سرگودھا کی تحصیل ساہیوال کے دھندلاتے تاریخی نقوش
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ شہر ساہیوال، سکندراعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت بھی آباد تھا
زندہ قومیں اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے غافل نہیں ہوتیں۔ کسی بھی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس قوم کو اس کے تابناک ماضی سے غافل کردو، تاریخ کوبھلا کر وہ مستقبل کی فکروں سے آزاد ہوجائیں گے۔ ہمارا فرسودہ نظامِ تعلیم اداس نسلوں کی کھیپ ہی تو تیار کررہا ہے کہ جو ماضی، حال اورمستقبل کی فکر سے کوسوں دور ہیں۔
جولوگ اپنی تاریخ کو بھول جاتے ہیں، تاریخ ان کو بھول جاتی ہے۔ جن کا ماضی نہیں ہوتا ان کا مستقبل بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے اردگرد بکھرے شہروں اور آبادیوں میں ایام گزشتہ کی تابناک وعبرت انگیز داستانیں ہیں جنہیں جاننا ہمارے لیے ضروری ہے۔ لیکن ان تاریخی ورثوں کی جانب عوام و خواص کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے تاریخ کے روشن و عبرت اثر باب ہمیشہ کےلیے بند ہوتے جارہے ہیں۔
ضلع سرگودھا کی تحصیل ساہیوال کا شماربھی انہی ورثوں میں ہوتا ہے جو تاریخ کا اثاثہ ہیں مگر عوامی و حکومتی حلقوں نے کوئی اہمیت نہ دے کر ان کی ناقدری کی ہوئی ہے۔
سرگودھا کی تحصیل ساہیوال ہزاروں سال پرانی تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس قلعہ نما شہر کی زبوں حالی اور ناپید ہوتی تاریخ کا ذمہ دار کون ہے؟ ساہیوال کی تاریخی و قدیمی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس کے تاریخی مقامات علاقے کی پہچان ہیں۔ تاہم محکمہ آثار قدیمہ، متروکہ وقف املاک اور حکومتی عدم دلچسپی و نااہلی کی وجہ سے شہر کی کئی تا ریخی نشانیاں ختم ہورہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ عوام بھی ان قدیم تاریخی مقامات کی اہمیت سے آگاہ نہیں اور ان کی بربادی میں عوام کامرکزی ہاتھ ہے۔
ساہیوال کی اہمیت کو اجاگر کرنے کےلیے ہزاروں سال پرانی تاریخ کو کھنگالنا پڑے گا حتیٰ کہ بات زمانہ قبل مسیح تک جاپہنچتی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق و جستجو کے جو نتائج تاحال سامنے آئے ہیں ان کے مطابق یہ شہر زمانہ قبل مسیح سے انسانوں کی آبادی چلا آرہا ہے لیکن مختلف ادوار میں تباہ و برباد ہوتا رہا۔ صدیوں پرانے کھنڈرات، ٹبے، ٹیلے، بھڑ و دیگر آثارات قدیمہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ خطہ بار بار آباد ہوا اور تباہ ہوا تاہم موجودہ شہر ساہیوال تقریباً 570 سال پہلے آباد ہوا۔
جھمٹ قبیلہ گزشتہ 22 پشتوں سے یہاں آباد ہے اور جھمٹ قبیلہ کے ساہی نامی شخص سے اس شہر کا نام منسوب کیا جاتا ہے۔ سرزمین عرب سے براستہ ایران و خراسان آندھی بگولے کی طرح وارد ہونے والے بلوچوں نے اس شہر کے قیام کے قریباً سوا سو سال بعد یہاں تسلط قائم کیا جبکہ جہلم کنارے آباد اس شہر کے گرد فصیل مغلوں کے دور میں بنی۔ شہر کے چاروں طرف چھ دروازے ہیں جو اپنے فن تعمیر کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ان دروازوں کے نام لاہوری دروازہ (جسے خونی دروازہ بھی کہتے ہیں)، کشمیری دروازہ، پشاوری دروازہ (جسے جھمٹی دروازہ بھی پکارا جاتا ہے)، کابلی دروازہ، مستانہ درگاہی دروازہ ملتانی اور ملتانی کونہ دروازہ شامل ہیں۔ لاہوری اور کشمیری صدر دروازے ہیں۔
رنجیت سنگھ نے جب اس علاقے میں یلغار کی اور لاہوری دروازے کے قریب خون ناحق بہایا تو اس کو خونی دروازہ پکارا جانے لگا۔ بعض مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ شہر کے یہ دروازے برطانوی تسلط کے دوران بنائے گئے، تاہم اس ضمن میں کوئی واضح شواہد نہیں مل سکے۔
