اب یا کبھی نہیں
ملک حالتِ جنگ میں ہے دشمن ہر طرف سے تاک میں بیٹھا ہے۔
پاکستان اپنی بقا کی جنگ اس صورتحال میں لڑرہا ہے جب ہدف اور منزل دھندلائے ہوئے ہیں اور علامات کی بیخ کنی پر زور ہے۔کرپشن، بد انتظامی اور اخلاقی زوال علامات ہیں جو ایسے مرضِ کی نشاندہی کرتے ہیں جس کی ابتدا بہت پہلے ہوچکی تھی اور جس کے تدارک کے لیے غیر حکیمانہ انداز میں تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر عمل کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ مرض اپنی پوری شدت کے ساتھ پوری سوسائٹی میں اس طرح سرایت کر گیا کہ اب انتشار اور بد امنی کے ساتھ پورے ملک کی بقا کو ہی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
حق اور سچ کی تشریح گروہی مفادات کے طابع ہوچکی ہے اور ملک وقوم کی بقا ان سیاسی شخصیات کے بے بصیرت اذہان سے پھوٹتے ہذیان سے مشروط ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے بیرونی مفادات سے مفاہمت کے بل پر ملک و قوم پر مزید مسلط ہونے کے درپے ہیں جس سے ملک اور قوم کی آزادی اور خود انحصاری شدید خطرے سے دو چار ہے۔
ملک کے قیام کو 70 سال سے زائد ہوچکے اور ہم ابھی تک اپنی بقا کے مسائل سے دو چار ہیں۔ عوام کی حالت بد سے بد تر ہوچکی ہے وہ صاف پانی، تعلیم اور بہتر علاج معالجے سے محروم ہیں ۔ لاء اینڈ آرڈر ناپید ہے اور ملک قرضوں کی دلدل میں گلے گلے دھنس چکا ہے ملک کو معاشی طور پرکھوکھلا کردیاگیا ہے۔
جفاکش عوام کو محنت کی کمائی اور قرضوں کے طفیل حکمران اشرافیہ بیرون ملک ، دنیا کے ہر براعظم میں اپنی خاندانی جائیداد بناکر صرف لوٹ مار کے لیے اس ملک پر قابض ہے اور منی لانڈرنگ کے بین الاقوامی ماہر وکیلوں کی بدولت اور ہمارے ملکی قوانین میں موجود بعض نقائص کے سبب ابھی تک قرار واقعی سزاؤں سے بچنے کے راستے تلاش کررہی ہے۔
ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ان ملک دشمن جرائم کے خلاف بھرپور اقدامات کیے ہیں اور سر توڑکوشش کررہی ہے کہ ان کے جرائم پر ان کو بھرپور سزائیں دے سکے لیکن اس کی راہ میں برسر اقتدار اشرافیہ کی پروردہ نوکر شاہی آڑے آرہی ہے اور حیلے بہانوں سے ان کی سزاؤں کو ٹالنے میں مددگار بنی ہوئی ہے۔
باشعور عوام ان سب چالوں کو سمجھ رہے ہیں مگر انھیں معاشی طور پر اتنا بد حال کردیاگیا ہے اور جاگیرداری، سرداری، علما سو اور سرمایہ داری کے کارٹل بناکر انھیں اس قدر تقسیم کردیاگیا ہے اور انھیں اس طرح شکنجے میں کس دیا گیا ہے کہ وہ بے بسی سے یہ سب تماشا دیکھ رہے ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے میں مصروف ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان سے تنظیم سازی کا حق چھین لیا گیا ہے، ان کی اقتدارکے ایوانوں میں کہیں نمایندگی موجود نہیں۔ مزدور کا نمایندہ سرمایہ دار، ہاری کا نمایندہ جاگیردار اور قبیلے اور برادری کا نمایندہ سردار اور چوہدری بنا ہوا ہے اور عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی نوکر شاہی حکمران اشرافیہ کی تابعداری میں انھیں کچلنے اور ان کا خون پینے میں مصروف ہے۔
موجودہ نظام کو بدلے بغیر ملک اور قوم کی کوئی بہتری ممکن نہیں ۔اس کرپٹ نظام کی بائی پروڈکٹ اخلاقی اور سماجی گراوٹ، انتہا پسندی اور معاشی دہشت گردی اپنے بھیانک روپ دکھا رہی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں انسانیت کی جگہ درندگی اور لا قانونیت فروغ پارہی ہے۔
کیا کسی مہذب معاشرے میں کسی طالب علم کے ہاتھوں استاد کا قتل، معصوم اور کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ فعل قبیح اور ان کی ویڈیو بناکر پیسے کا حصول، جائیداد اور روپے پیسوں کی خاطر اولاد کا ماں باپ کو قتل کردینا، ملک اور قوم کے پیسوں پر پلنے والے حاکموں کا قومی دولت کو شیر مادر کی طرح ہضم کرنے کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟ ہماری سماجی اقدار، تہذیب و تمدن اور روایات کہاں گئیں کیا یہ سب کچھ ایک اسلامی جمہوری ملک کے شایان شان ہوسکتا ہے؟
