چین کا نیا ماؤزے تنگ
کرپشن سے نبردآزما چینی صدر اپنے دیس کو سپرپاور بنانے کی راہ پر گامزن۔
جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں، تو بیجنگ میں چین کی پارلیمنٹ، نیشنل پیپلز کانگریس کا اجلاس منعقد ہورہا ہے۔ قوی امکان ہے، اس اجلاس میں چین کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے یہ شق ختم کردی جائے کہ ایک لیڈر دو بار ہی صدر بن سکتا ہے۔
یہ شق ختم ہوتے ہی یہ ممکن ہوجائے گا کہ چینی صدر، شی جن پنگ 2022ء کے بعد بھی چین کے صدر رہ سکیں۔ گویا بانیِ چین، ماؤزے تنگ کی طرح وہ بھی طویل عرصے حکمرانی کرسکتے ہیں۔اس لیے انہیں چین کا نیا ماؤزے تنگ کہنا بجا ہوگا۔
چونسٹھ سالہ چینی صدر کی داستان حیات بعض لحاظ سے خاصی غیر معمولی ہے۔ انہوں نے 1953ء میں کھاتے پیتے گھرانے میں جنم لیا۔ والد شی زونگ شن زمیندار تھے اور ماؤزے تنگ کے قریبی ساتھی۔ چناںچہ کمیونسٹ پارٹی برسراقتدار آئی، تو وہ وزیر رہے اور پارلیمنٹ کے وائس چیئرمین بھی منتخب ہوئے۔
1963ء میں مخالفین سے راہ و رسم بڑھانے کے شبے میں ماؤ حکومت شی زونگ شن پر نامہربان ہوگئی۔ ان کا زوال شروع ہوا اور انہیں ٹریکٹر بنانے والی ایک کمپنی میں ڈپٹی منیجر لگادیا گیا۔ 1966ء میں ماؤزے تنگ نے ثقافتی انقلاب برپا کردیا۔ اس انقلاب کے ذریعے ماؤ چینی معاشرے سے زمین داروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا خاتمہ چاہتے تھے۔
شی زونگ شن بھی زمین دار تھے، لہٰذا انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کو جیل میں رکھ کر چکی پسوائی گئی تاکہ وہ غربت کے تجربات سے آگاہ ہوسکیں۔ یہی نہیں 1968ء میں بیٹے شی جن پنگ کو بھی ایک دور دراز گاؤں بھیج دیا گیا۔ مدعا یہ تھا کہ امیر باپ کا بیٹا بھی کسانوں اور مزدوروں کے درمیان رہ کر ان کی طرح جینا سیکھ سکے۔
گاؤں میں روکھی سوکھی روٹی کھانے کو ملی تو شی جن پنگ بہت پریشان ہوئے۔ اب پندرہ سالہ لڑکے کو کھیتوںاور کانوں میں کام بھی کرنا پڑا۔ وہ تو سونے کا چمچ منہ میں لیے پیدا ہوئے تھے۔ گھر میں خوراک باافراط دستیاب تھی۔ اچھا کھاتے، اچھا پہنتے تھے۔ اب اچانک غربت کی کٹھن مشکلات میں گرفتار ہوئے تو گھبرا گئے۔
ایک دن موقع پاکر گاؤں سے فرار ہوئے اور واپس ماں کے پاس بیجنگ پہنچ گئے۔جلد ہی پولیس نے نوجوان بھگوڑے کو گرفتار کرکے دوبارہ گاؤں بھجوا دیا۔ اب شی جن پنگ پر زیادہ سختی ہونے لگی۔ کھانے کو دال ملتی اور روٹیاں بھی خود پکانا پڑتیں۔ اس سخت طرز زندگی نے چند ہی ماہ میں امارت میں پلے نوجوان کی اکڑفوں نکال دی۔
تاہم یہ بات شی جن پنگ کے حق میں جاتی ہے کہ وہ باغی نہیں بنے۔ انہوں نے حالات سے سمجھوتا کرلیا اور کمیونسٹ پارٹی کے رکن بنے۔ سخت تجربات نے انہیں تدبر و حکمت سے بھی روشناس کرایا تھا۔ اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سیاست داں بنیں گے تاکہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاکر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
نیت صاف تھی اور جذبہ نیک لہٰذا راہ میں آئی رکاوٹیں ایک ایک کرکے دور ہونے لگیں اور وہ کمیونسٹ پارٹی میں ترقی کرنے لگے۔ انہیں افہام و تفہیم سے کام لینے والا رہنما سمجھا جانے لگا۔ خاص طور پر یہ بات مشہور ہوگئی کہ شی جن پنگ اصول و قوانین پر چلتے ہیں اور کرپشن کے قریب نہیں پھٹکتے۔ کوئی چند ٹکوں میں ان کا ضمیر نہیں خرید سکتا تھا۔اپنے صاف ستھرے کردار کی وجہ سے انہیں پارٹی میں تیزی سے ترقی ملی اور آخر کار وہ مارچ 2013ء میں چین کے صدر بن گئے۔
اقتدار سنبھال کر شی جن پنگ نے اہم ترین قدم یہ اٹھایا کہ کرپٹ سرکاری افسروں اور پارٹی کے سیاست دانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ''شیروں سے لے کر مکھیوں'' (tigers and flies) تک کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ معنی یہ کہ کرپٹ لوگ کتنے ہی طاقتور اور بااثر ہوں، وہ اب قانون کے شکنجے میں ضرور آئیں گے۔دراصل شی جن پنگ سمجھتے تھے کہ چین اسی وقت سیاسی معاشی اور عسکری طور پر عالمی قوت بن سکتا ہے جب معاشرے میں اصول و قانون کی حکمرانی ہو اور وہ کرپشن کی لعنت سے پاک ہوجائے۔ صدر نے اپنے بااعتماد ساتھی، وینگ قیشان ( Wang Qishan )کو اینٹی کرپشن مہم کا سربراہ بنایا اور انہوں نے بڑے زور دار انداز میں یہ مہم چلائی۔
2013ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد لوگ کرپشن کے مقدمات میں ماخود ہوچکے۔ ان میں طاقت ور جرنیل، سرکاری افسر اور سیاست داں شامل ہیں۔ بعض کو جیل ہوئی اور بعض ملازمت سے برطرف کردیئے گئے۔ اس مہم نے شی جن پنگ کو چینی عوام میں بہت مقبول بنادیا۔
صدر شی جن پنگ نے حکومت سنبھال کر سیاست، معیشت، عسکریات، امور خارجہ، معاشرت غرض اہم شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ شروع کیا کہ چین کے علاوہ ایشیا، روس اور یورپ بھی ترقی کرسکے۔پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ اسی منصوبے کا اہم جزو ہے۔چینی صدر خواہ مخواہ بیرونی مسائل میں ٹانگ نہیں اڑاتے مگر چین کے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر چینی افواج کو جدید ترین اسلحہ مہیا کررہے ہیں تاکہ وہ آنے والے برسوں میں ناقابل تسخیر قوت بن جائیں۔
چین کی ترقی و خوشحالی کے سلسلے میں چینی صدر جو نظریات وخیالات رکھتے ہیں، انہیں ''شی جن پنگ سوچ'' (Xi Jinping Thought) کے نام سے کمیونسٹ پارٹی کے منشور میں شامل کیا جاچکا۔ ماؤزے تنگ کے بعد وہ پہلے چینی قائد ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ ان کا ایک خوبصورت قول ہے:''خوشی آسمان سے نہیں ٹپکتی اور نہ ہی خواب بیٹھے بٹھائے پورے ہوتے ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو سخت محنت اور انکسار سے کام لینا چاہیے۔ میں محنت کو سب سے زیادہ معزز، شریفانہ، عظیم اور خوبصورت صفت سمجھتا ہوں۔''
جب یہ اعلان ہوا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے آئین میں تبدیلی لارہی ہے تاکہ شی جن پنگ کم از کم 2027ء تک صدر رہ سکیں، تو مغربی میڈیا کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ وہ فوراً یہ راگ الاپنے لگا کہ شی جن پنگ آمر بننا چاہتے ہیں تاکہ چینی عوام پر اپنی مرضی ٹھونس سکیں۔
دراصل چین میں حکمران طبقے کو احساس ہوچکا کہ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں ملک معاشی و عسکری طور پر سپرپاور بن سکتا ہے۔ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے مثلاً آہنی عزم، خود اعتمادی، جذبہ حب الوطنی، دیانت داری، اصول و قوانین پر عمل وغیرہ، وہ چینی صدر میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اسی لیے حکمران طبقے نے فیصلہ کیا کہ شی جن پنگ کی قیادت کا عرصہ بڑھا دیا جائے۔ چین میں واحد پارٹی کی حکومت ضرور موجود ہے مگر وہاں ایک شخص اتنا زیادہ طاقتور نہیں ہوسکتا کہ اپنے اقتدار کی مدت میں تن تنہا اضافہ کرلے۔ یہ فیصلہ پارٹی کے سبھی اعلیٰ لیڈر مل جل کر کرتے ہیں۔
آج کل شی جن پنگ نے اندرون ملک اپنی سب سے زیادہ توجہ کرپشن کے خلاف جہاد پر مرکوز کررکھی ہے۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنے کی خاطر انہوں نے ایک نئے طاقتور سرکاری ادارے، نیشنل سپروائزری کمیشن کی بنیاد رکھی ۔ اس کمیشن کی پولیس اب چین میں ہر کرپٹ آدمی کو گرفتار کرسکے گی۔ مدعا یہی ہے کہ کرپشن سے پاک صاف ستھرا چینی معاشرہ تشکیل پا جائے۔
شی جن پنگ کا طویل عرصہ اقتدار میں رہنا پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ انہی کے دور میں سی پیک منصوبے کا آغاز ہوا جو رکاوٹیں سامنے آنے کے باوجود جاری و ساری ہے۔ شی جن پنگ کی موجودگی ضمانت بن جائے گی کہ یہ منصوبہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے۔ دنیا والوں کو تیار رہنا چاہیے کہ کم از کم اگلے ایک عشرے تک سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں صدر شی کے خیالات و نظریات اور اصول و قوانین کی حکمرانی رہے گی اور ان کا طرز حکومت چین کو ایک سپرپاور کی شکل میں ڈھال سکتا ہے۔
یہ شق ختم ہوتے ہی یہ ممکن ہوجائے گا کہ چینی صدر، شی جن پنگ 2022ء کے بعد بھی چین کے صدر رہ سکیں۔ گویا بانیِ چین، ماؤزے تنگ کی طرح وہ بھی طویل عرصے حکمرانی کرسکتے ہیں۔اس لیے انہیں چین کا نیا ماؤزے تنگ کہنا بجا ہوگا۔
چونسٹھ سالہ چینی صدر کی داستان حیات بعض لحاظ سے خاصی غیر معمولی ہے۔ انہوں نے 1953ء میں کھاتے پیتے گھرانے میں جنم لیا۔ والد شی زونگ شن زمیندار تھے اور ماؤزے تنگ کے قریبی ساتھی۔ چناںچہ کمیونسٹ پارٹی برسراقتدار آئی، تو وہ وزیر رہے اور پارلیمنٹ کے وائس چیئرمین بھی منتخب ہوئے۔
1963ء میں مخالفین سے راہ و رسم بڑھانے کے شبے میں ماؤ حکومت شی زونگ شن پر نامہربان ہوگئی۔ ان کا زوال شروع ہوا اور انہیں ٹریکٹر بنانے والی ایک کمپنی میں ڈپٹی منیجر لگادیا گیا۔ 1966ء میں ماؤزے تنگ نے ثقافتی انقلاب برپا کردیا۔ اس انقلاب کے ذریعے ماؤ چینی معاشرے سے زمین داروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا خاتمہ چاہتے تھے۔
شی زونگ شن بھی زمین دار تھے، لہٰذا انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کو جیل میں رکھ کر چکی پسوائی گئی تاکہ وہ غربت کے تجربات سے آگاہ ہوسکیں۔ یہی نہیں 1968ء میں بیٹے شی جن پنگ کو بھی ایک دور دراز گاؤں بھیج دیا گیا۔ مدعا یہ تھا کہ امیر باپ کا بیٹا بھی کسانوں اور مزدوروں کے درمیان رہ کر ان کی طرح جینا سیکھ سکے۔
گاؤں میں روکھی سوکھی روٹی کھانے کو ملی تو شی جن پنگ بہت پریشان ہوئے۔ اب پندرہ سالہ لڑکے کو کھیتوںاور کانوں میں کام بھی کرنا پڑا۔ وہ تو سونے کا چمچ منہ میں لیے پیدا ہوئے تھے۔ گھر میں خوراک باافراط دستیاب تھی۔ اچھا کھاتے، اچھا پہنتے تھے۔ اب اچانک غربت کی کٹھن مشکلات میں گرفتار ہوئے تو گھبرا گئے۔
ایک دن موقع پاکر گاؤں سے فرار ہوئے اور واپس ماں کے پاس بیجنگ پہنچ گئے۔جلد ہی پولیس نے نوجوان بھگوڑے کو گرفتار کرکے دوبارہ گاؤں بھجوا دیا۔ اب شی جن پنگ پر زیادہ سختی ہونے لگی۔ کھانے کو دال ملتی اور روٹیاں بھی خود پکانا پڑتیں۔ اس سخت طرز زندگی نے چند ہی ماہ میں امارت میں پلے نوجوان کی اکڑفوں نکال دی۔
تاہم یہ بات شی جن پنگ کے حق میں جاتی ہے کہ وہ باغی نہیں بنے۔ انہوں نے حالات سے سمجھوتا کرلیا اور کمیونسٹ پارٹی کے رکن بنے۔ سخت تجربات نے انہیں تدبر و حکمت سے بھی روشناس کرایا تھا۔ اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سیاست داں بنیں گے تاکہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاکر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
نیت صاف تھی اور جذبہ نیک لہٰذا راہ میں آئی رکاوٹیں ایک ایک کرکے دور ہونے لگیں اور وہ کمیونسٹ پارٹی میں ترقی کرنے لگے۔ انہیں افہام و تفہیم سے کام لینے والا رہنما سمجھا جانے لگا۔ خاص طور پر یہ بات مشہور ہوگئی کہ شی جن پنگ اصول و قوانین پر چلتے ہیں اور کرپشن کے قریب نہیں پھٹکتے۔ کوئی چند ٹکوں میں ان کا ضمیر نہیں خرید سکتا تھا۔اپنے صاف ستھرے کردار کی وجہ سے انہیں پارٹی میں تیزی سے ترقی ملی اور آخر کار وہ مارچ 2013ء میں چین کے صدر بن گئے۔
اقتدار سنبھال کر شی جن پنگ نے اہم ترین قدم یہ اٹھایا کہ کرپٹ سرکاری افسروں اور پارٹی کے سیاست دانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ''شیروں سے لے کر مکھیوں'' (tigers and flies) تک کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ معنی یہ کہ کرپٹ لوگ کتنے ہی طاقتور اور بااثر ہوں، وہ اب قانون کے شکنجے میں ضرور آئیں گے۔دراصل شی جن پنگ سمجھتے تھے کہ چین اسی وقت سیاسی معاشی اور عسکری طور پر عالمی قوت بن سکتا ہے جب معاشرے میں اصول و قانون کی حکمرانی ہو اور وہ کرپشن کی لعنت سے پاک ہوجائے۔ صدر نے اپنے بااعتماد ساتھی، وینگ قیشان ( Wang Qishan )کو اینٹی کرپشن مہم کا سربراہ بنایا اور انہوں نے بڑے زور دار انداز میں یہ مہم چلائی۔
2013ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد لوگ کرپشن کے مقدمات میں ماخود ہوچکے۔ ان میں طاقت ور جرنیل، سرکاری افسر اور سیاست داں شامل ہیں۔ بعض کو جیل ہوئی اور بعض ملازمت سے برطرف کردیئے گئے۔ اس مہم نے شی جن پنگ کو چینی عوام میں بہت مقبول بنادیا۔
صدر شی جن پنگ نے حکومت سنبھال کر سیاست، معیشت، عسکریات، امور خارجہ، معاشرت غرض اہم شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ شروع کیا کہ چین کے علاوہ ایشیا، روس اور یورپ بھی ترقی کرسکے۔پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ اسی منصوبے کا اہم جزو ہے۔چینی صدر خواہ مخواہ بیرونی مسائل میں ٹانگ نہیں اڑاتے مگر چین کے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر چینی افواج کو جدید ترین اسلحہ مہیا کررہے ہیں تاکہ وہ آنے والے برسوں میں ناقابل تسخیر قوت بن جائیں۔
چین کی ترقی و خوشحالی کے سلسلے میں چینی صدر جو نظریات وخیالات رکھتے ہیں، انہیں ''شی جن پنگ سوچ'' (Xi Jinping Thought) کے نام سے کمیونسٹ پارٹی کے منشور میں شامل کیا جاچکا۔ ماؤزے تنگ کے بعد وہ پہلے چینی قائد ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ ان کا ایک خوبصورت قول ہے:''خوشی آسمان سے نہیں ٹپکتی اور نہ ہی خواب بیٹھے بٹھائے پورے ہوتے ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو سخت محنت اور انکسار سے کام لینا چاہیے۔ میں محنت کو سب سے زیادہ معزز، شریفانہ، عظیم اور خوبصورت صفت سمجھتا ہوں۔''
جب یہ اعلان ہوا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے آئین میں تبدیلی لارہی ہے تاکہ شی جن پنگ کم از کم 2027ء تک صدر رہ سکیں، تو مغربی میڈیا کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ وہ فوراً یہ راگ الاپنے لگا کہ شی جن پنگ آمر بننا چاہتے ہیں تاکہ چینی عوام پر اپنی مرضی ٹھونس سکیں۔
دراصل چین میں حکمران طبقے کو احساس ہوچکا کہ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں ملک معاشی و عسکری طور پر سپرپاور بن سکتا ہے۔ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے مثلاً آہنی عزم، خود اعتمادی، جذبہ حب الوطنی، دیانت داری، اصول و قوانین پر عمل وغیرہ، وہ چینی صدر میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اسی لیے حکمران طبقے نے فیصلہ کیا کہ شی جن پنگ کی قیادت کا عرصہ بڑھا دیا جائے۔ چین میں واحد پارٹی کی حکومت ضرور موجود ہے مگر وہاں ایک شخص اتنا زیادہ طاقتور نہیں ہوسکتا کہ اپنے اقتدار کی مدت میں تن تنہا اضافہ کرلے۔ یہ فیصلہ پارٹی کے سبھی اعلیٰ لیڈر مل جل کر کرتے ہیں۔
آج کل شی جن پنگ نے اندرون ملک اپنی سب سے زیادہ توجہ کرپشن کے خلاف جہاد پر مرکوز کررکھی ہے۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنے کی خاطر انہوں نے ایک نئے طاقتور سرکاری ادارے، نیشنل سپروائزری کمیشن کی بنیاد رکھی ۔ اس کمیشن کی پولیس اب چین میں ہر کرپٹ آدمی کو گرفتار کرسکے گی۔ مدعا یہی ہے کہ کرپشن سے پاک صاف ستھرا چینی معاشرہ تشکیل پا جائے۔
شی جن پنگ کا طویل عرصہ اقتدار میں رہنا پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ انہی کے دور میں سی پیک منصوبے کا آغاز ہوا جو رکاوٹیں سامنے آنے کے باوجود جاری و ساری ہے۔ شی جن پنگ کی موجودگی ضمانت بن جائے گی کہ یہ منصوبہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے۔ دنیا والوں کو تیار رہنا چاہیے کہ کم از کم اگلے ایک عشرے تک سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں صدر شی کے خیالات و نظریات اور اصول و قوانین کی حکمرانی رہے گی اور ان کا طرز حکومت چین کو ایک سپرپاور کی شکل میں ڈھال سکتا ہے۔