اداکارہ کرینہ کپور سے شادی کی، معروف اداکار عامر خان نے بھی ایک ہندو لڑکی سے شادی کی، اس طرح کئی معروف لوگوں نے بین المذاہب شادیاں کیں، ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار سلمان خان کی بہن کی شادی بھی ایک ہندو نوجوان سے ہوئی۔ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بھی بھارت میں بے شمار مسلمان لڑکیوں نے ہندو لڑکوں سے شادیاں کیں اور ''پرامن'' زندگی گزاری ۔

ایڈمرل رام داس بھارتی بحریہ کے چیف رہ چکے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لیے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے وہ اکثر پاکستان آتے رہے اور پائلر کے مہمان رہے۔ ان سے دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات کو پروموٹ کرنے کے حوالے سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں، آج کل جانے وہ کہاں ہیں زندہ ہیں یا سورگ باشی ہوگئے ہیں ہمیں اس کا علم نہیں لیکن موصوف اکثر اپنی بیٹی کے حوالے سے بڑی دلچسپ داستان سناتے تھے۔ ان کی بیٹی کی بیرون ملک تعلیم کے حصول کے دوران ہمارے ایک پاکستانی دوست ڈاکٹر افتخار کے بھائی سے محبت ہوگئی اور دونوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ رام داس کی صاحبزادی نے اپنے پتا جی کو اطلاع دی کہ وہ اپنے یونیورسٹی کے ایک مسلمان دوست سے شادی کرنے جارہی ہیں۔

رام داس بھارت جیسے دنیا کے دوسرے بڑے ملک کے نیول چیف تھے وہ سخت پریشان ہوئے۔ رام داس نے بتایا کہ معاملہ بہت اہم ہے ۔ سو انھوں نے وزیراعظم سے انتہائی احتیاط کے ساتھ ذکر کیا۔ وزیراعظم نے اپنے نیول چیف کی بات بڑے تحمل سے سنی اور کہا کہ یہ دو انسانوں کا ذاتی مسئلہ ہے اس میں ریاست کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔ رام داس کی جان میں جان آئی۔ ہندوستان کی مشہور اداکارہ نرگس مسلمان تھی اس نے سنیل دت سے شادی کی سنجے دت ان کی مشترکہ اولاد ہے۔ اس نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کی، ہندوستان اور پاکستان کی بین المذاہب شادیاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں لیکن بین الامذاہب شادیاں دونوں ملکوں میں ہو رہی ہیں۔ بھارت میں یہ مسئلہ متضاد رویوں کا حامل ہے۔

ہندوستان کے حال کی صورتحال بہت مایوس کن ہے۔ بی جے پی کا شمار ہندوستان کی انتہا پسند جماعتوں میں ہوتا ہے اس جماعت کی نظریاتی رہنمائی آر ایس ایس کرتی ہے اور آر ایس ایس ہندوستان کی بدترین مذہبی انتہا پسند پارٹی ہے۔ بابری مسجد کے انہدام اور اس کی جگہ رام مندر کا قیام آر ایس ایس کے مشن کا حصہ ہیں۔ آر ایس ایس جیسی مذہبی انتہا پسند جماعتوں نے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

گاؤ رکھشا کے نام پر ابھی پچھلے سال مسلمانوں کا بے دریغ قتل کیا گیا۔ مسلم علاقوں پر حملے کیے گئے، گجرات میں مودی کے دور وزیراعلیٰ کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی گئی۔ ان خرابیوں کو مہمیز کرنے والا بی جے پی کا پروگرام ہندوتوا ہے اور اس کا چرچہ بھارت کے طول و عرض میں اس شدت سے کیا گیا کہ بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت دوسری بار بھارت میں برسر اقتدار آگئی ہے۔

آج گائے کا گوشت استعمال کرنا، گائے ذبح کرنا بھارت میں قانونی طور پر منع ہے اور اس قسم کے الزامات میں اب تک سیکڑوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اس حوالے سے مجھے 60-65 سال پہلے کی کچھ باتیں یاد آرہی ہیں۔ ہماری راشن کی دکان تھی، اس زمانے میں غذائی اجناس راشن کی دکانوں پر ملتی تھیں، ہماری دکان کے دو ہندو پارٹنر تھے۔ ایک کا نام پانڈیا تھا دوسرے کا ایشوریا اور دکان کے ملازم کا نام سنگیا تھا۔

شادی بیاہ میں ہمارے شہر میں بڑی لذیذ بریانی بنتی تھی جو گائے کے گوشت کی ہوتی تھی۔ ایک عزیز کی شادی میں بریانی بنی اور دکان پر بھیجی گئی، اس کی خوشبو ایسی تھی کہ ہمارے ہندو ساتھی بے اختیار گائے کی بریانی پر ٹوٹ پڑے۔ اس زمانے میں گائے سرعام کاٹی جاتی تھی اور مارکیٹوں میں سرعام گائے کا گوشت فروخت ہوتا تھا۔ نہ کوئی فرقہ وارانہ فساد ہوتا تھا نہ مذہبی منافر موجود تھی۔

بھارت میں اگرچہ مذہبی انتہا پسند جماعتیں موجود بھی ہیں مضبوط بھی ہیں اور متحرک بھی لیکن ان کا حلقہ اثر سیکولر جماعتوں کے مقابلے میں کم ہے۔ بھارت کے دو انتخابات میں بی جے پی کی جیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بھارت میں عوام انتہا پسند ہوگئے ہیں۔کانگریس کی ناقص کارکردگی سے مایوس عوام بی جے پی کی طرف گئے ہیں جیسے ہمارے ملک میں عوام برسر اقتدار جماعتوں سے مایوس ہوکر حزب اختلاف کی طرف جاتے ہیں۔

یہ جمہوریت کا ایک کھیل ہے۔ جس طرح پاکستان میں عوام ایک برسر اقتدار جماعت سے مایوس ہوکر دوسری جماعت کو آزمانے کی کوشش کرتے ہیں بھارت میں بھی یہی صورتحال ہے عوام کے انتخابات میں مذہبی انتہا پسندی ضمنی حیثیت رکھتی ہے اور ہر سرمایہ دارانہ جمہوریت میں عوام حکمران جماعتوں سے مایوس ہوکر دوسری جماعتوں کو آزمانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن انھیں عموماً مایوسی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں مسائل کا کوئی اطمینان بخش حل موجود ہی نہیں۔

اصل میں آج کالم بین الامذاہب شادیوں کے حوالے سے ہے، ہندوستان میں بین الامذاہب شادیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی شدت پسندوں کی طرف سے شدت سے مخالفت اس لیے نہیں ہو رہی ہے کہ اب بھی بھارت میں سیکولرزم مضبوط ہے ، عام لوگ مذہبی انتہا پسندی کو پسند نہیں کرتے۔ بین المذاہب شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عملی زندگی میں ان شادیوں کا ایڈجسٹمنٹ کیسے ہوگا۔ مسجد، مندر، رام، رحیم کے درمیان جو تضادات ہیں انھیں کس طرح حل کیا جائے گا۔ خاص طور پر عباداتی شعبے میں اس کا حل کس طرح نکالا جائے گا اور نئی نسلوں کو ان تضادات سے کس طرح بچایا جائے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