اب اعلیٰ عدلیہ کے جرأت مندانہ اقدامات کے طفیل اشرافیہ کے محلات پر لرزہ طاری ہے اور اس کے اچھے نتائج بھی نکل رہے ہیں مگر یہ کافی نہیں۔ ہم علامات کی بیخ کنی میں مصروف ہیں مگر اصل مرض کی تباہ کاریاں تو موجود ہیں۔ آپ ذرا ملکی صورتحال پر نظر کیجیے کیا کسی سیاسی پارٹی میں ان خرابیوں کے تدارک کے لیے کوئی جامع پروگرام نظر آتا ہے؟ عوام الناس کی بہتری اور حکمرانی کا کوئی عملی مظاہرہ موجود ہے؟ کیا ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا پروگرام اور اس کی مرحلہ وار تفصیلات کا کوئی ذکر ہے۔
ملک سے جاگیرداری، سرداری اور چوہدریوں کے ظالمانہ پنجے اور سرمایہ داروں کے کارٹل سے عوام الناس کو نکالنے کا عزم اور کوئی پروگرام نظام آتا ہے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے سب کے سب نعروں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا پارٹی اسٹرکچر ہے جو انھی ظالمانہ نظام کے کارپردازوں کی نمایندگی کرتا ہے۔
الیکشن قریب ہیں اور عوام ہی کے لوٹے ہوئے کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے یہ پھر عوام کے سروں پر مسلط ہونا چاہتے ہیں حالیہ سینیٹ الیکشن میں اربوں کروڑوں کی بولیاں جن کی ادائیگی ان کے باہر کے اکاؤنٹس میں ہورہی ہیں کیا عوامی بہبود کے لیے استعمال ہوںگی؟
بین الاقوامی حالات تبدیل ہورہے ہیں ملک چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ پیرس کانفرنس میں پاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام لگاکر معاشی پابندیوں کی تیاری ہورہی ہے مگر اس لٹیرے ٹولے کو ملکی سلامتی سے زیادہ اپنی تجوریوں کو بھرنے کی فکر لاحق ہے۔ کیونکہ ان کی آل اولاد، جائیدادیں سب باہر ہیں حتیٰ کہ یہ اپنا علاج معالجہ بھی باہر کرواتے ہیں۔ عوامی صحت کے مسائل گمبھیر ہیں اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے جس کی خبریں آئے دن اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں مگر ان کی بلا سے۔
بھولے بھالے عوام نے آنے والے الیکشن کے بارے میں جو امیدیں باندھ رکھی ہیں وہ نقش برآب ہی ثابت ہوںگی۔ یہ الیکشن نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کی جد وجہد کی پیداواری دولت میں حصہ داری کی جنگ ہے جس میں عوام کو مختلف نعروں اور پروگراموں کی جھلکیاں دکھاکر پھر ایک دفعہ اور بے وقوف بنایا جائے گا تاکہ اپنی تجوریوں کے منہ پھر ایک دفعہ بھرسکیں۔
ساری دنیا کی سماجی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جاگیرداری، سرداری اور چوہدریوں کا نظام ختم کیے بغیر کسی معاشرے نے ترقی نہیں کی۔ یہ پیداواری نظام ہی ہے جو کسی بھی قوم کی ذہنی اور سماجی ترقی کا تعین کرتا ہے عوام اپنی بقا اور حقوق کے تحفظ کے لیے جب تک خود نہیں اٹھیںگے کوئی پہاڑی بناکر جد وجہد نہیں کریںگے اس وقت تک ان کی حالت بد سے بد تر ہی رہے گی۔
قومی سرمایہ دار، دانشور مزدور کسان سب کو اس جد وجہد میں شامل ہوکر اپنی پارٹی بناکر ایک سخت اور کٹھن جد وجہد کرنا ہوگی۔ ملک حالتِ جنگ میں ہے دشمن ہر طرف سے تاک میں بیٹھا ہے۔ یہ 22 کروڑ عوام ہی ہیں جن کی مشترکہ جد وجہد اس ملک کو بچاسکتی ہے ان کا اتحاد ہی اس ملک کے تحفظ کا ضامن ہے اور یہ اتحاد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ان کے حقوق کی ضمانت دی جائے اور ان کی تقسیم صحت اور روزگار کا باعث بندوبست کیا جائے، علم عام کیا جائے اور اسلام کا نام لے کر بد ترین ظالمانہ نظام کی تعمیرات پر پابندی عائد کی جائے اور حقیقی اسلامی تعلیمات، عوام دوستی اور حقوق العباد کی افضلیت پر مبنی اسلامی فلاحی مملکت کے حصول کو اپنی منزل بنایاجائے۔