سورج پہ کمند
مغربی حصہ میں موجود اکائیوں کے سیاسی، سماجی، تاریخی اور ثقافتی تشخص کو ختم کرنے کی احمقانہ حکمت عملی تھی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ابتدائی دہائیوں کے دوران طلبہ نے سیاست کی سمت کا تعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے بنگالی طلبہ نے بنگلہ زبان کو قومی زبان بنائے جانے کی خاطر نہ صرف منظم تحریک چلائی، بلکہ جانوں کی قربانی بھی دی۔ اسی طرح مغربی حصہ میں طلبہ نے اپنے مطالبات کے حق میں 1950میں تحریک منظم کی۔
جنوری1953میں انھوں نے جانوں کی قربانی دے کر ملک میں جمہوری حقوق کی جدوجہد کو مہمیز لگائی اور سیاستدانوں کو ایوانوں سے باہر نکل کر عوامی مسائل کو ترجیح بنانے پر مجبور کیا۔
جب طاقتور ریاستی حلقوں نے بنگالی عوام کی عددی اکثریت کو کم کرنے کی خاطر پیریٹی کا غیر جمہوری اور غیرانسانی اصول وضح کیا، تو مغربی حصہ کے وفاقی یونٹوں کو ایک یونٹ میں ضم کرکے مغربی پاکستان تشکیل دیا۔ جو مغربی حصہ میں موجود اکائیوں کے سیاسی، سماجی، تاریخی اور ثقافتی تشخص کو ختم کرنے کی احمقانہ حکمت عملی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف تحریک کا ہراول دستہ طلبہ ہی بنے۔ جنہوں نے سیاستدانوں کو مجبور کیا کہ وہ باہر نکل کر ون یونٹ جیسے سفاکانہ انتظامی بندوبست کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔
پاکستانی طلبہ نے وطن عزیرکی تاریخ کے ابتدائی دور میں صرف اپنے مطالبات کے حق ہی میں جدوجہد نہیں کی بلکہ قومی اوربین الاقوامی مسائل پر بھی آواز بلند کی۔ یہ طلبہ ہی تھے جنہوں نے ایوبی آمریت کو اس وقت للکارا جب سیاسی جماعتیں ایوبی مارشل لاکی دہشت میںمبتلا تھیں۔ ان کے بیشتر رہنما ایبڈو کا شکار جیلوں اور گھروں میں نظر بندی کا شکار تھے۔ جو باہر تھے، وہ منظم نہ ہونے کے باعث آمریت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
ایسے میں طلبہ نے علم جمہوریت بلند کیا اور ایوب خان کی دہشت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا۔ یہ طلبہ ہی تھے، جنہوں نے 1968 میں ایوب خان کے Decade of Progress کا بھانڈا پھوڑ کر ان کے خلاف تحریک چلائی۔ جس کا سیاسی جماعتیں بعد میں حصہ بنیں۔ یوں 1953 سے 1983 پر مبنی 30 سالہ دور طلبہ کے سیاسی Activism کا سنہری دور تھا۔
لیکن تاریخ کے المیے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ملک میں وہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی، جسے مقبولیت دلانے میں NSF اور اس کی قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ قول علیؓ ہے کہ جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ NSF کی کمر میں پہلا چھرا پیپلز پارٹی پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریش قائم کرکے گھونپا۔ اس کے بعد جنرل ضیا کوان کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ اگر سکون سے حکومت کرنا ہے، تو طلبہ اور محنت کشوں کو نکیل ڈال کر رکھا جائے۔ کیونکہ یہی دو طبقات ایوب خان کی حکومت کے خاتمہ کا باعث تھے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل ضیا نے طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کرکے ایک طرف پہلے سے منتشر طلبہ تنظیموں کو مزید کمزور کیا۔ دوسری طرف ٹریڈ یونینوں کو نسلی، لسانی اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے ساتھ انھیں کرپٹ اور بدعنوان کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ نتیجتاً طلبہ یونینوں پر پابندی اور محنت کش تحریک کے منتشر ہوجانے سے سیاست میں مڈل اور ورکنگ کلاس سے نئے کیڈر کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔ جس کی وجہ سے سیاست پر مراعات یافتہ طبقہ کی گرفت مضبوط تر ہوگئی۔ یہ وہ طبقات ہیں، جو اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچتے ہیں، تاکہ ہر دور (سیاسی اور غیر سیاسی) میں اقتدار کا حصہ بنے رہیں۔