یوں تو ساہیوال شہر اب بہت پھیل چکا ہے تاہم پرانا شہر قلعے کا منظر پیش کرتے دفاعی حصار (شہر کے چاروں طرف بنی دیواروں) میں گھرا ہوا ہے اور نقل و حرکت کےلیے شہر کے داخلی دروازوں کو ہی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ مضبوطی اور قدیم طرز تعمیر کی وجہ سے شہر کے اطراف میں بنی فصیل اور داخلی دروازے صدیاں گزر جانے کے باجود قائم ہیں۔ تاہم تجاوزات مافیا نے اس شہر کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسر دیواروں اور داخلی دروازوں پر چسپاں کیے گئے اشتہارات نے پوری کردی ہے جن کی وجہ سے شہر کو اصل حالت میں دیکھنا ممکن ہی نہیں رہا۔
قیام پاکستان سے قبل ساہیوال بڑے بڑے تاجروں کا گڑھ تھا۔ آبادی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی تھے۔ شہر میں مندروں، ہندوعبادت گاہوں کی تاحال موجودگی اس کا واضح ثبوت ہے۔ کھنڈرات اور ٹیلوں کی کھدائی سے ملنے والے بت بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہندو مت یہاں کا قدیم ترین مذہب ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندو یہاں سے بھارت نقل مکانی کرگئے لیکن ان کی عبادت گاہیں اور ہندو برادری کے چند گھر یہاں موجود ہیں۔
یہاں ہندو برادری کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی داستان بھی ملتی ہے۔ بلوچوں کا اس علاقے میں تسلط قائم ہے، بلوچ سردار ہندوؤں کو مردے جلانے نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے ہندو مردے کو امانت کے طور پر دفنا دیتے تھے۔ ساہیوال دنیا کا واحد شہر سمجھا جاتا ہے جہاں ہندوؤں سے منسوب قبریں اب بھی موجود ہیں۔ بلوچوں کے سفاکانہ رویّے کی وجہ سے ہندو قوم یہاں پر مجبور و محبوس تھی جس کا اندازہ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب جتنے بھی مندر یہاں موجود ہیں، خستہ حالی کا شکار ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد جب ہندو نقل مکانی کرگئے تو مقامی آبادی نے ہندوؤں کے گھروں اور مندروں پر قبضہ جما لیا، مندروں کو جانوروں کے باڑوں میں بدل دیا گیا جو عبادت گاہوں کی توہین ہے۔ عبادت گاہیں خواہ کسی بھی مذہب کی ہوں، بطور مسلمان اور انسان ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔
تاریخ کھنگالنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمایوں کے تعاقب میں شیر شاہ سوری ساہیوال سے گزرا اور یہاں قیام کیا۔ اس دوران یہاں ایک مسجد تعمیر کروائی جو اب بھی موجود ہے اور شیر شاہ سوری مسجد کے نام سے مشہور ہے۔
ساہیوال کے جغرافیائی تاریخی پس منظر پر بات کی جائے تو ایک بڑے رقبے پر محیط ٹبوں، ٹیلوں اور بھڑوں کا ذکر کیے بغیر بات ادھوری رہ جائے گی۔ تین مختلف حصوں میں بٹے ہوئے یہ ٹبے اور ٹیلے دراصل اس جگہ پر موجود قدیم شہر کے کھنڈرات ہیں جو تباہی و بربادی کا شکار ہوئے۔
ساہیوال کا قدیم شہر دریا کنارے آباد تھا۔ کھنڈرات کا سب سے اونچا حصہ ٹبہ پنج پیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹبہ کی چوٹی پر بزرگ حیات المیر کی بیٹھک ہے۔ (جس جگہ کوئی بزرگ عبادت، ریاضت یا چلہ وغیرہ کرے، اس جگہ کو اس بزرگ کی ''بیٹھک'' کہتے ہیں۔) آثار بتاتے ہیں کہ اس ٹبہ کی جگہ زمانہ قبل مسیح میں ایک آباد شہر تھا۔ دوسرا ٹبہ ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے جبکہ تیسرا ٹیلہ جو گردوانی ماڑی کہلاتا ہے، ہندو مت کی قدیم تہذیب کے آثار لیے ہوئے ہے۔ کھدائی کے بعد یہاں ہندوؤں کی قدیم عبادت گاہوں، درس گاہوں اور رہائشی علاقے کے آثار ملے ہیں۔
