جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں سیاستدانوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا

موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

میاں محمد نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی، نیب ریفرنسز، پنجاب حکومت کے اہم بیوروکریٹ احد چیمہ کی گرفتاری و دیگر مسائل اس وقت ملکی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں جس کے باعث عوام کشمکش میں مبتلا ہیں کہ آئندہ کیا ہونے جارہا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ''موجودہ ملکی صورتحال'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و قانونی ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات (ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار )

موجودہ حالات کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں ہے اور نہ ہی یہ اداروں کا ٹکراؤ ہے بلکہ شدید بحران کی کیفیت بیڈ گورننس کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ نہیں آئین سپریم ہے اور عدلیہ آئین کی گارڈین ہے۔ یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم کرے اور آئین کی روح کے متصادم قوانین ختم کردے، ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کو ایک جماعت نہیں مان رہی بلکہ اس کی جانب سے عدلیہ اور فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں اداروں کی حیثیت خراب کر کے کیا یہ ملک میں جنگل کا قانون چاہتے ہیں؟ یہ اداروں پر تنقید کرکے خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، اگر یہ جاری رہا تو ملک خانہ جنگی کی طرف جا سکتا ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جمہوریت کے تین جزو پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور مقامی حکومتیں ہوتی ہیں مگر یہاں پارلیمنٹ کمزور، سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے بجائے بادشاہت جبکہ مقامی حکومتیں بااختیار نہیں ہیں۔ یہ تمام مسائل ہیں جن کے باعث جمہوریت کو شدید مسائل درپیش ہیں لہٰذا جب ملک میں خلاء پیدا ہوگا تو ایسی صورتحال میں دیگر اداروں کو سامنے آنا پڑے گا اور پھر جوڈیشل ایکٹیوزم بھی ہوگا۔ ایک جماعت کی جانب سے اقامہ پر وضاحتیں دی جارہی ہیں اور کسی پبلک آفس ہولڈر کے پاس اقامہ ہونے کے جواز کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو باعث شرم ہے۔ سابق وزیراعظم اور موجودہ وزیر دفاع اقامہ ہولڈرہیں، وزیر دفاع نے ایسی فرم کا اقامہ حاصل کیاہے جو دفاعی آلات بناتی ہے ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے پاس بلیو پاسپورٹ ہوتا ہے جبکہ اقامہ گرین پاسپورٹ پر ملتا ہے،اگر ان کے پاس دو پاسپورٹ ہیں تو یہ بھی قابل سزا جرم ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ ہم اندرونی و بیرونی تمام مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں،سیاستدان خود کو ٹھیک کریں اور جمہوریت کے تمام تقاضے پورے کریں تاکہ کسی کے لیے خلاء پیدا نہ ہو۔

رمضان چودھری (ماہر قانون)

عدلیہ کا کوئی ذاتی ایجنڈہ نہیں ہے، اس پر کوئی دباؤ ہے اور نہ ہی کسی کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا بلکہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کررہے ہیں لہٰذا اگر سیاستدان صاف کردار کے حامل ہیں تو انہیں کسی قسم کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ملک میں جوڈیشل ایکٹیوزم ہے اور تمام وکلاء برادری اس کی حامی اور عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ عدالتی فیصلوں کو عوامی پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ ججوں کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہوتا اور نہ ہی انہوں نے کسی سے ووٹ لینا ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے مقررہ وقت پر ریٹائر ہوکر گھر چلے جاتے ہیں اور صرف آئین کی حکمرانی اور عوامی مفاد میں کام کرتے ہیں۔آئین کا نفاذ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ اس کی محافظ ہے۔ اس وقت عدلیہ کا کردار تاریخی جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار مثبت ہے لہٰذا اب جمہوریت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ احتساب کے اداروں نے بڑے سیاستدانوں سے آغاز کیا ہے لہٰذا جب ملک میں وزیراعظم کا احتساب ہوگا تو اس کے اثرات نچلی سطح تک آئیں گے لیکن اگر احتساب کے اس عمل میں رخنہ اندازی ہوئی تو دوبارہ ایسا وقت نہیں آئے گا۔ اگر ہم احتساب کے عمل سے گزر گئے تو ملک کا مستقبل روشن ہوجائے گا۔ انتخابات قریب ہیں، اب لوگ سیاستدانوں سے ان کے پروگرام اور کارکردگی کے بارے میں سوال کریں گے اور کسی کوہمدردی کا ووٹ نہیں ملے گا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وسیع تر عوامی مفاد میں منصوبہ بندی کریں اور کارکردگی پر توجہ دیں۔جمہوریت کو اب کسی ادارے سے نہیں بلکہ خود سیاستدانوں سے خطرہ ہے، انہیں چاہیے کہ خود کو ٹھیک کریں۔ افسوس ہے کہ اس وقت ملک میں قومی سطح کی کوئی جماعت نہیں ہے۔ مجھے الیکشن کے قریب صادق اور امین لوگوں پر مشتمل ایک نئی سیاسی جماعت بنتی ہوئی نظر آرہی ہے، جس میں صرف صاف و شفاف کردار کے حامل لوگ ہوں گے اور ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہوگا۔ عدلیہ اور احتساب کے اداروں کو عوامی تائید بھی حاصل ہے لہٰذا وہ اب پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اگر میاں نواز شریف کو سزا ہوتی ہے اور یہ عدالتی فیصلہ ماننے کے بجائے ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب کرتے ہیں تو پھر عدالت کے پاس آرٹیکل 190کے تحت اختیار موجود ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عملددرآمد کرانے کیلئے فوج، رینجرز و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دے ۔

