غیرقانونی اسپیشل پولیس پارٹیاں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے لگیں
سی ٹی دی،ایس آئی یو،اے سی ایل سی اور تھانوں کے افسران نے اسپیشل پارٹیاں بنادیں۔
ISLAMABAD:
سندھ پولیس میں غیرقانونی اسپیشل پولیس پارٹیاں رینجرز اور اینٹی نارکوٹکس کے نام پر شہریوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے میں مصروف ہے۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی سختی اور متعدد محکمہ جاتی کارروائیوں کے باوجود سندھ پولیس میں غیرقانونی اسپیشل پولیس پارٹیاں چلانے کا عمل تاحال جاری ہے آئی جی سندھ کے ماتحت افسران نے انھیں ماموں بنارکھا ہے اور ان کی ناک کے نیچے شہر میں پولیس موبائلوں میں سرکاری اسلحے کے زور پر بغیر وردی پولیس افسر اور اہلکار کھلے عام شہریوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کررہے ہیں۔
یہ انکشاف ایوب گوٹھ سندھی سوسائٹی کے رہائشی خدارا خان کی جانب سے پولیس حکام اور متعلقہ اداروں کو ارسال کی جانے والی درخواست میں ہوا جس میں انھوں نے اعلیٰ افسران کو بتایاکہ پولیس کی کالی بھیڑیں رینجرز کا نام لے کر گھروں میں چھاپہ مار کر بے قصور محنت کشوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں لے کر رہائی کے عوض تاوان وصول کررہی ہے۔
خدارا خان کے مطابق سرسید پولیس نے 22 جنوری کی رات ایوب گوٹھ میں گھر سے چھاپہ مار کر میرے بیٹے خان محمد کو حراست میں لیا اور میری لائسنس یافتہ پستول اور لائسنس اپنے ہمراہ لے گئے اور معلوم کرنے پر بتایاکہ ہیڈکوارٹر ٹول پلازہ پر ہمارا دفتر ہے وہاں آجانا لیکن جب رینجرز کے ہیڈکوارٹر پہنچے تو رینجرز نے منع کردیا کہ یہاں کسی کو گرفتار کرکے نہیں لایا جاتا تاہم دوسرے روز فون آیا کہ تمہارا بیٹا سرسید تھانے میں گرفتار ہے اگر اس کی رہائی چاہتے ہو تو 25 ہزار روپے ساتھ لے کر آنا۔
خدارا خان نے طلب کی جانے والی رقم سرسید تھانے کے پولیس افسر اور اہلکار حامدان بلوچ ، مشتاق پہنور اور امداد کو دے کر اپنے بیٹے کو رہا کرایا اور قانونی اسلحہ واپس لیا ڈی آئی جی ویسٹ کے دفتر کے ایک افسر کے مطابق سینٹرل اور ویسٹ زون میں آئی جی سندھ کی سختی کے باوجود غیرقانونی اسپیشل پولیس پارٹیاں چلائی جارہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ خدارا خان نے سابق ڈی آئی جی ویسٹ ذوالفقار لاڑک کو درخواست دی تھی لیکن اس کی اطلاع سرسید تھانے کے ایس ایچ او اور اسپیشل پارٹی کو ڈی آئی جی آفس سے ملی تو وہ خدارا خان کے گھر پہنچ گئے جہاں پولیس اہلکاروں نے معافی تلافی کرنے کی کوشش کی تو خداراخان نے شرط رکھی کہ میری محلے اور برادری میں بے عزیتی ہوئی کہ میرے گھر پر پولیس نے چھاپہ مار کر میرے جرائم پیشہ بیٹے کو گرفتارکیا ہے۔
خدارا خان نے پولیس کو بتایاکہ جرگے میں معافی تلافی میں6 بکرے دینے پڑیں گے اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنی پڑے گی پولیس نے ان کی بات مانتے ہوئے جرگے میں6 بکرے پیش کیے تو اس میں ایک بکری نکلی پر جس پر جرگے میں موجود افراد برہم ہوگئے تاہم پولیس اہلکاروں نے فوری طورپر ایک بکرا منگواکر جرگے میں پیش کیا اور معافی مانگی اور تاوان کی رقم 25 ہزار روپے بھی واپس کردی تاہم اس کے باوجود مذکورہ تھانے میں مذکورہ اسپیشل پارٹی کے افسر اور اہلکار شہریوں کو اغوا کرکے مبینہ طور پر تاوان وصولی میں مصروف ہیں۔