یہاں کے لوگ بت پرست تھے اورسورج دیوتا، ماتا دیوی اور لکشمی دیوی کی پوجا کرتے تھے۔ باقیات میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے مجسمے اور قدیم ہندو رسم الخط کے ٹھیکرے ملے ہیں۔ مٹتے آثار کے باوجود یہ شہر آج بھی اپنی عظیم الشان تہذیب کا گواہ ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ شہر سکندراعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت آباد تھا۔ تباہ شدہ شہر کے باسیوں نے راجہ پورس کی فوج کے ساتھ مل کر سکندراعظم کے بڑھتے قدم روکنے کی کوشش کی تھی۔ دریا کنارے شہر ہونے کی وجہ سے لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ بارٹر سسٹم یعنی تبادلہ جنس کے تحت لین دین ہوتا تھا۔ ٹیلوں کی مغربی جانب ایک بہت بڑے غار کے آثار موجود ہیں جو اندازے کے مطابق تباہ حال شہر کا داخلی دروازہ تھا۔ عوام نے ان ٹبوں کی مٹی اور اینٹیں چرالی ہیں اسی لیے قدیم شہر کے آثار ختم ہوتے جارہے ہیں۔
تاہم عوامی خورد برد اور موسمی تبدیلیوں و تباہی کے باوجود آج بھی 70 فٹ سے اونچے ٹیلے موجود ہیں جن کا مشاہدہ کرنے سے قدیم شہریوں کے طرز تعمیر کی حیران کن صلاحیت سامنے آتی ہے اور ساتھ ہی عبرت کے زیر اثر دل پکار اٹھتا ہے: ''زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔''
ان شہروں کی تباہی کے بارے سوچ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ شاید یہ لوگ قہر الٰہی کا شکار ہوئے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سیلابی تباہ کاریوں اور بیرونی حملہ آوروں نے اس شہر کو کھنڈر میں بدلا تاہم عقل کوئی دلیل دینے سے قاصر ہے۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ
ساہیوال کا علاقہ نہنگ تاریخی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں ہزاروں سال پرانے شہر کے کھنڈرات اور باقیات و آثار جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی نہنگ میں ٹبہ پنج پیر واقع ہے۔ یہ جگہ ایک بزرگ حیات المیر سے منسوب ہے اور روایات کے مطابق اس جگہ انہوں نے عبادت کی تھی۔ اسی نسبت سے یہ جگہ حیات المیر کی بیٹھک کہلائی۔ ٹبہ پنج پیر پر بنی بزرگ حیات المیر کی بیٹھک لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ ہر سال 15 اور 16 جنوری کو یہاں عرس منایا جاتا ہے جس میں زائرین بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔
سخی حیات المیر کی بیٹھک کے ساتھ ہی مشہور نو (9) گز کی قبریں ہیں جنہیں دیکھنے کےلیے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔ ان قبروں میں طویل القامت افراد دفن نہیں بلکہ پنج پیریا سلسلے کے ماننے والے اپنے پیر کو نمایاں ثابت کرنے کےلیے ان کی لمبی قبریں بناتے تھے۔
ہندوؤں کےلیے بھی یہ قبریں قابل احترام ہیں کیونکہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق انہیں پانچ پانڈوؤں سے منسوب کرتے ہیں۔ ٹبہ پنج پیر سے ملحقہ قبرستان میں لگے طویل العمر پیلو (وان) کے درخت اور کری کی جھاڑیوں کے جھنڈ ماحول کو پراسرار بنادیتے ہیں اور لوگ ان کے اندر جانے سے ڈرتے ہیں۔
