اشرافیہ کے الیکشن
سینیٹ الیکشن میں ماضی کی طرح اشرافیہ کے ووٹ خریدنے کی باز گشت سنی گئی۔
ہفتہ اتوار بچوں کو اسکول سے چھٹی ہوتی ہے اور یہ دونوں دن ان کی عیاشی کے دن ہوتے ہیں، اسکول کا کام جیسے تیسے مکمل کر کے وہ ٹی وی کے سامنے آبیٹھتے ہیں اور اپنے پسندیدہ پروگرام لگا لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ٹی وی کا ریموٹ بھی اپنے قبضے میں کر لیتے ہیں تا کہ میں ان کے پسندیدہ پروگرواموں میں مداخلت نہ کر سکوں۔
صبح سے شام اسی کھینچا تانی میں گزرجاتی ہے، میری خواہش یقیناًخبریں سننا جب کہ بچے اس کے لیے قطعاً تیار نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ بابا آپ ہر وقت خبریں ہی سنتے رہتے ہیں، میں ان کے معصوم سوالوںکے جواب میں مسکرا دیتا ہوں کہ ابھی ان کی عمر اتنی نہیں ہوئی کہ یہ ملک کی سیاست کے بارے میں جان سکیں، ان بچوں کو اپنی اس عمر میں اپنی دنیا میں ہی مست رہنا چاہیے اور ہمیں اپنی دنیا میں کہ دونوں کے لیے اس دنیا میں الگ الگ جہاں آباد ہیں ۔
ہر انسان اپنی خواہشات کے تابع زندگی زندگی گزارتا ہے اور اپنی چھوٹی بڑی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے ہر جتن کرتا ہے، میری بھی اس عمر ایک ہی خواہش ہے کہ میرے چھوٹے بچے یعنی میرے بچوں کے بچے میر ے ارد گرد رہیں، وہ مجھے تنگ بھی کرتے ہیں لیکن میں اس کے باجود خوش رہتا ہوں کہ ان کے معصوم سوال اور حرکتیں میرے لیے زندگی ہیں، اس لیے اس ہفتہ کو جب میں نے اپنا ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے ٹی وی پر اپنی مرضی کا چینل لگا لیا توان بچوں نے منہ بسورنے شروع کر دیے کیونکہ ان کے پسندیدہ پروگرام مس ہو رہے تھے جب کہ میں اس دن ملک میں ہونے والی سینیٹ الیکشن کی بڑی کارروائی سے آگاہ رہنا چاہتا تھا۔
میرے اور بچوں میں آنکھ مچولی جاری رہی اور ہم دونوں کا دن جیسے تیسے گزر گیا لیکن بیچ میں ان بچوں کے سوال بھی آتے رہے کہ یہ سینیٹ کیا ہوتا ہے اور اس کا کیا کام ہے، میں ان بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق ان کو جواب دیتا رہا لیکن ان کے ناپختہ ذہن میری بات سمجھنے سے قاصر رہے یا شائد میں ان کو اصل بات سمجھانے سے قاصر رہا کہ میرے معصوم بچوں، یہ جمہوریت کا ایک اور اعلیٰ ایوان ہے جس میں صرف اشرافیہ ہی اشرافیہ کو ووٹ دیتے ہیں یہاں پر ہماری اشرافیہ اپنے ضمیر کے سودے طے کرتی ہے اور یوں ایوان بالا کے معزز ممبران منتخب ہو جاتے ہیں ۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات بالآخر پایہ تکمیل تک پہنچ ہی گئے اور ایک مدت سے ان انتخابات کے انعقاد کے بارے میں جو شکوک و شبہات اور قیاس آرائیاں مختلف حلقوں میں جاری تھیں وہ دم توڑ گئیں۔
صرف ہوا یہ کہ حکومتی پارٹی کو اس الیکشن سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس کے اراکین آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے، یہ آزاد اراکین اگر اپنی پارٹی کے وفادار رہے تو حکومتی پارٹی سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت ہو گی لیکن اس کے باوجود اس کو اپنا چیئر مین منتخب کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں کی ضرورت ہے جس کے لیے جوڑ توڑ کا آغاز ان انتخابات سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا، جب بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی ہوئی تھی، اب اطلاعات آرہی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے جوڑ توڑ کے لیے کوئٹہ میں ڈیرے ڈال دیے ہیں تا کہ چھوٹی جماعتوں اور آزاد اراکین کو رام کر کے سینیٹ میں اپنا چیئر مین منتخب کرایا جا سکے۔
سینیٹ الیکشن میں ایک بار پھر اشرافیہ طبقے کو ہی سینیٹ کے ٹکٹ دیے گئے جنہوں نے اپنی تعلقات اور مال و دولت سے ایوان بالا کا رکن منتخب ہونے کے لیے اپنی راہ ہموار کی۔ سینیٹ الیکشن میں ماضی کی طرح اشرافیہ کے ووٹ خریدنے کی باز گشت سنی گئی جن کے ثبوت الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی سامنے آگئے کہ ہر صوبے میں توقع کے برعکس نتائج غیر متوقع رہے اور ایسے ممبران بھی منتخب ہو گئے جن کی پارٹیوں کے پاس مطلوبہ تعداد میں ووٹ موجود نہیں تھے، اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمیشہ کی طرح مال و دولت کی چمک اپنا رنگ دکھا گئی اور اس کے بارے میں اکثریتی پارٹیوں کے لیڈروں نے بھی کہہ دیا کہ سینیٹ الیکشن میں بد ترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔
ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح کا استعمال کب شروع ہو ا،اس کے بارے کچھ واضح نہیں لیکن گھوڑا جو کہ ایک عالیشان جانور ہے اور ان کا کاروبار اور سواری بھی باعث فخر سمجھی جاتی ہے، اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کا تعلق بھی اشرافی طبقے سے ہی ہے دنیا بھر میں امیر ترین افراد ہی اس کاروبار سے منسلک ہیں اور اس کا کاروبار اونچے طبقے کا کاروبار سمجھا جاتا ہے اس لیے شائد یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر اشرافیہ طبقے میں ووٹ کی لین دین کے معاملات ہوں تو اس کے بارے میںاصطلاح بھی ان کے شایان شان ہونی چاہیے اور یوں لگتا ہے کہ اس طرح ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح وجود میں آئی اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے علاوہ اعلیٰ نسل اور خاندان اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کواپنے ووٹ کی خریدو فروخت کے لیے یہی اصطلاح پسند آئی اور رائج کر دی گئی۔
سینیٹ الیکشن میں سیاسی پارٹیوں نے جہاں پر اشرافیہ طبقے کو ہی ٹکٹ کے لیے ترجیح دی وہیں پر پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو بھی سینیٹ میں بھجوا کر ایک اعلیٰ مثال قائم کی ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ سے سینیٹ کی نومنتخب رکن کرشنا کماری کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کو پتا ہی نہیں کہ سینیٹر کیا ہوتا ہے، وہ کہتی ہیں کہ مجھے خود بھی یقین نہیں آرہا کہ میں سینیٹر منتخب ہو گئی ہوں۔
یہ سب ایک خواب سا لگ رہا ہے، خاندان کے لوگ جو مبارکباد دینے آرہے ہیں ان کو میرے والدین یہ بتا رہے ہیں کہ ان کی بیٹی کو اسلام آباد میں اعلیٰ ملازمت مل گئی ہے اور وہ اب اسلام آباد چلی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کا وجود ہی اس کے غریب کارکنوں کے مرہون منت ہے، یہ بات الگ ہے کہ اس کے کارکنا ن اس سے ناراض ہیں لیکن آصف زرداری سیاسی جوڑ توڑ کر ماہر ہیں، وہ عام انتخابات سے پہلے ناراض کارکنوںکو منانے کے علاوہ پارٹی میں جیتنے والے امیدواروں کو شامل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کر رہے ہیں جس کا آغاز انھوں نے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان سے کر دیا اور اب ان کے برخوردار بلاول بھٹوکا دعویٰ ہے کہ چیئر مین سینیٹ ان کا ہوگا۔
اس دعویٰ کو حقیقت میں بدلنے کے لیے آصف زرداری خود میدان میں ہیں اور وہ یہ بھر پور کوشش کریں گے کہ نواز لیگ کو سینیٹ میں شکست دے کر اپنا چیئر مین منتخب کرا لیں جو ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن ناممکنات میں سے نہیں کیونکہ نواز لیگ کے پاس بھی مطلوبہ اکثریت نہیں، اس کو بھی چیئر مینی کے لیے اتحادیوں کی ضرورت ہے۔
سینیٹ کی تیسری بڑی پارٹی تحریک انصاف ہے جو اگر سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرے تو نواز لیگ کو سینیٹ سے باآسانی دور رکھا جاسکتا ہے لیکن عمران خان شائد یہ نہیں چاہئیں گے کہ عام انتخابات سے قبل وہ پیپلز پارٹی سے سینیٹ میں اتحاد کر لیں،اس سے ان کی عوامی ساکھ اور کرپشن مخالف مہم متاثر ہو نے کا خدشہ ہے ۔ بہر حال آنے والے چند دن میں سینیٹ کی صورتحال کسی حد تک واضح ہو جائے گی اور یہ معلوم ہو جائے گا کہ اشرافیہ کے یہ نمایندے اپنا چیئر مین منتخب کرنے کے لیے کس بھاؤ اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔
صبح سے شام اسی کھینچا تانی میں گزرجاتی ہے، میری خواہش یقیناًخبریں سننا جب کہ بچے اس کے لیے قطعاً تیار نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ بابا آپ ہر وقت خبریں ہی سنتے رہتے ہیں، میں ان کے معصوم سوالوںکے جواب میں مسکرا دیتا ہوں کہ ابھی ان کی عمر اتنی نہیں ہوئی کہ یہ ملک کی سیاست کے بارے میں جان سکیں، ان بچوں کو اپنی اس عمر میں اپنی دنیا میں ہی مست رہنا چاہیے اور ہمیں اپنی دنیا میں کہ دونوں کے لیے اس دنیا میں الگ الگ جہاں آباد ہیں ۔
ہر انسان اپنی خواہشات کے تابع زندگی زندگی گزارتا ہے اور اپنی چھوٹی بڑی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے ہر جتن کرتا ہے، میری بھی اس عمر ایک ہی خواہش ہے کہ میرے چھوٹے بچے یعنی میرے بچوں کے بچے میر ے ارد گرد رہیں، وہ مجھے تنگ بھی کرتے ہیں لیکن میں اس کے باجود خوش رہتا ہوں کہ ان کے معصوم سوال اور حرکتیں میرے لیے زندگی ہیں، اس لیے اس ہفتہ کو جب میں نے اپنا ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے ٹی وی پر اپنی مرضی کا چینل لگا لیا توان بچوں نے منہ بسورنے شروع کر دیے کیونکہ ان کے پسندیدہ پروگرام مس ہو رہے تھے جب کہ میں اس دن ملک میں ہونے والی سینیٹ الیکشن کی بڑی کارروائی سے آگاہ رہنا چاہتا تھا۔
میرے اور بچوں میں آنکھ مچولی جاری رہی اور ہم دونوں کا دن جیسے تیسے گزر گیا لیکن بیچ میں ان بچوں کے سوال بھی آتے رہے کہ یہ سینیٹ کیا ہوتا ہے اور اس کا کیا کام ہے، میں ان بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق ان کو جواب دیتا رہا لیکن ان کے ناپختہ ذہن میری بات سمجھنے سے قاصر رہے یا شائد میں ان کو اصل بات سمجھانے سے قاصر رہا کہ میرے معصوم بچوں، یہ جمہوریت کا ایک اور اعلیٰ ایوان ہے جس میں صرف اشرافیہ ہی اشرافیہ کو ووٹ دیتے ہیں یہاں پر ہماری اشرافیہ اپنے ضمیر کے سودے طے کرتی ہے اور یوں ایوان بالا کے معزز ممبران منتخب ہو جاتے ہیں ۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات بالآخر پایہ تکمیل تک پہنچ ہی گئے اور ایک مدت سے ان انتخابات کے انعقاد کے بارے میں جو شکوک و شبہات اور قیاس آرائیاں مختلف حلقوں میں جاری تھیں وہ دم توڑ گئیں۔
صرف ہوا یہ کہ حکومتی پارٹی کو اس الیکشن سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس کے اراکین آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے، یہ آزاد اراکین اگر اپنی پارٹی کے وفادار رہے تو حکومتی پارٹی سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت ہو گی لیکن اس کے باوجود اس کو اپنا چیئر مین منتخب کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں کی ضرورت ہے جس کے لیے جوڑ توڑ کا آغاز ان انتخابات سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا، جب بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی ہوئی تھی، اب اطلاعات آرہی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے جوڑ توڑ کے لیے کوئٹہ میں ڈیرے ڈال دیے ہیں تا کہ چھوٹی جماعتوں اور آزاد اراکین کو رام کر کے سینیٹ میں اپنا چیئر مین منتخب کرایا جا سکے۔
سینیٹ الیکشن میں ایک بار پھر اشرافیہ طبقے کو ہی سینیٹ کے ٹکٹ دیے گئے جنہوں نے اپنی تعلقات اور مال و دولت سے ایوان بالا کا رکن منتخب ہونے کے لیے اپنی راہ ہموار کی۔ سینیٹ الیکشن میں ماضی کی طرح اشرافیہ کے ووٹ خریدنے کی باز گشت سنی گئی جن کے ثبوت الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی سامنے آگئے کہ ہر صوبے میں توقع کے برعکس نتائج غیر متوقع رہے اور ایسے ممبران بھی منتخب ہو گئے جن کی پارٹیوں کے پاس مطلوبہ تعداد میں ووٹ موجود نہیں تھے، اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمیشہ کی طرح مال و دولت کی چمک اپنا رنگ دکھا گئی اور اس کے بارے میں اکثریتی پارٹیوں کے لیڈروں نے بھی کہہ دیا کہ سینیٹ الیکشن میں بد ترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔
ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح کا استعمال کب شروع ہو ا،اس کے بارے کچھ واضح نہیں لیکن گھوڑا جو کہ ایک عالیشان جانور ہے اور ان کا کاروبار اور سواری بھی باعث فخر سمجھی جاتی ہے، اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کا تعلق بھی اشرافی طبقے سے ہی ہے دنیا بھر میں امیر ترین افراد ہی اس کاروبار سے منسلک ہیں اور اس کا کاروبار اونچے طبقے کا کاروبار سمجھا جاتا ہے اس لیے شائد یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر اشرافیہ طبقے میں ووٹ کی لین دین کے معاملات ہوں تو اس کے بارے میںاصطلاح بھی ان کے شایان شان ہونی چاہیے اور یوں لگتا ہے کہ اس طرح ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح وجود میں آئی اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے علاوہ اعلیٰ نسل اور خاندان اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کواپنے ووٹ کی خریدو فروخت کے لیے یہی اصطلاح پسند آئی اور رائج کر دی گئی۔
سینیٹ الیکشن میں سیاسی پارٹیوں نے جہاں پر اشرافیہ طبقے کو ہی ٹکٹ کے لیے ترجیح دی وہیں پر پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو بھی سینیٹ میں بھجوا کر ایک اعلیٰ مثال قائم کی ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ سے سینیٹ کی نومنتخب رکن کرشنا کماری کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کو پتا ہی نہیں کہ سینیٹر کیا ہوتا ہے، وہ کہتی ہیں کہ مجھے خود بھی یقین نہیں آرہا کہ میں سینیٹر منتخب ہو گئی ہوں۔
یہ سب ایک خواب سا لگ رہا ہے، خاندان کے لوگ جو مبارکباد دینے آرہے ہیں ان کو میرے والدین یہ بتا رہے ہیں کہ ان کی بیٹی کو اسلام آباد میں اعلیٰ ملازمت مل گئی ہے اور وہ اب اسلام آباد چلی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کا وجود ہی اس کے غریب کارکنوں کے مرہون منت ہے، یہ بات الگ ہے کہ اس کے کارکنا ن اس سے ناراض ہیں لیکن آصف زرداری سیاسی جوڑ توڑ کر ماہر ہیں، وہ عام انتخابات سے پہلے ناراض کارکنوںکو منانے کے علاوہ پارٹی میں جیتنے والے امیدواروں کو شامل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کر رہے ہیں جس کا آغاز انھوں نے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان سے کر دیا اور اب ان کے برخوردار بلاول بھٹوکا دعویٰ ہے کہ چیئر مین سینیٹ ان کا ہوگا۔
اس دعویٰ کو حقیقت میں بدلنے کے لیے آصف زرداری خود میدان میں ہیں اور وہ یہ بھر پور کوشش کریں گے کہ نواز لیگ کو سینیٹ میں شکست دے کر اپنا چیئر مین منتخب کرا لیں جو ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن ناممکنات میں سے نہیں کیونکہ نواز لیگ کے پاس بھی مطلوبہ اکثریت نہیں، اس کو بھی چیئر مینی کے لیے اتحادیوں کی ضرورت ہے۔
سینیٹ کی تیسری بڑی پارٹی تحریک انصاف ہے جو اگر سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرے تو نواز لیگ کو سینیٹ سے باآسانی دور رکھا جاسکتا ہے لیکن عمران خان شائد یہ نہیں چاہئیں گے کہ عام انتخابات سے قبل وہ پیپلز پارٹی سے سینیٹ میں اتحاد کر لیں،اس سے ان کی عوامی ساکھ اور کرپشن مخالف مہم متاثر ہو نے کا خدشہ ہے ۔ بہر حال آنے والے چند دن میں سینیٹ کی صورتحال کسی حد تک واضح ہو جائے گی اور یہ معلوم ہو جائے گا کہ اشرافیہ کے یہ نمایندے اپنا چیئر مین منتخب کرنے کے لیے کس بھاؤ اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