اس حوالے سے ایس ایچ او سرسید مختیار پہنور نے نمائندہ ایکسپریس کے استفسار پر مذکورہ واقعے کی تصدیق کی اور کہا کہ معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے سابق ڈی آئی جی ویسٹ ذوالفقار لاڑک کو اس بات کا علم تھا کہ ویسٹ زون میں اسپیشل پولیس پارٹیاں چلائی جارہی ہے جس کی وجہ سے ایس ایس پی ویسٹ اور ایس ایس پی سینٹرل بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
اینٹی کار لفٹنگ سیل میں تعینات ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایاکہ اینٹی کارلفٹنگ سیل پولیس اپنی مخصوص ذمے داری گاڑیوں کی چوری و چھیننے کے روک تھام کے اقدامات سے ہٹ کر اسپیشل پولیس پارٹیاں بناکر منشیات فروشوں، گٹکا فروشوں اور لوٹ مار میں ملوث مبینہ ملزمان کو حراست میں لے کر مبینہ طور پر رشوت وصول کررہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ شریف آباد اور آرٹلری میدان اینٹی کارلفٹنگ سیل میں7 اسپیشل پولیس پارٹیاں ہیں سی ٹی ڈی سول لائن اور گارڈن جبکہ ایس آئی یو اورکرائم برانچ میں بھی اسپیشل پولیس پارٹیاں کام کررہی ہیں جو اپنے اداروں کی اہم ذمے داریوں کو نظرانداز کرکے مخبروں کی اطلاعات اور نشاندہی پر شہریوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کررہی ہیں ان اداروں کے افسران اور اہلکار جرائم پیشہ افراد کو رشوت لے کر رہا کردیتے ہیں اس حوالے سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
سندھ پولیس میں غیرقانونی اسپیشل پولیس پارٹیاں رینجرز اور اینٹی نارکوٹکس کے نام پر شہریوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے میں مصروف ہے۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی سختی اور متعدد محکمہ جاتی کارروائیوں کے باوجود سندھ پولیس میں غیرقانونی اسپیشل پولیس پارٹیاں چلانے کا عمل تاحال جاری ہے آئی جی سندھ کے ماتحت افسران نے انھیں ماموں بنارکھا ہے اور ان کی ناک کے نیچے شہر میں پولیس موبائلوں میں سرکاری اسلحے کے زور پر بغیر وردی پولیس افسر اور اہلکار کھلے عام شہریوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کررہے ہیں۔
یہ انکشاف ایوب گوٹھ سندھی سوسائٹی کے رہائشی خدارا خان کی جانب سے پولیس حکام اور متعلقہ اداروں کو ارسال کی جانے والی درخواست میں ہوا جس میں انھوں نے اعلیٰ افسران کو بتایاکہ پولیس کی کالی بھیڑیں رینجرز کا نام لے کر گھروں میں چھاپہ مار کر بے قصور محنت کشوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں لے کر رہائی کے عوض تاوان وصول کررہی ہے۔
خدارا خان کے مطابق سرسید پولیس نے 22 جنوری کی رات ایوب گوٹھ میں گھر سے چھاپہ مار کر میرے بیٹے خان محمد کو حراست میں لیا اور میری لائسنس یافتہ پستول اور لائسنس اپنے ہمراہ لے گئے اور معلوم کرنے پر بتایاکہ ہیڈکوارٹر ٹول پلازہ پر ہمارا دفتر ہے وہاں آجانا لیکن جب رینجرز کے ہیڈکوارٹر پہنچے تو رینجرز نے منع کردیا کہ یہاں کسی کو گرفتار کرکے نہیں لایا جاتا تاہم دوسرے روز فون آیا کہ تمہارا بیٹا سرسید تھانے میں گرفتار ہے اگر اس کی رہائی چاہتے ہو تو 25 ہزار روپے ساتھ لے کر آنا۔