پانچ کھجوروں کا جھنڈ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پیلو اور کری کے جھنڈوں سے وابستہ ماورائے عقل کہانیاں بھی مقامی آبادی میں عام ہیں۔ بعض مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہاں جنات آباد ہیں اور جو کوئی بھی اس جھنڈ میں جانے کی کوشش کرتا ہے، اسے جنات کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آستانہ عالیہ سیال شریف بھی اسی ساہیوال شہر میں واقع ہے اور سیالوی خاندان مذہبی و سیاسی لحاظ سے بہت مضبوط ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران آستانہ سیال شریف کے گدی نشینوں نے بعض معاملات پر مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو محاذ آرائی شروع کر رکھی ہے، اس سے ان کی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ساہیوال اور گرد و نواح کے شہروں میں آباد لوگ آستانہ عالیہ سیال شریف سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔
ساہیوال شہر کے کنارے دریائے جہلم بڑی روانی سے بہتا ہے۔ گرمیوں میں جب اس دریا کا مزاج برہم ہوتا ہے تو یہ ساہیوال شہر کو سیلابی ریلے میں بہاکر لے جاتا ہے۔ خوشاب اور شاہ پور سے گزر کر دریائے جہلم ساہیوال کی حدود کو چھوتے ہوئے جھنگ کی جانب مڑجاتا ہے اور اس دریا کا تنہا سفر ہیڈ تریموں میں جا کر ختم ہوتا ہے کیونکہ اس مقام پر جہلم اور چناب کا ملاپ ہوتا ہے اور دونوں دریا باہم مل کر آگے کا سفر طے کرتے ہیں۔
ساہیوال سے گرد و نواح کے شہروں میں داخل ہونے کےلیے ایک عرصہ تک مقامی لوگ کشتیوں کا استعمال کرتے رہے۔ حکومت نے اس شہر کے باسیوں کی آسانی کےلیے جو واحد قابل ذکر کام کیا، وہ ساہیوال کے نواح میں دریائے جہلم پر پل کی تعمیر ہے جس سے شہریوں کو بہت سہولت ہوئی اور عشروں پر محیط کشتیوں کے ذریعے آمد و رفت کا روایتی طریقہ اختتام پذیر ہوگیا۔ ساہیوال کی ایک اور خاص بات یہاں موجود ایمرجنسی رن وے ہے۔ دو کلومیٹر طویل پٹی کو ایمرجنسی لینڈنگ کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ساہیوال اور گرد و نواح کی ایک ایک چیز قابل ذکر ہے جس کےلیے صفحات کم پڑ جائیں۔ یہ خطہ تحقیقی لحاظ سے توجہ طلب ہے۔ ساہیوال کے رہائشی محمد ارسلان توصیف کا کہنا درست ہے کہ زمانہ آثارِ قدیمہ (آرکیالوجی) کا دشمن ہے، ''آنے والی نسلوں کےلیے ان آثار کا باقی رہنا ضروری ہے۔'' یہ تاریخی شہر ارباب اختیار کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ گزشتہ تیس برسوں سے یہاں کے عوام موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) لیگ کو ووٹ دے رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ خطہ پسماندگی کا شکار ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2013 کے عام انتخابات میں ساہیوال کے حلقے سے الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ انتخابی عمل مکمل ہونے سے قبل اور اس کے بعد بھی میاں نواز شریف نے اس شہر کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ نواز شریف کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار محمد شفقت حیات خان ہی کامیاب ہوئے مگر نواز شریف کی طرح شفقت بلوچ نے بھی عوام کو بس طفل تسلیاں ہی دیں جبکہ ساہیوال میں بہت ہی طاقتور سمجھے جانے والے سیالوی خاندان کے سجادہ نشینوں نے بھی ووٹ اور چندہ تو ضرور لیا مگرشہریوں کو سوائے پیری فقیری اور اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں دیا۔
