ہوالشافی
یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے کہ کس مریض کوکہاں سے شفا حاصل ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو ہم کلامی کا وصف عطا فرمایا تھا۔ اس لیے آپؑ کوکلیم اللہ کہاجاتا ہے۔ ایک مرتبہ جب آپ اللہ تعالیٰ سے کلام کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو آپؑ نے اپنے رب سے پیٹ کے درد کی شکایت کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہاڑ کے اس جانب جو پودا لگا ہوا ہے اس کے پتے چبا لیں۔ چنانچہ آپؑ نے اپنے رب کا حکم بجالاتے ہوئے اس پودے کے پتے چبالیے اور صحت یاب ہوگئے۔ چند روز بعد آپؑ کے پیٹ میں پھر درد ہوا۔
آپؑ نے جاکر اسی پودے کے پتے پھر توڑے اور چبالیے مگر دو تین بار ایسا کرنے کے باوجود کوئی افاقہ نہ ہوا تو آپؑ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا ''یا اللہ! کیا وجہ ہے کہ مجھے افاقہ نہیں ہورہا؟ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ''اے موسیٰؑ شفا اس پودے کے پتوں میں نہیں بلکہ ہمارے حکم میں ہے'' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شفا نہ دوا میں ہے اور نہ معالج کے ہاتھ میں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی معالج سے سب مریضوں کو فائدہ نہیں ہوتا پس ثابت ہوا کہ اگر شفا ایک ہی معالج کے ہاتھ میں ہوتی تو باقی معالج بے چارے کیا کرتے؟ یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے کہ کس مریض کوکہاں سے شفا حاصل ہوگی۔
ایک صاحب اپنے بچے کو لے کر ایک ڈاکٹر کے پاس پہنچے جس کی عمر 12-10 سال تھی ۔ تمام رپورٹوں کا پلندہ ان کے ہاتھوں میں تھا جسے انھوں نے ڈاکٹر کے آگے رکھ دیا اور بولے ''میں نے اپنے بچے کے علاج میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ بڑے بڑے اسپیشلسٹوں کو دکھاچکا ہوں مگر کوئی افاقہ نہیں ہورہا بلکہ روز بروز اس کی طبیعت بگڑتی ہی جارہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میں دو چار ماہ یہاں آپ کا علاج بھی کراؤں اور فائدہ کچھ بھی نہ ہو'' ڈاکٹر نے نہایت انکساری سے جواب دیا ''بھائی صاحب! اگر برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں؟شفا تو صرف اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام تو بس اپنی سی کوشش کرنا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری طرف سے کوئی کوتاہی بھی نہیں ہوگی۔ آپ صرف اللہ کا نام لے کر دوا کھلاتے رہیے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیے کیونکہ شفا اسی کے اختیار میں ہے۔''
اس بچے کے پھیپھڑوں کی حالت بڑی خراب تھی اور کیس کی نوعیت کافی سنگین تھی جس کی وجہ سے اس کی شفا یابی کے امکانات بہت کم تھے، لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کو شفادینا مقصود تھی۔ دو تین ماہ میں ہی بچہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگیا۔ تمام ٹیسٹ دوبارہ کرائے گئے اور اللہ کے فضل وکرم سے سب کے سب نارمل پائے گئے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے ایک مریضہ اپنا علاج کرانے کے لیے آئیں جنھیں کسی لیڈی ڈاکٹر نے ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجا تھا۔ حالانکہ ایلوپیتھک ڈاکٹر عموماً ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کو ڈاکٹر ہی تسلیم نہیں کرتے۔
مریضہ کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ عرصہ دراز سے اولاد کی نعمت سے محروم تھیں۔ دو تین سال ہر جگہ علاج کرایا مگر مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ قصہ یہ تھا کہ مریضہ کی فیلو پین ٹیوب (Fallopian Tube) خراب تھی۔ موصوفہ نے پانچ چھ ماہ لگ کر ہومیو ڈاکٹر صاحب کا علاج کیا جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ۔ پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔ سب حیران تھے اور بہت خوش بھی کہ یہ سب کیسے ہوگیا؟ ڈاکٹر صاحب کا جواب صرف اتنا تھا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ تھا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ شفا اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہے اگر اس کا حکم ہو تو خاک کی چٹکی بھی خاکِ شفا بن سکتی ہے ورنہ تو یہ بھی ہوتا ہے کہ بقول شاعر
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اس سلسلے میں ہم اپنا ذاتی مشاہدہ آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک عرصے سے دائیں ہاتھ میں رعشے کی شکایت ہے۔ ہم نے سب سے پہلے کراچی کے ایک معروف نیورولوجسٹ سے رجوع کیا جن کی فیس بھی آسمان سے باتیں کرتی ہے اور جن سے Appointment حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ موصوف کے نخرے بھی بہت زیادہ ہیں مگر مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق ہم نے موصوف سے رجوع کیا۔ لیکن کافی عرصے علاج کرانے کے باوجود ذرا بھی افاقہ نہیں ہوا۔
دریں اثنا ہمارا مسقط، عمان جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہمارے بڑے داماد کے توسط سے ہومیو ڈاکٹر نعیم کرنالکر سے رجوع کرنے کا موقع ملا۔ یہ ہمارے لیے خیرِ مستور ثابت ہوا۔ ڈاکٹر صاحب جن کا تعلق پونا، ہندوستان سے ہے مسقط کے علاوہ بحرین، ممبئی اور پونا میں بھی مطب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں بڑی شفا رکھی ہے۔ موصوف مختلف بیماریوں کے علاج میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں جس میں عارضۂ قلب سے لے کر بواسیر، گردے اور جلد کے علاوہ جوڑوں کے درد سمیت متعدد بیماریاں شامل ہیں۔
الحمدﷲ ڈاکٹر صاحب کے علاج سے ہمیں کافی افاقہ محسوس ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نہایت مرنجانِ مرنج اور خوش اخلاق واقع ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آدھا مرض تو ڈاکٹر صاحب کی محض گفتگو سے ہی رفع ہوجاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں خاص شفا رکھی ہے جس کا سبب ان کی مریضوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاصِ نیت ہے۔