خدارا خان نے طلب کی جانے والی رقم سرسید تھانے کے پولیس افسر اور اہلکار حامدان بلوچ ، مشتاق پہنور اور امداد کو دے کر اپنے بیٹے کو رہا کرایا اور قانونی اسلحہ واپس لیا ڈی آئی جی ویسٹ کے دفتر کے ایک افسر کے مطابق سینٹرل اور ویسٹ زون میں آئی جی سندھ کی سختی کے باوجود غیرقانونی اسپیشل پولیس پارٹیاں چلائی جارہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ خدارا خان نے سابق ڈی آئی جی ویسٹ ذوالفقار لاڑک کو درخواست دی تھی لیکن اس کی اطلاع سرسید تھانے کے ایس ایچ او اور اسپیشل پارٹی کو ڈی آئی جی آفس سے ملی تو وہ خدارا خان کے گھر پہنچ گئے جہاں پولیس اہلکاروں نے معافی تلافی کرنے کی کوشش کی تو خداراخان نے شرط رکھی کہ میری محلے اور برادری میں بے عزیتی ہوئی کہ میرے گھر پر پولیس نے چھاپہ مار کر میرے جرائم پیشہ بیٹے کو گرفتارکیا ہے۔
خدارا خان نے پولیس کو بتایاکہ جرگے میں معافی تلافی میں6 بکرے دینے پڑیں گے اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنی پڑے گی پولیس نے ان کی بات مانتے ہوئے جرگے میں6 بکرے پیش کیے تو اس میں ایک بکری نکلی پر جس پر جرگے میں موجود افراد برہم ہوگئے تاہم پولیس اہلکاروں نے فوری طورپر ایک بکرا منگواکر جرگے میں پیش کیا اور معافی مانگی اور تاوان کی رقم 25 ہزار روپے بھی واپس کردی تاہم اس کے باوجود مذکورہ تھانے میں مذکورہ اسپیشل پارٹی کے افسر اور اہلکار شہریوں کو اغوا کرکے مبینہ طور پر تاوان وصولی میں مصروف ہیں۔
اس حوالے سے ایس ایچ او سرسید مختیار پہنور نے نمائندہ ایکسپریس کے استفسار پر مذکورہ واقعے کی تصدیق کی اور کہا کہ معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے سابق ڈی آئی جی ویسٹ ذوالفقار لاڑک کو اس بات کا علم تھا کہ ویسٹ زون میں اسپیشل پولیس پارٹیاں چلائی جارہی ہے جس کی وجہ سے ایس ایس پی ویسٹ اور ایس ایس پی سینٹرل بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
اینٹی کار لفٹنگ سیل میں تعینات ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایاکہ اینٹی کارلفٹنگ سیل پولیس اپنی مخصوص ذمے داری گاڑیوں کی چوری و چھیننے کے روک تھام کے اقدامات سے ہٹ کر اسپیشل پولیس پارٹیاں بناکر منشیات فروشوں، گٹکا فروشوں اور لوٹ مار میں ملوث مبینہ ملزمان کو حراست میں لے کر مبینہ طور پر رشوت وصول کررہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ شریف آباد اور آرٹلری میدان اینٹی کارلفٹنگ سیل میں7 اسپیشل پولیس پارٹیاں ہیں سی ٹی ڈی سول لائن اور گارڈن جبکہ ایس آئی یو اورکرائم برانچ میں بھی اسپیشل پولیس پارٹیاں کام کررہی ہیں جو اپنے اداروں کی اہم ذمے داریوں کو نظرانداز کرکے مخبروں کی اطلاعات اور نشاندہی پر شہریوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کررہی ہیں ان اداروں کے افسران اور اہلکار جرائم پیشہ افراد کو رشوت لے کر رہا کردیتے ہیں اس حوالے سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