ایک طرف اس شہر میں واقع تاریخی مقامات کا تحفظ نہ کرکے مقامی تاریخ و ثقافت کے نقوش کو مٹایا جارہا ہے تو دوسری طرف صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے معاملے کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا۔ حکومتی نمائندگان کو چاہیے کہ اس تاریخی شہر کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کےلیے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ تاریخی ورثہ محفوظ رہے اور مقامی آبادی کو بنیادی سہولیات بھی میسر ہوسکیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ساہیوال کا قدیم تاریخی ورثہ تو مٹے گا ہی، ساتھ ہی وعدہ فراموش عوامی نمائندگان کا نام بھی آنے والے الیکشن میں صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جولوگ اپنی تاریخ کو بھول جاتے ہیں، تاریخ ان کو بھول جاتی ہے۔ جن کا ماضی نہیں ہوتا ان کا مستقبل بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے اردگرد بکھرے شہروں اور آبادیوں میں ایام گزشتہ کی تابناک وعبرت انگیز داستانیں ہیں جنہیں جاننا ہمارے لیے ضروری ہے۔ لیکن ان تاریخی ورثوں کی جانب عوام و خواص کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے تاریخ کے روشن و عبرت اثر باب ہمیشہ کےلیے بند ہوتے جارہے ہیں۔
ضلع سرگودھا کی تحصیل ساہیوال کا شماربھی انہی ورثوں میں ہوتا ہے جو تاریخ کا اثاثہ ہیں مگر عوامی و حکومتی حلقوں نے کوئی اہمیت نہ دے کر ان کی ناقدری کی ہوئی ہے۔
سرگودھا کی تحصیل ساہیوال ہزاروں سال پرانی تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس قلعہ نما شہر کی زبوں حالی اور ناپید ہوتی تاریخ کا ذمہ دار کون ہے؟ ساہیوال کی تاریخی و قدیمی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس کے تاریخی مقامات علاقے کی پہچان ہیں۔ تاہم محکمہ آثار قدیمہ، متروکہ وقف املاک اور حکومتی عدم دلچسپی و نااہلی کی وجہ سے شہر کی کئی تا ریخی نشانیاں ختم ہورہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ عوام بھی ان قدیم تاریخی مقامات کی اہمیت سے آگاہ نہیں اور ان کی بربادی میں عوام کامرکزی ہاتھ ہے۔
ساہیوال کی اہمیت کو اجاگر کرنے کےلیے ہزاروں سال پرانی تاریخ کو کھنگالنا پڑے گا حتیٰ کہ بات زمانہ قبل مسیح تک جاپہنچتی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق و جستجو کے جو نتائج تاحال سامنے آئے ہیں ان کے مطابق یہ شہر زمانہ قبل مسیح سے انسانوں کی آبادی چلا آرہا ہے لیکن مختلف ادوار میں تباہ و برباد ہوتا رہا۔ صدیوں پرانے کھنڈرات، ٹبے، ٹیلے، بھڑ و دیگر آثارات قدیمہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ خطہ بار بار آباد ہوا اور تباہ ہوا تاہم موجودہ شہر ساہیوال تقریباً 570 سال پہلے آباد ہوا۔
جھمٹ قبیلہ گزشتہ 22 پشتوں سے یہاں آباد ہے اور جھمٹ قبیلہ کے ساہی نامی شخص سے اس شہر کا نام منسوب کیا جاتا ہے۔ سرزمین عرب سے براستہ ایران و خراسان آندھی بگولے کی طرح وارد ہونے والے بلوچوں نے اس شہر کے قیام کے قریباً سوا سو سال بعد یہاں تسلط قائم کیا جبکہ جہلم کنارے آباد اس شہر کے گرد فصیل مغلوں کے دور میں بنی۔ شہر کے چاروں طرف چھ دروازے ہیں جو اپنے فن تعمیر کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ان دروازوں کے نام لاہوری دروازہ (جسے خونی دروازہ بھی کہتے ہیں)، کشمیری دروازہ، پشاوری دروازہ (جسے جھمٹی دروازہ بھی پکارا جاتا ہے)، کابلی دروازہ، مستانہ درگاہی دروازہ ملتانی اور ملتانی کونہ دروازہ شامل ہیں۔ لاہوری اور کشمیری صدر دروازے ہیں۔
رنجیت سنگھ نے جب اس علاقے میں یلغار کی اور لاہوری دروازے کے قریب خون ناحق بہایا تو اس کو خونی دروازہ پکارا جانے لگا۔ بعض مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ شہر کے یہ دروازے برطانوی تسلط کے دوران بنائے گئے، تاہم اس ضمن میں کوئی واضح شواہد نہیں مل سکے۔