سلمان عابد (تجزیہ نگار)

موجودہ حالات کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سسٹم ڈیلور نہیں کررہا، اس میں شفافیت نہیں ہے، عوام اور اداروں کے درمیان بد اعتمادی کی فضا ہے جس کے باعث خلاء پیدا ہوا ہے۔ ایسے وقت میں دیگر ادارے مداخلت کرتے ہیں لیکن اگر جمہوریت ڈیلور کررہی ہو اور لوگ مطمئن ہوں تو کسی ادارے کی مداخلت کی گنجائش نہیں بنتی۔ از خود نوٹس پر تنقید ہوتی ہے مگر عام آدمی اسے ریلیف کی شکل میں دیکھتا ہے کیونکہ سوموٹو نوٹس کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں، دودھ و دیگر اشیائے خورونوش میں ملاوٹ ، علاج معالجے کے زیادہ اخراجات وغیرہ کے مسائل حل ہوئے ہیں۔ اداروں کے مابین لڑائی ملک کے لیے اچھا شگون نہیں ہے، ہماری ریاست ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے اور ابھی تک مضبوط ریاست کا تصور نہیں ہے۔ ایک جماعت کی جانب سے ملک کے دو اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس بیانیے کو فروغ دیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ، نیب اور اپوزیشن جماعتوں کے پیچھے فوج ہے اور یہ تمام نواز شریف کے خلاف ہوگئے ہیں۔ یہ بیانیہ خطرناک ہے ، اس کا نقصان یہ ہوگا کہ اداروں کی کریڈیبلٹی متاثر ہوگی اور قوم تقسیم ہوجائے گی کیونکہ نواز شریف سیاسی رہنما ہیں اور انہیں عوامی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ نواز شریف کے بیانیے کو تقویت اس لیے بھی ملی کہ ابھی تک جن کے خلاف کارروائی ہوئی یا ہو رہی ہے ان میں نواز شریف، ان کا خاندان اور مسلم لیگ (ن) کے لوگ شامل ہیں جس سے لگتا ہے کہ ایک جماعت کا احتساب ہورہا ہے جس سے بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ اس سارے منظر نامے میں سپریم کورٹ کیلئے بھی چیلنج ہوگا کہ وہ کیسے یہ ثابت کرتی ہے کہ کارروائی یکطرفہ نہیںبلکہ شفافیت کیلئے بلاتفریق کام ہو رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صوبائی کابینہ نے ایک بیورو کریٹ کی گرفتاری پر خصوصی اجلاس بلا کراس کے حق میں قرارداد پاس کی ہے۔ اس کے بعد نیب کے خلاف پنجاب اسمبلی میں قرارداد پاس کی گئی جو حکومت کی بوکھلاہٹ ظاہر کرتی ہے۔ نیب و دیگر اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں نے قانون سازی کرکے ان اداروں کو ٹھیک کیوں نہیں کیا۔ افسوس ہے کہ قانون اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سیاسی طاقتوں نے جو کام کرنا تھا وہ نہیں ہوا جس کا نقصان ہمیں سیاسی و معاشی عدم استحکام کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن سطحی قسم کی سیاست کررہے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس بھی آئندہ انتخابات کیلئے کوئی ہوم ورک نہیں ہے جس سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ احتساب کا عمل تیزی سے جاری ہے، چار سابق جرنیلوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے ہیں، بعض بیوروکریٹس کے نام بھی سامنے آرہے ہیں ۔ اب جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دیگر جماعتوں کے لوگ بھی شکنجے میں آئیں گے اور اس سے انتخابی ماحول بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ احتساب کے اداروں نے احتساب کا عمل جاری رکھنے کیلئے ہوم ورک کیا ہے، اگر بلا تفریق احتساب کا عمل جاری رہا تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آئندہ انتخابات کا وقت پر ہونا بھی ایک بڑا سوال ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کا مسئلہ اوراوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا معاملہ بھی ہے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل بھی ملکی منظر نامے پر گردش کررہے ہیں لہٰذا آئندہ انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے جو ملک کیلئے بہتر نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی پارٹی قیادت کے حوالے سے بات کریں تو شہباز شریف کا امیج مفاہمت کا ہے جبکہ نواز شریف ان سے یکسر مختلف مقام پر کھڑے ہیں لہٰذا جب تک نواز شریف موجود ہیں تب تک جماعت کے فیصلے وہی کریں گے لہٰذا آنے والے دنوں میں نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان ٹکراؤ ہوسکتاہے اس کے علاوہ قانونی محاذ پر بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا ٹارگٹ شہبازشریف ہیں۔