طلبہ تحریک پر کئی کتب، مضامین اور مقالے شایع ہوچکے ہیں۔ ابھی حال ہی میں NSF کے دو سابق کارکنوں ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقارکی تحریر کردہ کتاب ''سورج پہ کمند'' منظر عام پر آئی ہے۔ جس میں عرق ریزی کے ساتھ ان تمام طلبہ اور طالبات کا مختصر تعارف اور ان کے خیالات کو پیش کیا گیا ہے، جنہوں نے DSF سے NSF کے قیام تک اور پھر ایوبی آمریت سے ضیاآمریت تک جدوجہد میں حصہ لیا۔ یوں یہ کتاب طلبہ تحریک اور اس کے رہنماؤں کی جہد مسلسل کی تاریخ ہے، جس سے نئی نسل کو طلبہ کی کئی دہائیوں پر محیط جدوجہد کے بارے میں معلومات مل سکیں گی۔
کتاب میں ایک معمولی سقم یہ ہے کہ اس میں چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے، جنہوں نے متذکرہ بالا تحاریک میں خاصی محنت اور دل جمعی کے ساتھ حصہ لیا۔ ان میں سے بیشتر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں حیثیتوں کے حامل ہیں۔ مگر اس کے باوجود NSF سے اپنے تعلق پر فخر کرتے ہیں۔ یہ کارکنان چھوٹے شہروں میں ہونے والی طلبہ جدوجہد کی اس زبانی تاریخ (Oral History) کا حصہ ہیں، جو طلبہ نے اس ملک میں ایک مہذب، شائستہ اور کثیرالجہتی فکریت پر مبنی جمہوری اقدار کے لیے اپنی جدوجہد سے تشکیل دی۔
اب ہمیں اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ طلبہ تحریک جس نے 1950 سے 1980 کے عشروں کے دوران فعالیت کی نئی تاریخ رقم کی تھی، کیا وجہ ہے کہ گہنا گئی۔ پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کیوں ناکامی سے دوچار ہوئی؟ روس اور چین کے اختلافات کی بنیاد پر NSF کیوں معراج اور کاظمی گروپوں میں تقسیم ہوئی۔
اس کے بعد رشید حسن خان مرحوم کے معراج محمد خان سے اختلافات کس حد تک حقیقت پر مبنی تھے؟ بعد میں یہ تقسیم مسلسل کیوں بڑھتی چلی گئی؟ مومن خان نے 1980 کے عشرے کے دوران مختلف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی جو کامیاب کوشش کی، اسے کن عناصر نے سبوتاژ کیا اور کیوں کیا؟ ہم ماضی کی کامیابیوں اور کامرانیوں پر سینہ پھلا کر دل کو خوش تو کرلیتے ہیں، مگر آج کی نسل کو اپنے دور کی کامیابیوں کے ساتھ بعد میں پیش آنے والی ناکامیوں کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے کیوں قاصر ہیں؟
اس وقت DSF اور NSF کے نام سے مختلف طلبہ دھڑے کام کررہے ہیں، مگر ان کا دائرہ کار انتہائی محدود ہے۔ ساتھ ہی BSO، سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ لیکن یہ تنظیمیں بھی کئی دھڑوں میں منقسم ہیں اور ان میں بھی ماضی جیسی فعالیت باقی نہیں رہی ہے۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ جس طرح بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں انتشار اور تنظیمی کمزوریوں کا شکار ہیں اور ہر رہنما بغیر کسی منطقی استدلال اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھا ہے۔ اسی طرح ترقی پسندی کی دعویدار طلبہ تنظیمیں بھی دھڑے بندیوں کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی محنت قابل تحسین ہے کہ انھوں نے عرق ریزی کے ساتھ مختلف ساتھیوں سے رابطہ کرکے ان کے خیالات کو کتابی شکل میں مجتمع کیا ہے۔ اس کتاب کو نہ صرف ہمیں خود پڑھنا چاہیے بلکہ اپنے بچوں اور ان کے دوست احباب کو بھی پڑھوانا چاہیے تاکہ انھیں اپنے بزرگوں کی ایک مہذب، شائستہ اور جمہوری معاشرے کی تشکیل کے لیے کی جانے والی بے لوث اور انتھک محنت کے بارے میں آگہی ہوسکے۔
ساتھ ہی یہ کوشش بھی کی جانی چاہیے کہ آج جب کہ روشن خیالی اور ترقی پسند سوچ کے فروغ کے مواقع موجود ہیں، ترقی پسندی کی دعویدار سیاسی جماعتیں اور طلبہ تنظیمیں نئی نسل کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ کیونکہ ایک کھلے اور Blunt جائزے کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