یوں تو ساہیوال شہر اب بہت پھیل چکا ہے تاہم پرانا شہر قلعے کا منظر پیش کرتے دفاعی حصار (شہر کے چاروں طرف بنی دیواروں) میں گھرا ہوا ہے اور نقل و حرکت کےلیے شہر کے داخلی دروازوں کو ہی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ مضبوطی اور قدیم طرز تعمیر کی وجہ سے شہر کے اطراف میں بنی فصیل اور داخلی دروازے صدیاں گزر جانے کے باجود قائم ہیں۔ تاہم تجاوزات مافیا نے اس شہر کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسر دیواروں اور داخلی دروازوں پر چسپاں کیے گئے اشتہارات نے پوری کردی ہے جن کی وجہ سے شہر کو اصل حالت میں دیکھنا ممکن ہی نہیں رہا۔
قیام پاکستان سے قبل ساہیوال بڑے بڑے تاجروں کا گڑھ تھا۔ آبادی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی تھے۔ شہر میں مندروں، ہندوعبادت گاہوں کی تاحال موجودگی اس کا واضح ثبوت ہے۔ کھنڈرات اور ٹیلوں کی کھدائی سے ملنے والے بت بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہندو مت یہاں کا قدیم ترین مذہب ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندو یہاں سے بھارت نقل مکانی کرگئے لیکن ان کی عبادت گاہیں اور ہندو برادری کے چند گھر یہاں موجود ہیں۔
یہاں ہندو برادری کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی داستان بھی ملتی ہے۔ بلوچوں کا اس علاقے میں تسلط قائم ہے، بلوچ سردار ہندوؤں کو مردے جلانے نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے ہندو مردے کو امانت کے طور پر دفنا دیتے تھے۔ ساہیوال دنیا کا واحد شہر سمجھا جاتا ہے جہاں ہندوؤں سے منسوب قبریں اب بھی موجود ہیں۔ بلوچوں کے سفاکانہ رویّے کی وجہ سے ہندو قوم یہاں پر مجبور و محبوس تھی جس کا اندازہ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب جتنے بھی مندر یہاں موجود ہیں، خستہ حالی کا شکار ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد جب ہندو نقل مکانی کرگئے تو مقامی آبادی نے ہندوؤں کے گھروں اور مندروں پر قبضہ جما لیا، مندروں کو جانوروں کے باڑوں میں بدل دیا گیا جو عبادت گاہوں کی توہین ہے۔ عبادت گاہیں خواہ کسی بھی مذہب کی ہوں، بطور مسلمان اور انسان ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔
تاریخ کھنگالنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمایوں کے تعاقب میں شیر شاہ سوری ساہیوال سے گزرا اور یہاں قیام کیا۔ اس دوران یہاں ایک مسجد تعمیر کروائی جو اب بھی موجود ہے اور شیر شاہ سوری مسجد کے نام سے مشہور ہے۔
ساہیوال کے جغرافیائی تاریخی پس منظر پر بات کی جائے تو ایک بڑے رقبے پر محیط ٹبوں، ٹیلوں اور بھڑوں کا ذکر کیے بغیر بات ادھوری رہ جائے گی۔ تین مختلف حصوں میں بٹے ہوئے یہ ٹبے اور ٹیلے دراصل اس جگہ پر موجود قدیم شہر کے کھنڈرات ہیں جو تباہی و بربادی کا شکار ہوئے۔
ساہیوال کا قدیم شہر دریا کنارے آباد تھا۔ کھنڈرات کا سب سے اونچا حصہ ٹبہ پنج پیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹبہ کی چوٹی پر بزرگ حیات المیر کی بیٹھک ہے۔ (جس جگہ کوئی بزرگ عبادت، ریاضت یا چلہ وغیرہ کرے، اس جگہ کو اس بزرگ کی ''بیٹھک'' کہتے ہیں۔) آثار بتاتے ہیں کہ اس ٹبہ کی جگہ زمانہ قبل مسیح میں ایک آباد شہر تھا۔ دوسرا ٹبہ ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے جبکہ تیسرا ٹیلہ جو گردوانی ماڑی کہلاتا ہے، ہندو مت کی قدیم تہذیب کے آثار لیے ہوئے ہے۔ کھدائی کے بعد یہاں ہندوؤں کی قدیم عبادت گاہوں، درس گاہوں اور رہائشی علاقے کے آثار ملے ہیں۔