ڈاکٹر امجد مگسی (پروفیسر پاکستان سٹڈی سینٹر جامعہ پنجاب)

پاکستان کا وجود سیاسی عمل نتیجے میں ہوا اور اسے چلانے کیلئے پارلیمانی جمہوری نظام ہی قائد اعظمؒ کا ویژن تھا مگر بدقسمتی سے ابھی تک ہم سیاسی عمل اور پارلیمانی نظام کی درست بنیاد نہیں رکھ سکے۔ ملک میں نصف سے زائد وقت مارشل لاء جبکہ بقیہ دورانیہ میں بھی سول ملٹری تناؤ رہا جس کے باعث سیاستدانوں کو مسائل رہے اور سیاسی قوتیں ہمیشہ سے یہ گلہ کرتے ہوئے نظر آئیں کہ اختیارات ان تک پہنچنے نہیں دیے گئے ۔ بدقسمتی سے عدالتی فیصلوں نے ڈکٹیٹرز کی حکومت کو طول دینے میں کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے ہی عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جوڈیشل اکٹیوزم کی صورت میں عدلیہ کا نیا کردار سامنے آیا اور یہ خلاء پارلیمنٹ نے پیدا کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پارلیمنٹ اپنی جگہ کھو چکی ہے حالانکہ پارلیمان سب سے سپریم ادارہ ہوتا ہے اور اس کے پاس سب سے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں مگر سیاستدانوں کے ذاتی مفادات اور آپس کی لڑائی کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور ہوئی ، گورننس کے مسائل بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئے اور پھر دیگر اداروں کی مداخلت ہوئی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے کام کیا مگر مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے انتخابات جیتنے کے بعد پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے کام نہیں کیا، اب بھی مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی بلکہ خود معاملہ عدالت میں لے کر گئی حالانکہ اگر پارلیمنٹ کو مضبوط کرکے،بہتر قانون سازی سے احتساب کے عمل کو بڑھایا جاتا تو معاملات مختلف ہوتے۔اگر ایک خاص پارٹی یا مخصوص خاندان کے احتساب کا تاثر پیدا نہ ہوتا تو شاید اتنے سوالات نہ اٹھتے۔ اب نیب کو یہ تاثر زائل کرنے کیلئے بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ جب بھی اقتدار میں آئی اس نے احتساب کا نعرہ لگایا۔ یہ ایک پرانا طریقہ ہے جس سے جاری سیاسی عمل کو روکا جاتا ہے مگر اس کے ملکی سلامتی و سالمیت پر بہت خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر اب بھی احتساب کے نام پر سیاسی عمل روکا گیا' انتخابات میں تاخیر کی گئی اور غیر سیاسی طریقے سے سیاسی عمل چلانے کی کوشش کی گئی تو خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ جوڈیشل ایکٹیوزم کے اثرات معیشت پر زیادہ پڑتے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے۔ موجودہ حالات سے عالمی سطح پر ہمارے لیے مزید چیلنجز پیدا ہورہے ہیں، ہم سی پیک سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ حاصل نہیں کر پارہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا تب تک معاشی استحکام نہیں ہوسکتا لہٰذا تمام سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ عالمی سطح پر ہمارے مسائل بہت گھمبیر ہیں جنہیں سیاسی قیادت کے ذریعے اور آپس میں مل بیٹھ کر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں بھی اچھے لوگوں پر مشتمل نئی سیاسی جماعتیں بنائی گئیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کی اچھائی کون طے کرتا ہے ۔ میرے نزدیک سیاسی مقابلے سیاسی میدان میں ہی ہونے چاہئیں، ہر چیز عدالت میں نہ لیجائی جائے بلکہ سیاستدانوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کا مستقبل صرف سیاسی عمل سے ہی روشن ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں