اردو کے شاہکار خاکے
اردو ادب میں خاکہ نگاری کے حوالے سے جو بڑے نام ہیں ان میں ایک اے۔حمید بھی ہیں۔
JAKARTA:
اے۔حمید کے لکھے کچھ شخصی خاکے اس کتاب میں شامل ہیں جو خلیل احمد نے ''اردو کے شاہکار خاکے'' کے عنوان سے دو جلدوں میں مرتب و مدون کی ہے اور فکشن ہاؤس نے شایع کی ہے۔ خلیل احمد کہتے ہیں ''میں نے اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے خاکے شامل کیے جائیں۔''
اردو ادب میں خاکہ نگاری کے حوالے سے جو بڑے نام ہیں ان میں ایک اے۔حمید بھی ہیں۔ ان کے کچھ خاکے اس کتاب میں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی تصویرکشی اس انداز سے کی ہے کہ یہ خود ان کی آپ بیتی بن گئی ہے۔
اے۔حمید تعریف کرنے میں فیاض ہیں اور اسی حساب سے اپنے ممدوح کے بخیے بھی ادھیڑتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کی خاکہ کشی کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ''خلوص، دیانت اور محنت یہ تین عناصر قاسمی صاحب کی شخصیت کے اجزائے اعظم ہیں۔ ان کی شرافت ان کی شاعری اور افسانوں سے زیادہ مشہور ہے، ایک بنیادی بات اور بھی ہے۔ قاسمی صاحب انسان سے پیار کرتے ہیں۔ یہ انسان خواہ کسی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہو، وہ کسی انسان کو دکھی نہیں دیکھ سکتے۔''
اشفاق احمد کا ذکر کرتے ہیں تو اے۔حمید لکھتے ہیں ''بعض آدمی تانبے کے ہوتے ہیں اور وہ تانبے کو سونا بنانے کے جتن میں لگے رہتے ہیں۔ اشفاق احمد ایسا آدمی ہے جو سونے کا ہے مگر اپنے آپ کو تانبے کا بنانے میں لگا ہوا ہے۔ اشفاق احمد کی کئی ادائیں مجھے اچھی لگتی ہیں۔ میں محبت کا بندہ ہوں۔ اشفاق احمد خود محبت کا بندہ ہے۔ اس محبت کے سونے کو اس نے خدا جانے کس کس تیزاب کی پٹھ دے دے کراس کا تانبا بنانے کی کوشش کی مگر خدا کا شکر ہے کہ یہ تانبا نہ بن سکا۔''
عبدالحمید عدم سے اے۔حمید کی پہلی ملاقات ''سویرا'' کے دفتر میں ہوئی۔ لکھتے ہیں ''مجھے عدم کی طبیعت بڑی پسند آئی۔ جیسے بے ساختہ شعر کہتا تھا ویسی ہی بے ساختگی اس کی شخصیت اور سبھاؤ میں تھی۔ نہ کوئی تکلف نہ کوئی بناوٹ۔ لباس میں بھی اس کی طبیعت اور مزاج کا لاابالی پن جھلکتا تھا، اگرچہ اس نے ٹھنڈا سوٹ پہن رکھا تھا مگر ٹائی کی گرہ کھلی ہوئی تھی۔ سگریٹ مٹھی میں لے کر لمبے سوٹے لگا رہا تھا۔ بات بات پر قہقہہ لگاتا اور اس کا رخ اور سرخ ہوجاتا۔''
اے۔حمید کو ابن انشا یاد آگئے، ان کا بچوں ایسی شرارتیں، مسکراہٹ اور ذہین چہرہ سامنے آگیا اور پھر اس کے ساتھ وہ زمانہ جب ابن انشا اور وہ روز ملا کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''ابن انشا میرا دوست تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے۔ ہماری بہت سی باتیں ایک دوسرے سے ملتی تھیں۔ وہ میرے دل کا حال جان جاتا تھا، میں اس کے دل کا حال معلوم کرلیتا تھا۔'' ابن انشا کا حلیہ کیا تھا جو اے۔حمید کے ذہن پر مرتسم تھا۔ لکھتے ہیں ''وہ اکہرے بدن کا تھا، لہریالے بال، ناک پر موٹے شیشوں والی عینک، سانولا رنگ، بڑی چمکیلی، ذہین آنکھیں۔ کوٹ پتلون اس کا پسندیدہ لباس تھا۔ اس کا نام شیر محمد تھا، کبھی نام کے آگے قیصر اور صحرائی بھی لگا ہوا تھا مگر بعد میں اپنے والد صاحب کے نام کی رعایت سے وہ اپنے آپ کو ابن انشا لکھنے لگا اور اسی نام سے شہرت پائی۔''
سیف الدین سیف سے اے۔حمید کی نیازمندی کا زمانہ پورے ایک عہد پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''سیف صاحب کی وضع دار اور انتہائی خوددار شخصیت کے علاوہ ان کی فکر انگیز، رومانی شاعری کا شروع ہی سے مجھ پرگہرا اثر رہا ہے۔ میں ان کا زبردست مداح تھا۔ امرتسر میں ان کی نظمیں سنتا تو ایک طلسم مجھے اپنے حصار میں لے لیتا۔ چنانچہ جب میں نے لاہور آکر افسانے لکھنے شروع کیے تو میرے فن پر گالز دردی اور کرشن چندر کے علاوہ سیف صاحب کی شاعری کا بھی گہرا اثر تھا۔''
اے ۔حمید کہتے ہیں کہ سیف صاحب شاعر ہونے کے علاوہ فلسفی بھی تھے۔ فلسفی ان معنوں میں کہ ان کی سوچ فلسفیانہ تھی۔ ایک جستجو، ایک مفکرانہ بے قراری، ایک ماورائی تخیل، دلوں میں اتر جانے والے شعلہ صفت خیال کی تڑپ۔
مجتبیٰ حسین نے مصور ای۔ایف۔حسین کا خاکہ لکھا ہے۔ انھوں نے حسین صاحب سے پوچھا، آپ کہتے ہیں کہ اندھے بھی آپ کی تصویروں کو پسند کرتے ہیں، چشم بینا رکھنے والوں کا کیا خیال ہے؟ حسین صاحب نے جواب دیا۔ ''میں تو سمجھتا ہوں نوے فیصد میرے مداح ایسے ہیں جو میری تصویروں کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ کبھی میری تصویریں آگے نکل جاتی ہیں اور میرے مداح پیچھے رہ جاتے ہیں اور کبھی میرے مداح آگے نکل جاتے ہیں اور تصویریں پیچھے رہ جاتی ہیں اور میں بیچ میں کھڑا ان دونوں کو حیرت سے دیکھتا رہتا ہوں۔''
مجتبیٰ حسین نے جب ان سے یہ سوال کیا کہ آپ کے ننگے پیر گھومنے پھرنے کی وجہ کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا۔ ''بھئی! یہ ننگے پاؤں پھرنے کی داستان لمبی ہے۔ میرے بچے اکثر مجھ سے اچھے اچھے جوتے خرید کر لانے کی فرمائش کرتے تھے تو میں نے محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ظاہری شان و شوکت کوئی معنی نہیں رکھتی ضد میں جوتے پہننے چھوڑ دیے اور آج تک اس ضد کی سزا بھگت رہا ہوں۔''
پھر مجتبیٰ حسین نے ایم۔ایف حسین سے پوچھا، یہ تو بتائیے آپ ایک بڑے مصور ہیں، آپ کو اچانک شاعری کے ذریعے اپنے آپ کو بدنام کروالینے کی کیا سوجھی؟ کیا مصوری آپ کے جذبات کے اظہارکے لیے کافی نہیں؟ حسین صاحب نے جواب دیا ''قصہ یہ ہے کہ یورپ کے قیام کے دوران مجھ سے ایک حسین غلطی ہوگئی اور میں کسی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیا۔ میں نے اس پیکر حسن تک اپنے جذبات کے اظہارکے لیے خطوط لکھنے شروع کیے اور اسی مقصد کے لیے اس کے لیے انگریزی میں نظمیں لکھنے لگا۔ میری یہ نظمیں اصل میں میرے نجی خطوط ہیں جو دوستوں کے مشورے پر شایع ہوگئیں۔''
اصغر ندیم سید کی شاعری کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ انوار احمد ان کی خاکہ نگاری کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''وہ بہت اچھی نثر لکھتا تھا، بڑے مقبول کالم۔ پھر اس کے کلاس فیلو اور لڑکوں اور لڑکیوں میں یکساں مقبول، محسن نقوی نے اس سے کہا کہ لڑکیاں کالم نگاروں سے کم اور شاعروں سے زیادہ محبت کرتی ہیں خصوصاً غزل گو شاعروں سے۔ سو اصغر ندیم نے مہ رخوں کے لیے شعرکی مصوری شروع کردی۔''
محمد کاظم نے ''دل سے کب اس کی یاد جاتی ہے'' کے عنوان سے اختر حسین جعفری کا خاکہ لکھا ہے جو خلیل احمد کی اس کتاب میں شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''ایک دن ''فنون'' کے دفتر میں ہم جمع تھے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ علی عباس جلالپوری کو خدا جانے کیا سوجھی اختر حسین جعفری کو مخاطب کرکے معاصرنسل کی شاعری کے بارے میں سوال کیا؟ بتائیے اس شعر وشاعری کی قدر و قیمت کیا ہے؟ ان کے نزدیک گویا یہ محض قافیہ پیمائی کا ایک شغل بے کار تھا۔ یہ سن کر جعفری سکتے میں آگیا۔ سید صاحب کا لحاظ کرتے ہوئے اس سوال کا جواب نہ دے سکا۔ لیکن دوسرے دن وہ مجھے ''فنون'' کے دفتر میں لے آیا تو مجھے ایک طرف لے جاکر کہنے لگا ''سر! میں نے کل رات ایک غزل لکھی ہے جو میں چاہتا ہوں آپ سن لیں۔'' اس نے غزل سنائی:
نہ خشت ہاتھ میں میرے' نہ تیرے ہات میں تھی
شکستگی کی نمو آئینے کی ذات میں تھی
تعلقات تھے یا سرد پانیوں کا سفر
چلا تو برف کی قندیل میرے ہات میں تھی
میں بادِ ہجر سرِ دشتِ آرزوئے سحر
وہ شاخسار سی روشن اُداس رات میں تھی
غزل سن کر میں نے کہا، آپ کی اس غزل کا تعلق کل کے واقعے سے تو نہیں؟ جواب میں جعفری کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ کہنے لگا ''کاظم صاحب میں آپ سے سچ کہتا ہوں۔ کل رات بھر میں سو نہ سکا۔ جب تک یہ غزل نہیں ہوگئی میری آنکھ نہیں لگی۔''