یہاں کے لوگ بت پرست تھے اورسورج دیوتا، ماتا دیوی اور لکشمی دیوی کی پوجا کرتے تھے۔ باقیات میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے مجسمے اور قدیم ہندو رسم الخط کے ٹھیکرے ملے ہیں۔ مٹتے آثار کے باوجود یہ شہر آج بھی اپنی عظیم الشان تہذیب کا گواہ ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ شہر سکندراعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت آباد تھا۔ تباہ شدہ شہر کے باسیوں نے راجہ پورس کی فوج کے ساتھ مل کر سکندراعظم کے بڑھتے قدم روکنے کی کوشش کی تھی۔ دریا کنارے شہر ہونے کی وجہ سے لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ بارٹر سسٹم یعنی تبادلہ جنس کے تحت لین دین ہوتا تھا۔ ٹیلوں کی مغربی جانب ایک بہت بڑے غار کے آثار موجود ہیں جو اندازے کے مطابق تباہ حال شہر کا داخلی دروازہ تھا۔ عوام نے ان ٹبوں کی مٹی اور اینٹیں چرالی ہیں اسی لیے قدیم شہر کے آثار ختم ہوتے جارہے ہیں۔
تاہم عوامی خورد برد اور موسمی تبدیلیوں و تباہی کے باوجود آج بھی 70 فٹ سے اونچے ٹیلے موجود ہیں جن کا مشاہدہ کرنے سے قدیم شہریوں کے طرز تعمیر کی حیران کن صلاحیت سامنے آتی ہے اور ساتھ ہی عبرت کے زیر اثر دل پکار اٹھتا ہے: ''زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔''
ان شہروں کی تباہی کے بارے سوچ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ شاید یہ لوگ قہر الٰہی کا شکار ہوئے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سیلابی تباہ کاریوں اور بیرونی حملہ آوروں نے اس شہر کو کھنڈر میں بدلا تاہم عقل کوئی دلیل دینے سے قاصر ہے۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ
نقشِ پا کچھ رفتگاں کے خاک پر محفوظ ہیں
یہ نشانی دیکھ سکتے ہیں، اٹھاسکتے نہیں
ساہیوال کا علاقہ نہنگ تاریخی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں ہزاروں سال پرانے شہر کے کھنڈرات اور باقیات و آثار جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی نہنگ میں ٹبہ پنج پیر واقع ہے۔ یہ جگہ ایک بزرگ حیات المیر سے منسوب ہے اور روایات کے مطابق اس جگہ انہوں نے عبادت کی تھی۔ اسی نسبت سے یہ جگہ حیات المیر کی بیٹھک کہلائی۔ ٹبہ پنج پیر پر بنی بزرگ حیات المیر کی بیٹھک لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ ہر سال 15 اور 16 جنوری کو یہاں عرس منایا جاتا ہے جس میں زائرین بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔
سخی حیات المیر کی بیٹھک کے ساتھ ہی مشہور نو (9) گز کی قبریں ہیں جنہیں دیکھنے کےلیے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔ ان قبروں میں طویل القامت افراد دفن نہیں بلکہ پنج پیریا سلسلے کے ماننے والے اپنے پیر کو نمایاں ثابت کرنے کےلیے ان کی لمبی قبریں بناتے تھے۔
ہندوؤں کےلیے بھی یہ قبریں قابل احترام ہیں کیونکہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق انہیں پانچ پانڈوؤں سے منسوب کرتے ہیں۔ ٹبہ پنج پیر سے ملحقہ قبرستان میں لگے طویل العمر پیلو (وان) کے درخت اور کری کی جھاڑیوں کے جھنڈ ماحول کو پراسرار بنادیتے ہیں اور لوگ ان کے اندر جانے سے ڈرتے ہیں۔
پانچ کھجوروں کا جھنڈ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پیلو اور کری کے جھنڈوں سے وابستہ ماورائے عقل کہانیاں بھی مقامی آبادی میں عام ہیں۔ بعض مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہاں جنات آباد ہیں اور جو کوئی بھی اس جھنڈ میں جانے کی کوشش کرتا ہے، اسے جنات کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آستانہ عالیہ سیال شریف بھی اسی ساہیوال شہر میں واقع ہے اور سیالوی خاندان مذہبی و سیاسی لحاظ سے بہت مضبوط ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران آستانہ سیال شریف کے گدی نشینوں نے بعض معاملات پر مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو محاذ آرائی شروع کر رکھی ہے، اس سے ان کی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ساہیوال اور گرد و نواح کے شہروں میں آباد لوگ آستانہ عالیہ سیال شریف سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔
ساہیوال شہر کے کنارے دریائے جہلم بڑی روانی سے بہتا ہے۔ گرمیوں میں جب اس دریا کا مزاج برہم ہوتا ہے تو یہ ساہیوال شہر کو سیلابی ریلے میں بہاکر لے جاتا ہے۔ خوشاب اور شاہ پور سے گزر کر دریائے جہلم ساہیوال کی حدود کو چھوتے ہوئے جھنگ کی جانب مڑجاتا ہے اور اس دریا کا تنہا سفر ہیڈ تریموں میں جا کر ختم ہوتا ہے کیونکہ اس مقام پر جہلم اور چناب کا ملاپ ہوتا ہے اور دونوں دریا باہم مل کر آگے کا سفر طے کرتے ہیں۔
ساہیوال سے گرد و نواح کے شہروں میں داخل ہونے کےلیے ایک عرصہ تک مقامی لوگ کشتیوں کا استعمال کرتے رہے۔ حکومت نے اس شہر کے باسیوں کی آسانی کےلیے جو واحد قابل ذکر کام کیا، وہ ساہیوال کے نواح میں دریائے جہلم پر پل کی تعمیر ہے جس سے شہریوں کو بہت سہولت ہوئی اور عشروں پر محیط کشتیوں کے ذریعے آمد و رفت کا روایتی طریقہ اختتام پذیر ہوگیا۔ ساہیوال کی ایک اور خاص بات یہاں موجود ایمرجنسی رن وے ہے۔ دو کلومیٹر طویل پٹی کو ایمرجنسی لینڈنگ کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ساہیوال اور گرد و نواح کی ایک ایک چیز قابل ذکر ہے جس کےلیے صفحات کم پڑ جائیں۔ یہ خطہ تحقیقی لحاظ سے توجہ طلب ہے۔ ساہیوال کے رہائشی محمد ارسلان توصیف کا کہنا درست ہے کہ زمانہ آثارِ قدیمہ (آرکیالوجی) کا دشمن ہے، ''آنے والی نسلوں کےلیے ان آثار کا باقی رہنا ضروری ہے۔'' یہ تاریخی شہر ارباب اختیار کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ گزشتہ تیس برسوں سے یہاں کے عوام موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) لیگ کو ووٹ دے رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ خطہ پسماندگی کا شکار ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2013 کے عام انتخابات میں ساہیوال کے حلقے سے الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ انتخابی عمل مکمل ہونے سے قبل اور اس کے بعد بھی میاں نواز شریف نے اس شہر کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ نواز شریف کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار محمد شفقت حیات خان ہی کامیاب ہوئے مگر نواز شریف کی طرح شفقت بلوچ نے بھی عوام کو بس طفل تسلیاں ہی دیں جبکہ ساہیوال میں بہت ہی طاقتور سمجھے جانے والے سیالوی خاندان کے سجادہ نشینوں نے بھی ووٹ اور چندہ تو ضرور لیا مگرشہریوں کو سوائے پیری فقیری اور اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں دیا۔
ایک طرف اس شہر میں واقع تاریخی مقامات کا تحفظ نہ کرکے مقامی تاریخ و ثقافت کے نقوش کو مٹایا جارہا ہے تو دوسری طرف صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے معاملے کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا۔ حکومتی نمائندگان کو چاہیے کہ اس تاریخی شہر کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کےلیے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ تاریخی ورثہ محفوظ رہے اور مقامی آبادی کو بنیادی سہولیات بھی میسر ہوسکیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ساہیوال کا قدیم تاریخی ورثہ تو مٹے گا ہی، ساتھ ہی وعدہ فراموش عوامی نمائندگان کا نام بھی آنے والے الیکشن میں صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